ایکوسسٹم اور وہیل۔۔ظریف بلوچ

بلوچستان کے ساحلی علاقے  پسنی کے سمندر میں مقامی ماہی گیروں نے دنیا کے نایاب اور معدومیت کے خطرے سے دوچار عربین ہیمپ بیک وہیل کے  ایک جوڑے کو اٹھکھیلیاں  کرتے ہوئے دیکھا اور اس دلفریب منظر کو قریب سے کیمرے کی آنکھ  میں  قید کرکے محفوظ کرلیا اور   اس منظر کی ویڈیو فوراً  ہی وائرل ہوکر آبی حیات سے قربت رکھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث بن گئی اور ماہرین اسکو حیاتیاتی تنوع اور آبی حیات کے لئے نیک شگون قرار دے رہے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف میرین سائنسز کے معاون پروفیسر شعیب کیانی کے مطابق عربین ہیمپ بیک وہیل دنیا کا نایاب ترین وہیل ہے اور ایک تحقیق کے مطابق اب انکی نسل مختلف وجوہات کی بنا پر گھٹ کر صرف 100 کے قریب رہ گئی ہیں۔ انکے مطابق یہ وہیل کی وہ نسل ہے جو سارا سال عربین سمندر میں رہتی ہے ۔

انڈیا، پاکستان،عمان،سری لنکا،یمن،سومالیہ، ایران اور متحدہ عرب امارات کے  سمندر میں وہیل کی یہ قسم دیکھی گئی  ہے۔۔ شعیب کیانی نے کہا کہ وہیلز خوراک کی تلاش میں اکثر ان علاقوں کا رخ کرتی ہیں ،جہاں مچھلیوں کی تعداد زیاد ہوتی ہے اور بلوچستان کے سمندر میں وہیل کے جوڑے کو دیکھنے کے بعد یہ خوش آئند بات ہے کہ اب بھی بلوچستان کا سمندر مچھلیوں کی  افزائشِ  نسل کے لئے پائیدار ہے اور یہاں مچھلیوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔

انٹرنیشنل یونین فار کنررویشن آف نیچر (IUCN) نے ہیمپ بیک وہیل کو 1988 میں معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں کی لسٹ میں شامل کیا تھا ۔اس نسل کی بالغ وہیل کی لمبائی 12 سے 18 میٹر اور وزن 40 ٹن کےقریب ہوتا ہے۔

حیاتیاتی تنوع اور بقا کے لئے وہیلز( Whalse) کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ سمندری نظام کے ایکو سسٹم انجینئر ہیں ۔شعیب کیانی کے مطابق جب وہیلز خوراک کی تلاش میں گہرے  سمندر میں  غوطہ   لگاتی ہیں   تو گہرے  سمندر میں موجود بہت سے نیوٹرینٹس( Nutrients) انکے جسم پر چپک جاتے  ہیں۔ سطح سمندر میں آنے کے بعد آئرن اور دوسرے نیوٹرینٹس ، فاسفیٹ اور نائٹریٹ پانی میں مکس ہونے کی وجہ سے سمندر کی زرخیزی اور پیداواری صلاحیت بڑھاتے ہیں  ۔۔ جبکہ فیڈنگ کے بعد یہ بڑی تعداد میں فضلہ خارج کرتی ہیں تو ان فضلوں کی وجہ سے آئرن اور دوسرے نیوٹرینٹس فاسفیٹ،نائیٹریٹ اور مائیکرو Micaro و میکرو (Macro)نیوٹرینٹس سمندر میں مکس ہوجاتے  ہیں، جو کہ سمندر کی زرخیزی اور پیداواری صلاحتیں بڑھانے کے لئے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ شعیب کیانی کے مطابق گہرے  سمندر میں بہت زیادہ نیوٹرینٹس موجود ہیں کیونکہ کشش ثقل کی وجہ سے ہر چیز سمندر کی  گہرائی تک جاتی ہےاور اوپری سطح پر نیوٹرینٹس کی کمی ہے ۔ سمندر کو قدرتی کھاد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام وہیلز کرتی ہیں۔ شعیب کیانی مزید بتاتے ہیں کہ سمندر میں پودے اور درخت موجود نہ ہونے کی وجہ سے ضیائی تالیف( Photosynthesis)کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے (Chemosynthesis) کا عمل مائیکرو اسکوپ انیمیل کرتے ہیں اور اس عمل میں وہیل کے فضلے کا بڑا عمل دخل ہے اور اس لئے وہیل کو ایکوسسٹم انجینئر کہا جاتا ہے۔

شعیب کیانی کے مطابق اکثر وہیلز سمندر کے درمیانی لیول میں رہتی ہیں اور چھوٹی مچھلیوں کو خوراک بناتی ہیں۔ جبکہ کچھ ٹاپ لیول کے شکاری نہ صرف مچھلیوں کا شکار کرتے  ہیں بلکہ اپنی طرح کے دوسرے وہیلز کا بھی شکار کرتے ہیں ۔ کلر وہیل اکثر دوسری  طرح کے وہیلز کو کھاتا ہے۔ شعیب کیانی کےمطابق وہیلز اکثر ان سمندروں کا رخ کرتے ہیں جہاں مچھلیوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے کیونکہ انہیں بڑی تعداد میں خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔

بلوچستان کے سمندر کی یہ خاصیت ہے کہ یہاں ساحل سے چند کلومیڑ دور گہرا پانی شروع ہوجاتا ہے اور یہ پانی سمندر کے اندر موجود پہاڑیوں میں ٹکرانے کے بعد نیچے سے اوپر کی طرف حرکت کرتا  ہے اور نیوٹرینٹس بھی اوپر آتے ہیں جو کہ سمندر کی زرخیزی کے لئے اہم ہیں۔

ایکوسسٹم کے لئے وہیل اس لئے اہم ہے کہ وہیلز غذائی سلسلہ کا ایک اہم جزو ہے اور سمندر کے غذائی سلسلے کی  مختلف کڑیوں کے درمیان تال میل کو برقرار ،پائیدار اور متوازن رکھنےمیں وہیل بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسکے جسم پر کچھ ایسے طفیلی Perasite ( دم پر پلنے والے جانور یا پودے) ہوتے ہیں جو دنیا میں کسی جانور پر نہیں ہوتے ہیں اور یہ وہیل کے جسم کے اندر سے خوراک لیتے ہیں۔
شعیب کیانی کے مطابق مرنے کے بعد انکے خول ساحل کنارے پائے جاتے ہیں اور بہت سارے وہیلز  کے سمندر کی گہرائی میں ڈوب جانے کی وجہ سے انکی ڈیڑ باڈی گہری سمندر میں چلی جاتی ہے۔سورج کی روشنی چونکہ سمندر کی گہرائی تک نہیں پہنچ پاتی ہے اس لئے ضیائی تالیف کا عمل نہیں ہوتا ہے۔ سمندر کی گہرائی میں ایسے بیکٹیریا موجود ہیں جو زمین کے گہرائی سے نکلنے والے کیمیکل کو بریک ڈاؤن کرکے Chemosynthesis کرتے ہیں اور اس پر سمندر کا  پوری غذائی سلسلہ منحصر ہے۔

سمندر کی ایسی  جگہوں پر زندگی ہوتی ہے جہاں پانی کا رساؤ ہورہا  ہو  یا وہیلز کی  مردہ باڈی پڑی ہوئی  ہوں۔ وہاں پر ایسے کیمیکل موجود ہیں جنہیں بیکٹیریا توڑ پھوڑ کر خوراک بناتے ہیں اور اسی فوڈ چین پر سمندر کا نظام اور بقا قائم و دائم ہے۔

شعیب کیانی نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں جتنے سمندر ہیں وہاں ہر دس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مردہ وہیل کا  جسم پڑا  ہوا   ہے اور اس طرح گہرے  سمندر میں  زندگی  کو جاری رکھنے کے لئے وہیلز کی ڈیڈ  باڈی انتہائی اہمیت کی  حامل ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو گہرے  سمندر میں سورج کی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے اس نظام کا جاری رہنا ممکن نہ ہوگا۔

شعیب کیانی نے وہیلز کی  معدومیت کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ قدرتی طور پر دنیا بھر میں وہیلز کی تعداد کم تھی جبکہ 1960 میں روس Russia نے دو، تین سال تک وہیلز کو مارنے کے لئے گہری سمندر میں فشنگ کی تھی  ،جس سے صرف پاکستان کے سمندرمیں 200 کے قریب وہیلز ماری  گئی تھیں ۔ جبکہ وہیل کے بچے کافی دیر بعد بالغ ہوکر افزائش نسل کے عمل کو بڑھاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موجودہ دور میں سمندری آمدوروفت اور رش ٹریفک کی وجہ سے وہیلز کا  بحری جہازوں سے ٹکرانا، ماہی گیروں کے جالوں میں پھنسنا اور سمندری آلودگی انکی موت کا  سبب بن رہے ہیں۔شعیب کیانی کے مطابق اس وقت وہیلز کی آبادی کو ریکور کرنے میں مشکل آرہی ہے اور ریسرچر اس حوالے سے تحقیق کررہے ہیں کہ کس طرح معدومیت کے خطرے سے دوچار وہیلز کی  نسل کو بچایا جائے کیونکہ انکے جسم پر بڑے بڑے گول پیراسائیٹ ہونے کی وجہ سے بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ اس لئے ماہرین حیاتیات کہتے ہیں کہ  وہیل کو ڈسٹرب نہ کیا جائے کیونکہ انہی کی وجہ سے ایکوسسٹم قائم ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔