شناخت/ثاقب لقمان قریشی

ہماری نوجوان نسل ایسے لوگوں کو اپنا رول ماڈل بناتی ہے جنہوں نے کسی بھی حوالے سے کوئی بڑا کام کیا ہو۔ نوجوان نسل دنیا کے امیر ترین لوگ، کاروباری حضرات، شوبز کی مشہور شخصیات، کھلاڑی، سائنسدان وغیرہ کے بارے میں پڑھنا پسند کرتی ہے۔ رول ماڈلز کے سخت ترین مقابلے میں جماعت اسلامی کے ایک درویش صفت سینیٹر نے قدم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان کیا پوری قوم کا ہیرو بن گیا۔ سینیٹر مشتاق صاحب کا نام جب بھی میرے ذہن میں آتا ہے تو میں خوشی سے جھوم اٹھتا ہوں انکا کوئی سا بھی انٹرویو نکال کے دیکھتا ہوں اور ڈھیروں دعائیں دیتا ہوں۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل کو جس طرح مفروضوں کی بنیاد پر متنازع بنایا۔ پوری پارلیمنٹ کو ملک دشمن اور مغرب کا غلام قرار دیا اسکی مثال نہیں ملتی۔ سینیٹر صاحب نے مذہب کارڈ کا بہترین استعمال کرتے ہوئے خواجہ سراؤں سے انکی شناخت تک کا حق چھین لیا۔

وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل پر جو فیصلہ سنایا ہے اسے بی-بی-سی نے کچھ اس طرح شائع کیا ہے۔
“وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں موجود خواجہ سراؤں کی جنس سے متعلق دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ سرا ذاتی تصورات کی بنیاد پر خود کو مرد یا عورت نہیں کہلوا سکتے اور نہ ہی خواجہ سرا سرکاری دستاویزات میں اپنی جنس تبدیل کر سکتے ہیں۔
وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ٹرانس جنڈر ایکٹ میں ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہو گا ۔ عدالت نے اس ایکٹ کی روشنی میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے بنائے گئے رولز کو بھی معطل کر دیا۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ شریعت کسی کو نا مرد ہو کر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی جنس وہی رہ سکتی ہے، جو پیدائش کے وقت تھی”

شرعی عدالت کا یہ فیصلہ دنیا کے تمام بڑے اخبارات میں چھپا اور ہر جگہ اس پر بھر پور تنقید کی گئی۔ میں بھی انسانی حقوق کا ادنٰی سا کارکن ہوں۔ خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ سے خواجہ سراء کا لفظ ہٹا کر ان سے انکی شناخت چھین لی گئی۔

سوشل میڈیا پر میرے ساتھ شاید سو کے لگھ بھگ خواجہ سراء ایڈ ہیں۔ جو لڑکیوں والے لباس میں ویڈیوز اور ٹک ٹاک شیئر کرتے رہتے ہیں۔ انھیں جب بھی ٹائم ملتا ہے یہ اپنی کوئی اچھی سی تصویر یا ویڈیو شیئر کر دیتے ہیں۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ خواجہ سراء سب انہی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ مسئلہ شناخت کا ہے۔ ایک خواجہ نے ہمیں کہا تھا کہ خواجہ سراء خود کو عورت ظاہر کرنے کے چکر میں اپنی زندگی برباد کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی معاشرہ اسے عورت تسلیم نہیں کرتا۔

مزے کی بات دیکھیں ایک خواجہ سراء کہہ  رہا ہے کہ مجھے خواجہ سراء کا شناختی کارڈ دیا جائے لیکن ہماری عدالت کہہ  رہی ہے کہ نہیں تم پیدا ہوتے وقت جیسے نظر آ رہے تھے ہم تمھیں مرد اور عورت کی وہی جنس دیں گے۔

ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کو بنے پانچ سال کا عرصہ گزر چکا اس مدت کے دوران کسی مرد نے مرد سے شادی نہیں کی، کسی نے عورت والا شاختی کارڈ نہیں بنوایا۔ کسی بہن نے مرد کا شاختی کارڈ بنوا کر جائیداد میں بھائی کے برابر حصہ نہیں مانگا۔ نادرہ نے اٹھائیس ہزار لوگوں کی جنس تبدیل کی۔ وہ نادرہ کے عملے کی ٹائپنگ کی خامیاں تھیں۔جیو نیوز اس پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ شائع کر چکا ہے۔
اگر جنس کا تعین ظاہری خدوخال نے کرنا ہے تو پھر اس کے مطابق انھیں جائیداد میں حصہ بھی دیں۔ اسی بنا پر انھیں شادی کی اجازت بھی دیں، بینکوں سے ملنے والا قرض، دیگر سہولیات جن سے مرد لطف اندوز ہوتے ہیں وہ بھی دیں۔ اگر نہیں تو پھر انھیں انکی شناخت واپس کریں۔

خواجہ سراء بچہ جیسے ہی نوجوانی میں قدم رکھتا ہے اس پر خاندان، محلے اور سکول کے لڑکوں کی طرف سے جنسی حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ اکثر اسی دوران جنسی زیادتی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ جس خواجہ سراء سے بھی بات کریں گے وہ ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکا ہوگا۔

خواجہ سراء عورت بن کر جینے کیلئے خودکشی کر لیتا ہے، گھر بار چھوڑ دیتا ہے، آپریشن کروا لیتا ہے، عورت دکھنے کیلئے ہارمونز اور دیگر ادویات کا بے دریغ استعمال کرتا ہے، صرف عورت نظر آنے کیلئے ساری زندگی خواتین کا لباس زیب تن کرتا ہے۔ آپ اسے کہہ  رہے ہیں کہ مردوں والے شناختی کارڈ بنوا لو۔

بل پر سینیٹر صاحب کے مفرضات پر مبنی اعتراضات یہ تھے کہ کہیں کوئی مرد عورت کا یا کوئی عورت مرد کا شناختی کارڈ بنوا کر ہم جنس سے شادی نہ کر لے۔ کوئی مرد خاتون کا شناختی کارڈ بنوا کر خواتین کیلئے مخصوص مقامات جیسے بس، ہسپتال، باتھ روم، پبلک پلیس وغیرہ میں نہ چلا جائے یا پھر کوئی بہن مرد کا شناختی کارڈ بنو کر بھائی کے برابر حصے کا مطالبہ نہ کر دے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارا سوال یہ ہے کہ ان سارے معاملات میں خواجہ سراء کہاں ہیں۔؟ عورت کا شناختی کارڈ بنوا کر مرد سے شادی آپ کر رہے ہیں۔ عورتوں کے مخصوص مقامات پر آپ جا رہے ہیں۔ مرد کا شناختی کارڈ بنوا کر بھائی کے برابر حصہ آپ طلب کر رہے ہیں۔ الزام خواجہ سراؤں کے حقوق کے بل پر لگا رہے ہیں۔ خواجہ سراؤں پر فتویٰ لگا رہے ہیں۔ جلسوں میں انھیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔
میں نے سینیٹر مشتاق صاحب کے گھنٹوں پر محیط انٹرویوز دیکھے ہیں۔ ہر سوال کا جواب طویل اور مفروضات پر مبنی دینے کے ماہر ہیں۔ ان سے جب بھی خواجہ سراؤں کے حقوق کی بات کی جائے تو جواب ایک لائن کا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ انکے لیئے سٹیٹ آف دا آرٹ ادارہ قائم ہونا چاہیے۔ جہاں انھیں دین اور دنیا کی تعلیم دی جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ آزادی رائے اور اظہار کو اتنا بے لگام نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی بھی عمران خان یا سینیٹر مشتاق جیسا آئے اور سماج کا نقشہ ہی بگاڑ کر رکھ دے۔ پھر اسے درست کرنے میں دہائیاں لگ جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply