نورجہاں،منٹو،مولوی اور ہم سب…. راشد احمد

معاصرویب سائٹ ’’ہم سب‘‘ پر نورجہاں کی برسی کے حوالہ سے جہاں ان کی سیرت پر توصیفی مضامین شائع ہوئے ،وہیں ایک مضمون دائیں بازو کے ایک لکھاری کا بھی شائع ہوا جس میں نورجہاں پر سعادت حسن منٹو کے لکھے گئے ایک خاکہ کو بنیاد بنا کر فتوی گری کی گئی۔اس مضمون کی اشاعت کے بعد جہاں بڑی تعداد میں لوگوں نے لکھنے والے کو برا بھلا کہا وہیں فیس بک پر بھی ایک عجیب اور بظاہر لایعنی بحث شروع ہو گئی جس میں علمی مباحث سے زیادہ جگت بازی اور حساب برابر کرنے کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔
سعادت حسن منٹو پر اپنے بعض افسانوں کی وجہ سے جب مقدمات قائم کیے گئے تو ایک وقت میں انہوں نے بددل ہوکر افسانہ نگاری چھوڑ دی لیکن چونکہ تخلیقی انسان تھے اس لیے لکھنے سے باز نہیں رہ سکے۔صنف سخن بدل لی۔افسانے سے خاکہ نگاری پر آگئے اور شہکار خاکے تخلیق کیے،لیکن لوگوں کی زبانیں کہاں بند ہوتی ہیں ۔ان خاکوں کے حوالہ سے بھی انہیں مورد الزام ٹھہرایا گیا۔یہ تمام خاکے اپنے وقت کے مشہور احباب کے ہیں جن میں قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر میڈم نورجہاں تک شامل ہیں۔منٹو کے خاکوں پر مشتمل ان کی دو کتب شائع ہوئیں۔پہلی کتاب کانام ’’گنجے فرشتے‘‘ تھا اور دوسری کا کا نام ’’لاوڈ اسپیکر‘‘ تھا۔لاوڈ اسپیکر میں میڈم نورجہاں کا خاکہ شامل تھا۔
منٹو عام طور پر دائیں بازو کے نزدیک ایک مردود مصنف قرار پاتے ہیں ،لیکن دائیں بازو ہی کے ایک صاحب کااس خاکہ کے حوالہ سے رد وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔منٹو نے بلا کم وکاست نورجہاں کی فلمی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے،جس میں پینے پلانے سے لیکر ان کے نغمگی کا حال تک شامل ہے۔
نزاع کی وجہ شاید یہ ہے کہ میڈم نورجہاں اپنے ملی نغمو ں کی وجہ سے قریب قریب ہیرو کا روپ دھار چکی ہیں جنہوں نے جنگ میں قوم کا حوصلہ بلند کیا،لیکن اس کے باوجود جنگ کا حال کہتے کہتے بعض زبانیں ڈر کے مارے خاموش ہوجاتی ہیں۔بہرحال اس مضمون کی اشاعت پہ اس طرح کا رد عمل آیا۔
• منٹو اور نورجہاں کی قبریں اکھیڑی جارہی ہیں۔
• ایک مرحوم شخص کا مضمون لگا کر اسے گالیاں پڑوائی گئیں۔
• مولوی کو گالیاں دلوانا مقصد تھا۔
• ریٹنگ کا چکر تھا۔
ہم سب کی ادارتی ٹیم میں شامل تقریبا تمام ہی لوگوں سے دوستی ہے،اس لیے یہ بات تو بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ریٹنگ لینا کبھی بھی مقصودو مطلوب مومن نہیں رہا۔معاشرہ میں مکالمہ کی معدوم ہوتی روایت ہی کی وجہ سے کسی بھی ’’ذرا ہٹ کے‘‘ کام پر ریٹنگ کا طعنہ دینا اب نئی بات نہیں رہی۔بعض طبائع شاید حسد کے مارے اس طرح کے طعنے دینے شرو ع ہوجاتے ہیں،لیکن مکالمہ کی روایت سے جڑے لوگ بھی جب اس طرح کی بات کرنے لگیں تو فکر کی بات ہے۔مضمون سے اختلاف قاری کا حق ہے اور اس کا علمی توڑ کرنا بھی اس کا حق ہے،لیکن بجائے علمی روایت نبھانے کے طعنہ زنی ایک اچھا شیوہ نہیں۔زیادہ دن نہیں گزرے کہ اسی ’’مکالمہ‘‘سائٹ پہ خانہ کعبہ کے حوالہ سے ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ مکہ اپنی اصل جگہ پہ نہیں ہے۔اس پہ کیسے علمی بحث اٹھی،لیکن یار لوگوں کو یہ بھی ریٹنگ کا ہی چکر لگتا تھا۔
دوسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ مضمون کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔بات یہ ہے کہ مضمون کسی کتاب میں شائع نہیں ہوا تھا کہ اس کا حوالہ دیا جاتا۔اس لیے کاپی رائٹ کا کوئی ایشو نہیں ہے۔اگر مضمون نگار راہی ملک عدم ہوگئے ہیں تو کیا فوت شدہ لکھاریوں کے مضامین شائع نہیں کرنے چاہئیں؟اس اصول پر عمل کر لیاجائے تو شاید دنیا کی تمام زبانیں اپنے ادب سے ہی محروم ہوجائیں۔
ایک مضمون سے ہی اگر منٹو اور نورجہاں کی قبریں اکھڑ گئی ہیں تو وارثوں کو قبروں کی پختگی کی طرف شاید فوری توجہ کی ضرورت ہے۔زندہ معاشروں میں علمی روایت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔منٹو کے الفاظ دیکھیے؛
’’انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ دنیا کے ہر مہذب ملک اور ہر مہذب سماج میں یہ اصول مروج ہے کہ مرنے کے بعد خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہو اسے اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔اس کے صرف محاسن بیان کیے جاتے ہیں اور عیوب پر پردہ ڈالا جاتا ہے۔
میں ایسی دنیا پر،ایسے مہذب ملک پر ،ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں ،جہاں یہ اصول مروج ہو کہ کے مرنے کے بعد ہر شخص کا کردار اور شخص لانڈری میں بھیج دیا جائے جہاں سے وہ دھل دھلا کر آئے اور رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکا دیا جائے۔‘‘
مولوی کو گالیاں دلوانے کے لیے مضمون نگاری جیسے ادبی کام کی کب سے ضرورت پڑگئی ہے بھیا؟یہ کام تو لوگ چوبیسوں گھنٹے فی سبیل اللہ کرتے رہتے ہیں۔دور کیا جانا ،سوشل میڈیا پر ہی رات دن یہ فریضہ انجام دیتے نظر آتے ہیں ،اس لیے یہ کہنا کہ اس مضمون کی اشاعت کا مقصد مولوی کو گالیاں دلوانا تھا ،شاید خود مضمون سے ہی زیادتی ہے۔
مہذب معاشروں میں ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا حق ہوتا ہے۔سننے والا جواب دہی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔اعتراضات کرنے والوں کو اعتراض کا حاصل ہے،یہ بجا سہی،لیکن اعتراضات کے لبادے میں گالیاں دینا ، فقرے کسنا،نیتوں کا حال جاننے کا دعوی کرنا اور فکری دہشت گردی جیسے القابات سے نوازنا!کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply