قسمت ۔ جین (24) ۔۔وہارا امباکر

مہم جو بمقابلہ محتاط۔ نیوفائل وہ لوگ ہیں جو تجربات کرتے ہیں، جلد ایکسائٹ ہو جاتے ہیں، ٹک کر نہیں بیٹھتے، فوری فیصلہ لیتے ہیں۔ نیوفوب وہ لوگ ہیں جو وفادار ہیں، محتاط ہیں، فیصلے میں وقت لیتے ہیں، سوچ بچار کرتے ہیں۔ اس کی جینیاتی بنیاد کیا ہے؟

تین سالوں میں ایب شٹائن نے 124 مرد و خواتین ڈھونڈ لئے جو انتہا کی مہم جو شخصیت رکھتے تھے۔ ان پر مالیکیولر اور جینیاتی تکنیک کے استعمال سے انہوں نے معلوم کیا کہ ان میں ایک چیز کا فرق ہے جو D4DR ہے۔ (اس کو ایسوسی ایشن سٹڈی کہتے ہیں)۔

ڈوپامین ایک نیوروٹرانسمیٹر ہے۔ ایک مالیکیول جو کیمیکل سگنل کے تبادلے میں استعمال ہوتا ہے اور دماغ اس کو انعام کو پہچاننے میں استعمال کرتا ہے۔ D4DR دوپامین کے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔یہاں سے ڈوپامین کو ریسپو دینے والے سسٹم کو پیغام جاتا ہے۔ اس کا ایک ویری انٹ D4D47 repeat ہے جو اس کا ریسپانس مدہم کر دیتا ہے۔ اس ویری انٹ والے شخص کو انعام کے لیول تک پہنچنے کے لئے زیادہ بیرونی سٹیمولیشن درکار ہے۔ جیسے کسی اونچا سننے والے کو اونچی آواز کی ضرورت ہو، ویسے یہ لوگ زیدہ سے زیادہ خطرات مول لیتے ہیں۔

ایبس شٹائن کی سٹڈی کی تصدیق کئی دوسرے گروپ کر چکے ہیں۔ یہاں پر دلچسپ بات کیا ہے؟ D4DR کسی ایک خاص رویے کی “وجہ” نہٰیں بنتی لیکن یہ ایک خاص “مزاج” کی طرف دھکیل دیتی ہے جو نئی چیزوں کا متلاشی بن جاتا ہے۔ یہی ایک ویری انٹ انسان کی ایک بہت ہی خوبصورت خاصیت میں کردار ادا کر سکتا ہے جو مہم جوئی، جوش اور تخلیق کی ہے۔ اور بالکل یہی ویری انٹ اس کو نشے، تشدد اور ڈیپریشن کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ یہ اس وقت تک تضاد لگتا ہے جب آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ الگ نتائج کا سبب ایک ہی خواہش ہو سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ویری انٹ کے حامل افراد کے دماغ کے ریسپٹر سے ابھرنے والا یہ سگنل آدھ سیکنڈ زیادہ رہتا ہے۔ یہی تبدیلی ایک محتاط شخص اور خطروں سے کھیلنے والے کے درمیان ہے۔ جبکہ ایک ہی خاصیت نئے جہان آباد کرتی ہے، نئی اشیاء تخلیق کرتی ہے اور دوسری طرف کسی کو ڈیپریشن اور بے وفائی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ کسی کیلئے ناخوشی، کسی کی زندگی کا جادو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں تک آسان ہے۔ لیکن ایک فرد کے انتخابات، مزاج اور فارم کا تعین کیسے ہو؟ جین سے آرگنزم تک کے اس مسئلے کو جینیات میں “آخری میل کا مسئلہ” کہا جاتا ہے۔ ہاں، دو جڑواں بھائی بہت کچھ ایک جیسا رکھتے ہیں، لیکن بہت کچھ مختلف بھی۔ نیسا کیری لکھتی ہیں، “آیئڈیٹیکل جڑواں بالکل ایک ہی جینوم رکھتے ہیں، ایک ہی شکمِ مادر میں پلتے ہیں، ایک ہی ماحول میں رہتے ہیں۔ اگر ایک کو شیزوفرینیا ہو جائے تو بہت امکان ہے کہ دوسرے کو بھی ہو جائے۔ یہ تعجب کی بات نہیں۔ ہمیں اب اس چیز کی تلاش شروع کر دینی چاہیے کہ یہ مماثلت اس سے زیادہ کیوں نہیں۔ یہ امکان سو فیصد کیوں نہں؟۔ بالکل ایک ہی جینوم سے اتنے مختلف جاندار کیسے؟”۔

کئی دہائیوں سے زیادہ ہونے والی سٹڈیز میں سائیکولوجسٹ اور جینیٹسٹ اس پر کام کر رہے ہیں لیکن کوئی کنکریٹ، کوئی سسٹمیٹک فیکٹر ۔۔۔ کچھ بھی ایسا، جس کی پیمائش کی جائے، ہاتھ نہیں آیا۔

کس وجہ سے فرق ہے؟ پچھلے بیس سال میں کی جانے والی 43 سٹڈیز سے ایک طاقتور اور متواتر جواب ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔۔۔

وہ حادثہ، وہ چوٹ، وہ بیماری۔ ٹرین جو چھوٹ گئی، چاپی جو گم گئی، وہ بات جو کان میں پڑ گئی، وہ سوچ جو ٹھہر گئی، مکمل نہ ہو سکی۔ مالیکیول کی فلکچوئیشن سے جین کی فلکچوئشن سے فارم کی تبدیلی۔ موڑ کاٹتے سائیکل سے لڑکھڑا پڑے، نہر میں جا گرے، ان پر نگاہ پڑ گئی، محبت میں گرفتار ہو گئے۔ جو ہو گیا، جو نہ ہوا۔ فطرت کا گہرا ترین اصول ۔۔ رینڈم نس ۔۔ امکان۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا یہ طیش دلا دینے والا جواب ہے؟ شاید۔ کیا دہائیوں کی غور و فکر کے بعد کیا ہم اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ قسمت ۔۔۔ بس قسمت ہی ہے؟ یا پھر شاید، یہی خوبصورت ترین جواب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹیمپسٹ میں پروسپیرو کا مقابلہ کالیبان کے کردار سے تھا۔ “خوفناک عفریت جس کی فطرت نہیں بدل سکتی”۔ کالیبان کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس کی نیچر میں بدلنے کا پروگرام نہیں تھا۔ بیرونی انفارمیشن اس میں اندرونی تبدیلی نہیں لے کر آتی تھی۔ تربیت اس کے ساتھ چپکتی نہیں تھی۔ کالیبان ایک جینیاتی روبوٹ تھا۔ چابی بھرا عفریت۔ یہ اس کے انسان نہ ہونے کی سب سے بڑی ٹریجڈی تھی۔

یہ جینوم کی چکرا دینے والی خوبصورتی ہے۔ باہر کی دنیا اس کے ساتھ چپک سکتی ہے۔ جینز ماحول کے مطابق بس ایک سٹیریوٹائپ نہیں اگلتے رہتے۔ اگر یہ ایسا کرتے تو ہم بس چاپی بھرے ہوئے روبوٹ ہوتے۔ کالیبان کی طرح۔

قدیم فلسفلے میں زندگی کو ایک جال کہا جاتا ہے۔ جینز اس کے دھاگے ہیں۔ ایسا میٹیرئل جو فرد کو وجود دیتا ہے۔ پاگل پن کی حد تک پریسائز۔ ساخت دیتا ہے۔ شخصیت دیتا ہے۔ کردار دیتا ہے۔ اس جینیاتی کوڈ کو عین اپنے پروگرام کے مطابق ریسپانس دینا ہے۔ ورنہ فارم برقرار نہ رہ پاتی۔ لیکن اتنی جگہ چھوڑ دیتا ہے کہ اس پر اصل دنیا کی بھی اور پھر امکان کی چادر بھی چپک سکے۔ ہم اس سب کے ملاپ کو “قسمت” کہتے ہیں۔ ہم اس کے مطابق اپنے ریسپانس کو “انتخاب” کہتے ہیں۔ دو ٹانگوں پر چلنے والا، انگوٹھے رکھنے والا جاندار جو ہر لحاظ سے عین اپنے سکرپٹ کے مطابق بنا ہے۔ اور اپنے سکرپٹ سے ہٹ جانے کے لئے بنا ہے۔ اس جاندار کے ایک منفرد ویری انٹ کو ہم “شخص” کہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply