میرا حلقہ پی کے چھتیس اور میرا انتخاب۔۔۔۔ جبران عباسی

 میں ایک دن کمپین پر نمبل گاوں میں پیپلز پارٹی کے صوبائی و قومی نشست کے امیدوار منظور ممتاز عباسی کے ساتھ رہا ، وہاں ایک دوسرے امیدوار کا بھائی جو خود بھی کمپین کے سلسلے میں آیا تھا اچانک ہمارے امیدوار کی اس سے ملاقات ہو گئی ، بات چیت کے مختصر دور میں معلوم ہوا موصوف اور انکے امیدوار بھائی تحریک انصاف کا ہی کوئی ناراض گروپ ہے ، بقول ان کے پانی کی طرح پیسہ بہایا پارٹی پر مگر ہاتھ خاک ہی آئی ۔ تحریک انصاف Pk-36 ایبٹ آباد کا ٹکٹ وہ لے گیا جس نے محض دو ماہ پہلے یونین کونسل کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے اتحاد کے ساتھ تحریک انصاف کے ہی امیدوار کو ہرایا ۔ اب باآسانی اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھا کر ٹکٹ لے لیا اور اب عمران خان کا واسطہ دے کر ووٹ مانگ رہا ہے ۔ شرم تم کو مگر نہیں  آتی کئی ایک امیدوار میں جانتا ہوں جو ووٹ خرید رہے ہیں ، ہر گاوں میں ووٹ کے سپلائر موجود ہوتے ہیں جو مناسب دام وصول کرتے ہیں ۔ نمبل ہی ایک شخص ہمیں ملا ،دعوی تھا کہ موصوف کی جیب میں پورے سو ووٹ ہیں ، اول تو مجھے یقین نہیں  ہے، دوم اس کی ڈیمانڈ کچھ زیادہ ہی تھی ۔ ہمارے امیدوار تو افورڈ ہی نہیں کر سکتے ، اسی لئے ہار رہا ہے ۔ ’’ ممتاز صاحب ! او ویلہ تے لوگ یاد نیں جہڑے ایتھے پیدل آئے سن تے ،ہن کروڑاں دیاں ڈالہاں وچ پھرنے تے ووٹ مانگنے ‘‘۔

دوسرے امیدوار کے بھائی نے ممتاز عباسی کو یوں طعنہ دیا ۔ ممتاز صاحب! وہ لوگ اور زمانے آپ کو یاد ہیں جب یہاں کا حکمران امیدوار پیدل آیا تھا اور آج کروڑوں کی گاڑیوں میں ووٹ مانگتا گھوم رہا ہے ۔ یہ سچ ہے ، کھرا سچ ، بقول عبیداللہ علوی ’’ویلے نی بیغرتی والی گل‘‘ ، یہاں کبھی سردار مہتاب کا سکہ چلتا تھا بلکہ آج بھی ہے ، 1985 میں ایک نوجوان سردار مہتاب نے ایک دوسرے سیاسی رہنما گلزار عباسی کو ہرایا ، اس نے پھر علاقائی تعصب و پہاڑی علاقوں کی برادری سسٹم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فیوڈل پالیٹکس کی بنیاد رکھی ۔ وہ خود کئی مرتبہ کامیاب ہوا ، اسکے علاوہ اسکے دو بھائی مختلف ادوار میں ، بیٹا اور اب ایک کزن جو سابقہ ایم پی اے بھی ہے دوسری مرتبہ صوبائی نشست پر کھڑا ہے ۔حیرت کی بات ’’جیپ‘‘ کے نشان پر نواز شریف کیلئے ووٹ مانگ رہا ہے ، یہ نہیں کہ شیر کا ٹکٹ نہیں  ملا ، بلکہ ملا ٹکٹ سردار مہتاب نے واپس کروا دیا کیونکہ سردار صاحب ناراض ہیں کہ بڑا ٹکٹ ایک دوسرے امیدوار ’’مرتضی جاوید عباسی ‘‘ کو دے دیا گیا ہے جو انھیں ملنا تھا مگر عین وقت پر شہباز شریف نے مرتضی عباسی کو جاری کر دیا۔

پورا حلقہ پہاڑی گاوں پر مشتمل ہے ، دیہی مسائل جیسا کہ سڑکوں کا نہ ہونا ، خود میرے ذاتی گاوں ترچھ میں BHU زلزلے میں تباہ ہوئی، اب فنڈز کی کمی کا شکار ہو کر ادھوری پڑی ہے ، سکولوں کا کمزور انفراسٹرکچر ، میرے گاوں کے ہائی سکول میں میٹرک یا دسویں کے طلبا کی تعداد ہر سال ستر کے لگ بھگ ہوتی ہے ، مگر ان میں سے اوسطاً صرف دس ہی آگے کالج میں جا پاتے ہیں ، ایبٹ آباد جا کر ہاسٹل اور کالج افورڈ کرنا ساٹھ طلبا کے بس میں نہیں  ہوتا ، ساٹھ پاکستان کے اندر یا دبئی سعودیہ کی لیبر فورس میں شامل ہو جاتے ہیں ،صرف ایک ڈگری کالج جس کا اعلان عمران خان نے خود بیروٹ کے جلسے میں کیا تھا کا قیام اگر ممکن ہو جائے کم ازکم یہ تعداد دس سے بڑھ کر چالیس تک ہو سکتی ہے ۔ سردار مہتاب کی بنائی گئی فیوڈل پالیٹکس ہمارے علاقے کی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ماضی میں رہی ، غریب امیدوار کا کھڑا ہونا ایسے ہی ہے جیسا جبران ناصر کراچی کے کسی حلقے میں کھڑا ہے اس منشور کے ساتھ کہ مذہب اور ملکی ترقی کے نام پر ووٹ نہیں بلکہ شہری حقوق کے تحفظ کا  ووٹ چاہیے۔

دیہی پالیٹکس میں علاقہ پرستی اہم معنی رکھتی ہے ، کئی ایک امیدوار بالخصوص مہتاب خاندان علاقہ پرستی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر اقتدار میں بآسانی پہنچتا رہا ہے ، میں علاقہ کے نام پر ووٹ مانگنے کا قائل ہوں کیونکہ ہمارے پسماندہ علاقوں میں نظریات کی نہیں سماجی ترقی کیلئے ایسے نمائندگان کی ضرورت ہے جو اگر جیت نہ بھی سکیں تو ایک پریشر گروپ ضرور بنیں ۔ میرے گاوں میں تیس سالوں کے بعد پچاس لاکھ کا فنڈ جاری کیا گیا کیونکہ ہمارا امیدوار منظور ممتاز عباسی واقعی ایک پریشر گروپ بنا چکا ہے ، مسلسل دوسرے الیکشنز میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر کھڑا ہونا ، کئی ایک کی آنکھوں میں ’’بےمعنی‘‘ نہیں  کھٹکتا ۔ جماعت اسلامی کا ایک دوسرا امیدوار بھی اپنی یونین کونسل کا پریشر گروپ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے ۔ یہ گروپس فیوڈل پالیٹکس اور منوپلی کے خلاف بہترین موثر ہتھیار ہیں ۔ محاسبہ ضروری ہے ، سب سے پہلے ووٹر سپلائر کا ، جو ضمیر فروشی کے ساتھ ساتھ فیوڈل پالیٹکس کی سوکھی جڑوں میں پھر اپنے ایمان فروشی اور گندے خون سے آبیاری کر رہے ہیں ساتھ سابقہ منتخب نمائندے اور موسمی امیدوار جو محض سوشل سٹیٹس کیلئے کھڑے ہو رہے ہیں۔ ووٹر اپنے امیدوار کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرے گا یا نہیں ، یہ ضروری نہیں ۔۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ  وہ اپنے گاوں کی ترقی اور مسائل کے تناظر میں امیدوار کا انتخاب کیسے کر رہا ہے ، کم از کم میرے علاقے یا گاوں کے ووٹر کو انتخاب ایسے ہی کرنا چاہیے ، جیسا میں نے کیا ہے علاقہ پرستی کے تناظر میں میرا فیصلہ میرے گاوں کا امیدوار منظور ممتاز عباسی ہی ہے مگر تمام امیدواران ِ اسمبلی کیلئے نیک تمنائیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

امید ہے وہ فیوڈل پالیٹکس کے بجائے عوامی سیاست کو فروغ دیں گے ، علاقہ پرستی کو مثبت انداز میں استعمال کریں گے نہ کہ ماضی کے حکمران مہتاب خاندان کی طرح۔

Facebook Comments

جبران عباسی
میں ایبٹ آباد سے بطور کالم نگار ’’خاموش آواز ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ مختلف اخبارات کیلئے لکھتا ہوں۔ بی ایس انٹرنیشنل ریلیشن کے دوسرے سمسٹر میں ہوں۔ مذہب ، معاشرت اور سیاست پر اپنے سعی شعور و آگہی کو جانچنا اور پیش کرنا میرا منشورِ قلم ہے ۔ تنقید میرا قلمی ذوق ہے ، اعتقاد سے بڑھ کر منطقی استدلال میری قلمی میراث ہے ۔ انیس سال کا لڑکا محض شوق سے مجبور نہیں بلکہ لکھنا اس کا ایمان ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply