آنلائن چپیڑ/نورِ بدر

ایک دور تھا جب لوگ ’ٹاہلی تھلے‘ حقے گڑگڑایا کرتے تھے اور خوب رونقیں لگاتے تھے۔ علاقے بھر میں کوئی منجی توڑنے والا ویلا نکما نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب کے سب بابا جی کی منجی کے آس پاس،ان کے حقے کی گڑ گڑ اور گیان بھری باتیں سننے کے لیے ٹاہلی تھلے جمع ہوجایا کرتے تھے۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ وقت گزاری کی غرض سے لوگ ایک دوسرے کو پہیلیاں بجھواتے اور من گھڑت قصے کہانیاں سناتے ،جنہیں ہر کوئی سچا واقعہ سمجھ کر پوری توجہ اور شوق سے سنتا۔ بھلے وقت تھے گوگل سرچ نہیں ہوتی تھی لوگ محض اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑاتے اور جب یہ گھوڑے تھک جاتے تو اپنے اپنے گھوڑے سمیت چپ چاپ جا کر سو جایا کرتے تھے۔ جگراتے کا رواج نہیں تھا، دن بھر محنت مشقت میں گزرتا پھر رات ہوتی تو راوی چین ہی چین لکھتا تھا اور دن چڑھتے ہی زندگی کا رونق میلہ بحال ہوجاتا۔ گاؤں بھر میں ایک ہی سیانا ہوا کرتا تھا جسے بیک وقت سبھی دل سے سیانا مانتے تھے اور وہ سیانے بابا جی سب کے تایا کہلاتے۔ سیانوں کی بھی الگ ہی ادا ہوتی تھی راہ چلتے جگہ جگہ رک کر گیان بانٹتے اور مفت مشورے فراہم کرتے، جسے بڑی عقیدت کے ساتھ قبول کیا جاتا بلکہ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی کہ بابا جی ان کے بچوں کو بندے دا پتر بنا دیں۔

مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں بھی ایسے ہی ایک بابا جی ہوا کرتے تھے۔ گو کہ میرا بچپن کسی گاؤں میں نہیں گزرا ،نہ ہی وہاں کوئی ٹاہلی ہوا کرتی تھی مگر گیان والے بابا جی ضرور ہوا کرتے تھے۔ ہم نے انہیں ہمیشہ سفید کُرتا اور دھوتی پہنے دیکھا؛ قد لمبا اور رنگ گورا تھا، نام ہمیں معلوم نہ تھا مگر اپنی فہم کے مطابق ان کا نام خود ہی رکھ لیا۔ جی ہاں ہم انہیں ’اللّٰہ میاں‘ کہا کرتے تھے۔ یوں ہمارا معصوم سا بچپن اسی خوش فہمی میں گزر گیا کہ روز اللّٰہ میاں دن میں پانچ مرتبہ اذان دیتے ہیں پھر سفید لباس پہنے ہمارے پاس سے گزرتے ہیں۔ اللّٰہ میاں ہمارے سر پر دستِ شفقت رکھتے اور کبھی کبھار ہمارا چھوٹا موٹا جھگڑا بھی سمیٹ دیتے۔ ہم ہر روز ان سے کوئی نہ کوئی فرمائش کر دیتے اور وہ مسکرا کر ہمیں یقین دہانی کرواتے کہ ہماری ننھی مُنی سی خواہش ضرور پوری ہوگی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماری خواہشات پوری بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ ہوتیں بھی کیوں نہ؛ اللّٰہ میاں ہماری دسترس میں تھے ہم جو چاہے ان سے مانگ لیتے اور ہمیں مل جاتا۔ بچپن کے اس پورے عرصے میں کبھی کسی نے یہ نہ بتایا کہ وہ گیان والے بابا جی اللّٰہ میاں نہیں ہیں۔ پھر بڑے ہوئے تو حالات بدلنے لگے، سوچ وسیع ہونے لگی، شعور کھلنے لگا اور تب ہی ہمیں معلوم ہوا کہ اللّٰہ میاں تو آسمانوں پر رہتے ہیں؛ ہم انسانوں کی پہنچ سے دور سب سے بلند سب سے بڑے۔ اب چھوٹی چھوٹی فرمائشوں کا سلسلہ ختم ہوگیا اور اللّٰہ میاں ہماری دسترس سے باہر ہوگئے۔

علم کا دائرہ وسیع ہوا تو بچپن والی مختصر سی کل کائنات بھی پھیلنے لگی۔ اذان اب بھی دن میں پانچ بار ہوتی مگر اب اس میں وہ مٹھاس محسوس نہ ہوتی جو بچپن میں اللّٰہ میاں کی آواز میں ہوتی تھی۔ ہمارا شعور زندگی کی رونقیں نگل گیا اور ہم اسے با رونق بنانے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈنے لگے۔ بچپن گزرا تو گیان والے بابا جی بھی گزر گئے مگر پھر یوں ہوا کہ تایا جی کی جگہ چاچا گوگل نے لے لی اور گھر گھر گیان بٹنے لگا۔ دور بدلا اور سوشل میڈیا نے انگڑائی لی۔ زندگی کی رونق بحال ہونے لگی اور سب نے مقدور بھر اپنی اپنی ٹاہلی بنا لی اور ہر کوئی اپنا حقہ لے کر گڑگڑانے لگا۔ گیان کی کثرت ہوئی تو سننے والوں کا کال پڑنے لگا مگر گیانی بابا اپنی دھن میں مست آنکھیں بند کیے حقہ گڑگڑاتے جاتے گیان بانٹتے جاتے۔ زندگی کی رونقیں تو بحال ہوئیں مگر ایک نیا سیاپا شروع ہوگیا؛ چاچا گوگل کے دستِ شفقت کے صدقے چھوٹے بڑے کا فرق ختم ہوگیا اور آن کی آن میں سب بڑے ہوگئے۔ نہ کوئی پہیلیاں پوچھنے والا رہا نہ بتانے والا، یوں سوچ کے گھوڑے بیکار پڑے پڑے بیمار رہنے لگے ساتھ ہی ساتھ من گھڑت قصے کہانیاں بھی ختم ہوگئے گویا من کی باتیں من میں ہی دم توڑنے لگیں تو نیا وبال شروع ہوا؛ ٹاہلیاں اتنی ہوگئیں کہ گھمسان کا رن پڑ گیا اور گیانی بابا اپنی اپنی جیب میں عقل مار چورن بھی رکھنے لگے تاکہ ان کا اور صرف ان کا گیان ہاتھوں ہاتھ بک سکے۔

یوں جس کا جہاں داؤ چلتا اپنا اپنا چورن بیچ کر چلتا بنتا۔ جب سب کی عقل پر پردے پڑ گئے تو چورن کے سائیڈ افیکٹس کھل کر سامنے آئے۔ ہوا کچھ یوں کہ عقل مار چورن نے لوگوں کو دو دھڑوں میں بانٹ دیا؛ ایک وہ جن میں گیان کی زیادتی تھی اور جن پر چورن اثر نہیں کیا تھا، ہر بات کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے اور ’میں نہیں مانتا‘ کی رٹ لگانے لگے۔ ان کے شکوک وشبہات سے سہم کر کوؤں نے گھروں کی چھتوں پر آنا چھوڑ دیا اور مہمان بن بلائی آفت کی طرح نازل ہونے لگے۔ دوسرا گروہ ان کا تھا جن پر گیانی بابا کے چورن نے کھل کر اثر دکھایا، نتیجتاً ان میں عقل کی شدید کمی ہوگئی اور وہ اوا توا بولنے لگے۔ یوں سوشل میڈیا کچرے کا ڈھیر بن گیا اور ساری ٹاہلیاں بدبودار ہوگئیں مگر بنیادی مسئلہ پھر وہی رہا کہ ان کی الاپ شلاپ بکواس کون سنے؟

Advertisements
julia rana solicitors

عقل مار چورن نے ان کی جسمانی ساخت بدل کر رکھ دی تھی۔ لوگوں کے کان سرے سے ہی غائب ہوچکے تھے اور ایک کی جگہ دو زبانیں آگ آئی تھیں۔ اپنی نئی ہئیت سے گھبرا کر لوگوں نے آئینے کا استعمال ترک کر دیا کیونکہ کسی میں اپنا بھدا چہرہ دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔ نئی اگنے والی زبانیں اتنی لمبی اور دو دھاری تھیں کہ آس پاس والے لپیٹ میں آنے لگے۔ کئی مرتبہ تو لوگوں کی اپنی ہی زبانوں سے الجھ کر ان کا حقہ الٹ پڑتا اور حقے کی آگ پکڑ کر ان کی بدبودار ٹاہلی جھلس جاتی۔ یوں جگہ جگہ ٹاہلیوں کے جلنے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھنے لگا۔ ایسے میں ایک کمیٹی بٹھائی گئی تاکہ کوئی مناسب حل نکالا جائے۔ کمیٹی کے ممبران سر جوڑ کر بیٹھے اور یوں اس مسئلے کے حل کے طور پر آنلائن چپیڑ دریافت کر لی گئی۔ اب کسی کی زبان لہراتے  لہراتے بل کھاتے کسی دوسرے کو چھو جاتی تو سامنے والا رکھ کر ایک آنلائن چپیڑ دے مارتا۔ یوں لوگ اپنا اپنا دفاع کرنے لگے اور ان بے عقلوں کی دیکھا دیکھی پہلے دھڑے نے بھی اس ہتھیار کا استعمال سیکھا اور دھے تیرے کی چپیڑیں برسانے لگے۔ اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر گیان سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا اور راستہ بھٹک کر ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہوگیا۔ دو دھاری زبان والے بے کان کے انسان آنلائن چپیڑ کے مہلک اور لاعلاج مرض کا شکار ہوگئے۔ آج بھی لوگ اپنے اپنے کچرے کے ڈھیر پر بیٹھے مکھیاں مارتے ہیں اور وقت گزاری کے لیے ایک دوسرے سے تھپڑ و تھپڑی ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply