یہ غالباً سال 2005 کی بات ہے میرے بڑے بھائی اپنی ملازمت سے مطمئن نہیں تھے ، میں ،میرا ایک دوست اور بڑے بھائی ایک وکیل دوست سے ملنے کامران ہوٹل راولپنڈی گئے، وکیل صاحب سے ملنے کا مقصد یہ تھا کہ وکیل صاحب اپنے رشتہ داروں سے ملنے اور نجی دوروں پر برطانیہ جاتے رہتے ہیں اور ایک عملی انسان ہیں اس لئے وہ ہمیں اس ملک سے نکلنے کا کوئی مفید مشورہ دیں گے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات میں وکیل صاحب سے ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد جب مدعے پر بات ہوئی تو انہوں نے مسکر ا کر مشورہ دیا کہ بیرون ملک جانے اور وہاں صفر سے شروع کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے ملک میں چھوٹا موٹا کاروبار کر لیں ، بھلے ایک چھوٹی سی فوٹو سٹیٹ کی مشین سے شروع کریں۔ مجھے لگا کہ اس ملاقا ت کے بعد میرے بڑے بھائی مجھ سے سخت خفا ہونگے کہ آپ کے جاننے والے وکیل صاحب نے کیسا سطحی مشورہ دیا لیکن یہ میری کم عقلی تھی اور بڑے بھائی کا ظرف کہ انہوں نے باہر نکل کر نا صرف وکیل صاحب کی رائے کو پسند کیا بلکہ مجھے اور میرے ساتھ دوسرے دوست کو ایسا حلقہ ءِ احباب رکھنے پر شاباش دی ۔
اگر ہم ایک سمجھدار دوست کی بجائے بیرون ملک بھجوانے والے کسی ایجنٹ یا مشیر کے پاس جاتے تو وہ ہمیں باآسانی شیشے میں اتارتے ہوئے اخراجات کی فہرست تھماتا اور ہم وہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ہاتھ پھیلاتے ، اپنے صاحب استطاعت عزیزوں اور رشتہ داروں سے ادھار مانگتے اور مطلوبہ رقم پوری نہ ہونے پر پھر کسی مختلف بیرون ملک بھیجنے والے کسی ایسے سستے ایجنٹ کا انتخاب کرتے جو ہمیں کم خرچے پر قائل کرتا اور ہم اس کے دام میں آ کر ایک ایسے سفر کی تیاری میں لگ جاتے جس کے ہر قدم پر موت تعاقب میں ہوتی ، بزدلی کہیے یا دانشمندی ،میرے بڑے بھائی نے ملک میں رہتے ہوئے ہی محنت کر کے ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھایا مگر کوئی ایسا خطرہ مول نہ لیا جسکا نتیجہ اتنا ہولناک ہوتا کہ ماں کی آنکھوں کا نور آنسوؤں میں بہہ جاتا یا باپ کے کندھے ایسے بوجھ تلے دب جاتے جس بوجھ کا اشتراک کوئی بھی دوسرا نہیں کرسکتا۔
پاکستان اور ا س کے زیر انتظام حصوں میں تعلیم و تربیت کے معاملے پر اگر گزشتہ دو عشروں کے درمیان جامعات سے فارغ التحصیل نوجوان نسل کی ذہنی اور تکنیکی استعداد پر بات کی جائے تو مجھ سمیت اکثر فارغ التحصیل طلبہ کی ذہن سازی صرف اچھے نمبر لیکر پاس ہونے تک محدود کر دی گئی ہے۔ کسی بھی سرکاری اور نجی جامعہ کے پاس ایسا مربوط نظام موجود نہیں جس کے ذریعے وہ جامعہ سے فارغ التحصیل طالب علم کو عملی میدان کے لئے کارآمد پُرزہ بنا سکیں، جامعات مقدار پر زور دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ طلبہ کو جامعہ سے کامیابی کی سند عطا فرما کر اپنے فرض سے عہدہ بر آ ہو جاتی ہیں۔ آپ کسی بھی جامعہ کی ویب سائیٹ کا جائزہ لیجئے اس میں کہیں بھی یہ لکھا نظر نہیں آئے گا کہ ہمارے تعلیم یافتہ طلباء کا اتنا فیصد باروزگار ہے یا کامیاب کاروبار کے مالک ہیں۔ تعلیمی اور تکنیکی استعداد کے لئے ریاست کی جانب سے ایسی کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ 65 فیصد نوجوان نسل کو تکنیکی استعداد کار کو بڑھا کر ان کو مرکزی دھارے کا حصہ بنایا جاسکے ،تاکہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہی نا صرف اپنے لئے باعزت روزگار حاصل کریں بلکہ اپنے ملک کی معیشت کی مضبوطی میں ایک اہم کردار ادا کریں اور ان کے اس کردار کی قومی سطح پر پذیرائی ہو۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام حصوں میں سماجی ڈھانچہ دانستہ طور پر طبقاتی تقسیم کیا گیا ہے جہاں تکنیکی پیشوں کو آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی وہ سماجی مقام حاصل نہیں جو سماجی طو ر پر اعلیٰ درجوں پر فائز انسانوں کو ہے۔ اس سماجی تقسیم کے نتیجے میں تکنیکی شعبوں میں کام کرنے اور اپنے پیشے کو فخر سے بیان کرنے کے بجائے دانستہ طور پر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے یا اپنے اجداد کے پیشے کو چُھپا ہی رہنے دیا جائے۔ ایک لمبے عرصے سے جاری یہ قبیح تقسیم موجودہ نسل میں ایک نفسیاتی ہیجان کا باعث بنتی ہے اور سماج میں جاری سرمائے کی ریل پیل انتہائی تعلیم یافتہ کو بھی اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اس دوغلے سماج سے دور بھلے ہی کوئی انتہائی عام کام کرکے پیسہ کمائے لیکن جب وہ واپس اپنے دیس میں آئے تو معاشی طور پر مراعات یافتہ ہونے کی بدولت اسے وہ سماجی عزت ملے جو وہ یہاں رہتے ہوئے حاصل نہیں کر سکتا۔ ایمانداری اور جائز کمائی کے ذریعے دو وقت کی روٹی اور اپنے جملہِ اخراجات کو پورا کرنے سے عزت کمانے کا پیمانہ پاکستان میں ابھی تک نہیں بن سکا۔
تعلیمی نظام میں چھوٹے کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دینا تعلیمی اداروں یا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ۔ مختلف ادوار میں چھوٹے کاروباروں کے لئے بلا سود قرضوں کا نظام تو متعارف کروایا گیا مگر ان کاروباروں کے لئے قرضوں کی رقم ترقی یافتہ ممالک میں مزدور کی ایک ماہ کی کم سے کم اجرت سے بھی کم رکھی گئی اور و ہ رقوم بھی مختلف مراحل میں مہیا کی گئیں ، جس سے ان چھوٹے کاروباروں کی پائیداری اور کاروبار کرنے والوں کا اپنے روزمرہ اخراجات کے لئے اسی ایک کاروبار سے جڑے رہنا ایک سوالیہ نشان بن کررہ گیا۔
حکومتوں اور سیاسی ذمہ داران کی نوجوانوں کی بے روزگاری کے معاملے پر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ٹویٹر پر ہونے والی ایک سپیس میں پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ایک منتخب رکن قانون ساز اسمبلی اور ایک سیاسی جماعت کے صدر سے جب اس بابت استفسار کیا گیا کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومتیں اور سیاسی قیادت شعبہ زراعت پر کام کیوں نہیں کر رہی اور اس خطے کا شعبہ زراعت روبہ زوال کیوں ہے تو ان کا فرمانا تھا کہ چونکہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی میرپور ڈویژن کے اکثر نوجوان برطانیہ اور یورپ جانے کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے زراعت ترقی نہیں کر پا رہی، اور دوسری ڈویژنز کی فی کس ملکیت اتنی زیادہ نہیں کہ زمین پر کام کرکے اچھی فصلیں اگائی جا سکیں ۔ عرض کی کہ حضرت جدید زرعی ترقی اس نہج پر پہنچ چکی ہے ، قرین از قیاس ہے کہ اگلے پچاس سال میں شاید چھوٹے پیمانے پر زرعی سرگرمی کےلئے زمین کی ضرورت ہی نہ رہے۔ بیرون ملک جانیوالوں کی بات پر ٹویٹر سپیس میں موجود بیرون ملک مقیم احباب نے پُرزور احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ابھی اپنی خوشی سے اپنوں کو خیر آباد نہیں کہتا اور جنم بھومی چھوڑ کر کسی پرائے دیس میں آجروں کی کھڑکیاں نہیں سنتا۔ ایک دوست نے یہ تک کہا کہ اگر پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی حکومت مجھے وہ سماجی تحفظ فراہم کرے جو مجھے برطانیہ یا کسی بھی دوسرے ملک میں میسر ہوتا ہے اور مجھے کاروبار کے لئے مناسب ماحول فراہم کرے، تو میں کل ہی واپس آنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن کوئی بھی مناسب جواب نہ ہونے کے باعث سیاستدان صاحب نے اس سپیس سے بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی۔
سال 2018 میں ایک نجی دورے پر ترکی جانا ہوا تو ترکی میں غیر قانونی ہجرت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد سے ملنے کا اتفاق ہوا، استنبول کے بازاروں میں غیر قانونی ہجرت کرنے والے پاکستانی اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے بیشتر نوجوان آپکو مارے مارے پھرتے نظر آتے ہیں ، کسی سے انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کسی چائے خانے یا کسی ایشیائی ریستوران کے کسی کونے میں بھاؤ تاؤ کرتے نظر آئیں گے اور کوئی آپکو کسی پارک میں اس بات پر متفکر نظر آئے گا کہ ترکی میں غیر قانونی طور پر رہتے ہوئے کیسے اس مطلوبہ رقم کا انتظام کرے جس کے عوض وہ یونان کی سرحد پار کر کے یورپ میں قدم رکھ سکے۔ ان نوجوانوں سے بات چیت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ایجنٹ کو اچھی خاصی رقم دیکر اور جان جوکھوں میں ڈال کر بذریعہ ایران ترکی پہنچے ہیں اور اب ایجنٹ ان سے یورپ پہنچانے کے لئے مزید رقم کا تقاضا کر رہا ہے۔ ترکی کی حکومت پاکستانیوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہوئے غیر قانونی مہاجرین کے لئے سخت رویہ نہیں اپناتی ، تکنیکی اعتبار سے بہتر پاکستانی استنبول کے ارد گرد چمڑے کی صنعت میں کام پر بھی لگ جاتے ہیں، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے کئی ایسے نوجوان بھی ملے جو آئے تو غیر قانونی طریقے سے تھے مگر وہ یورپ جانے کے بجائے ترکی میں ہی روزگار سے وابستہ ہوگئےاور ایک معقول معاوضے پر ترکی میں ہی ملازمت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
مندرجہ بالا سطور میں اپنے گھر کی مثال پیش کرنا اور اپنے ذاتی تجربے کے اشتراک کا مقصد یہ تھا کہ یونان کشتی ڈوبنے پر اتنے بڑے جانی نقصان کے بعد دو طرح کی آراء سامنے آئی ہیں اکثریتی رائے یہ ہے کہ انسان ہجرت اپنے ملک میں وسائل کی کمی ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور روزگار کے مواقع کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے بہتر مستقبل کی تلاش میں کرتا ہےاور اس کی بلاواسطہ ذمہ دار ریاست اور اس پر حکومت کرنے والی سیاسی اشرافیہ ہے ، ایک رائے یہ ہے کہ 24 تا 30 لاکھ کے عوض ایک غیر محفوظ اور غیر قانونی طریقہ اپنانے سے بہتر تھا کہ انہی پیسوں سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر لیتے تو انہیں اپنی جان نہ گنوانی پڑتی۔ میں دونوں آراء سے متفق ہوتے ہوئے عرض کرتا چلوں کہ ان دونوں آراء کی تفہیم کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے کہ عدم مساوات ، تفریق ، غیر معیاری مہنگی تعلیم ، تکنیکی استعداد کی عدم فراہمی اور سرمایہ دارانہ نظام کی چکا چوند، سرمائے اور دولت کی بنیاد پر سماجی رتبے کے تعین جیسے عوامل انسان کو غیر قانونی ہجرت پر مجبور کرتے ہیں۔ ہجرت قانونی ہو یا غیر قانونی وہ رضاکارانہ بنیادوں پر نہیں ہوتی ، سوچیے !ایک ایسا سماج جہاں جنگ، آفات، بدامنی یا شورش کے نتیجے میں اپنے ملک میں ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والے انسانوں کے لئے وہ رویے روا نہیں رکھے جاتے جو وہا ں پہلے سے آباد لوگوں کے لئے ہوتے ہیں تو ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہجرت کرنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہوگا۔ ہجرت کے بعد آپ معاشی طور پر چاہے جتنے بھی خوشحال ہوں نئے ملک ، نئے سماج ، نئے رویوں ، نئی قدروں کا جزو بننے کی جدوجہد اور کشمکش اتنی آسان نہیں ہوتی، اس معاشرے کی معاشی اقدار بھلے ہی آئیڈیل ہوں لیکن آپ کے لئے ایک غیر محسوس حد کا تعین ضرور کیا جاتا ہے۔
دولت کی ہوس یا بہتر مستقبل کی تلاش میں سینکڑوں افراد کا بحیرہ روم کی سمندری حیات کی خوراک بننا بلا شبہ ایک انسانی المیہ ہے اور اسکے محرکات مقامی سماجی نظام ، تعلیمی نظام، مقامی سیاسی اشرافیہ اور وہ عالمی انسانی سمگلنگ کے کارندے اور قوانین ہیں جو غیر قانونی انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لئے آج تک کوئی موثر حکمت عملی وضع نہیں کر سکے ہیں۔یہ سانحہ ایک نئی شعوری سیاسی جدوجہد، تعلیمی نظام اور تکنیکی استعداد کی ضرورت پر زور دینے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ سانحہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ متاثرین کی مالی معاونت اور داد رسی اور حرف تسلی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ مقامی سیاسی اشرافیہ سے لیکر عالمی ذمہ داران تک سوال پہنچایا جائے کہ غیر قانونی انسانی سمگلنگ پر آج تک موثر نظام وضع کیوں نہیں کیا گیا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر قانونی ہجرت کے سہولت کاروں کے نیٹ ورک کی کڑی نگرانی کرتے ہوئے ، غیر قانونی ہجرت کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان کے ساتھ جڑت پیدا کرتے ہوئے مزید منظم ہو کر ذمہ داران کو مقامی اور بین الاقوامی گرفت میں لایا جائے اور ایسا ایک مربوط سیاسی اور سماجی جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں