• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قائداعظم اور پاکستان کی نظریاتی بنیادیں(2،آخری حصّہ)-سیدثاقب اکبر

قائداعظم اور پاکستان کی نظریاتی بنیادیں(2،آخری حصّہ)-سیدثاقب اکبر

اب ہم اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ قائد نے کس طرح کے پاکستان کا خواب دیکھا، وہ ملک میں کیسا دستور چاہتے تھے، وہ کس طرح کے جوانوں کی پرورش کرنا چاہتے تھے، پاکستان میں کیسا اقتصادی نظام ان کے پیش نظر تھا، اسی طرح اقلیتوں کے حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر کیا تھا۔ اس سلسلے میں قائداعظم کے فرامین، خطبات اور مکاتیب کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں پاکستان کی تعمیر چاہتے تھے۔ اس کے باوجود کہ تھیوکریسی یا ملائیت ان کے پیش نظر نہ تھی بلکہ ان کے نزدیک ایک جمہوری ریاست کی تشکیل تھی، تاہم ایسی ریاست جس کی بنیادیں اسلامی اصولوں پر استوار ہوں۔ آئیے اس سلسلے میں مختلف عناوین کے تحت ان کے خطبات و مکتوبات سے چند اقتباسات پر نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستانی قومیت کی اساس
27 دسمبر 1943ء کو ڈیلی ڈان نے قائد کی ایک تقریر شائع کی، جس میں آپ نے پاکستانی قومیت کی اساس کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے علامہ اقبال کے افکار با انداز دگر بیان کیے جا رہے ہیں آپ نے فرمایا: ’’وہ کون سی چیز ہے، جس نے فردِ واحد کی طرح مسلمانوں کو متحد کر دیا ہے اور قوم کا ملجا و ماویٰ کیا ہے؟ انھوں نے خود ہی جواب دیا: “اسلام” اور مزید کہا: ’’یہ عظیم کتاب قرآنِ کریم ہے، جو مسلمانانِ ہند کی پناہ گاہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے چلے جائیں گے، زیادہ سے زیادہ یکتائی آتی جائے گی۔۔۔ ایک اللہ، ایک کتاب، ایک قبلہ، ایک رسولؐ اور ایک قوم۔‘‘(قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد سوم، ص ۲۵۱)

پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قائد نے مختلف مواقع پر اپنا نقطہ نظر واضح کیا۔ چنانچہ یکم فروری 1943ء کو ہوسٹل پارلیمنٹ اسماعیل یوسف کالج میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی، جسے اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ اس کا ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچا اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔۔۔ غیر مسلموں کو کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، ان سے پوری طرح عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ مکمل طور پر اپنے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور معاشی حقوق میں محفوظ و مامون ہوں گے۔ درحقیقت انھیں آج کل کی نام نہاد پارلیمانی جمہوری حکومت سے زیادہ تحفظ ملے گا۔‘‘

پاکستان کے دستور کی اساس
فروری 1948ء میں امریکہ کے عوام کو ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے پاکستان کے دستور کی اساس کے حوالے سے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے، جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص۴۰۲و۴۰۳)

قرآن ایک جامع ضابطۂ حیات
8 ستمبر 1945ء کو عید کے پیغام میں آپ نے فرمایا: ’’جہلا کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطۂ حیات ہے۔ ایک دینی، معاشرتی، سول، تجارتی، فوجی، عدالتی، فوجداری ضابطہ ہے۔ یہ رسوم مذہب ہی سے متعلق نہیں بلکہ روزمرہ زندگی سے متعلق بھی ہے۔ روح کی نجات سے لے کر جرائم تک، اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، سوم، ص ۴۷۴)

پاکستان، اسلام کی عظمت رفتہ کی واپسی
18 مارچ 1944ء کو پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور سے قائد نے اپنے خطاب میں فرمایا: ’’لیگ نے ان کے لیے قطعی منزل کی نشان دہی کر دی ہے اور انھیں واضح اور صاف شفاف نصب العین “پاکستان” دے دیا ہے۔ جو اَب مسلمانوں کے عقیدے کا جزو بن گیا ہے، جس کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمان سردھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہیں۔ اب یہ محض ایک نعرہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی شے ہے جسے مسلمانوں نے سمجھ لیا ہے اور اسی میں ان کا دفاع، نجات اور تقدیر مضمر ہے، جس کی صدائے بازگشت ساری دنیا میں سنائی دے گی کہ ایک مسلم مملکت ہے، جو اسلام کی عظمت رفتہ کو واپس لائےگی۔ انھوں نے کہا: ’’ہم اپنے وطن پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کرکے رہیں گے۔‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، سوم، ص ۲۸۰)

اسلامی جمہوریت اور شوریٰ کا قرآنی حکم
14 فروری 1948ء کو بلوچستان سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا: ’’اس اسکیم کو پیش کرتے ہوئے میرے پیش نظر ایک ہی اصول تھا، یعنی اسلامی جمہوریت کا اصول۔ میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات انھیں سنہری قوانین کی پابندی میں ہے، جو ہمارے شارع اعظم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے متعین کیے۔ آیئے ہم اپنی جمہوریت کی اساس صحیح اسلامی تصورات اور اصولوں پر استوار کریں۔ ہمارے خدائے عزوجل نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ’’کاروبار مملکت کے سلسلے میں ہمارے فیصلے، مباحثے اور مشاورت کے اصول کے تحت ہوں گے۔‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات ، چہارم، ص۴۱۲)

قائد کے پیش نظر اقتصادی نظام
یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے شعبہ تحقیق کا افتتاح کرتے ہوئے قائد نے پاکستان میں مروجہ سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اسلامی معاشی نظام کے نفاذ پر زور دیا۔ آپ نے کہا: ’’آپ کا تحقیقی شعبہ، بینکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا، مَیں اس کا دلچسپی کے ساتھ انتظار کروںگا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دُنیا کو اس بربادی سے بچا سکے، جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔۔۔

مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دُنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچّے اسلامی تصورپر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچا سکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ص ۵۰۱)

پاکستان اور اسلام لازم و ملزوم
15 جون 1945ء کو فرنٹیئر مسلم فیڈریشن پشاور کے نام اپنے تحریری پیغام میں قائد نے فرمایا: ’’میں نے اکثر یہ بات واضح کی ہے کہ اگر مسلمان باوقار اور لائق احترام لوگوں کی طرح سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے: پاکستان کے لیے لڑیئے، پاکستان کے لیے زندہ رہیے اور اگر ناگزیر ہو تو حصولِ پاکستان کے لیے جان دے دیجیے، ورنہ مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ ہمارے سامنے ایک ہی راہ ہے: اپنی قوم کی تنظیم کرنا اور یہ ہم اپنی محنت، مصمم اور پُرعزم مساعی کے ذریعے سے ہی قوت پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی قوم کی حمایت کرسکتے ہیں، نہ صرف اپنی آزادی اور خود مختاری حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اسے برقرار بھی رکھ سکتے ہیں اور اسلامی آرزوئوں اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ پاکستان کا مطلب نہ صرف آزادی اور خود مختاری ہے بلکہ مسلم نظریہ بھی ہے، جسے ہمیں محفوظ رکھنا ہے۔ جو ایک بیش قیمت تحفے اور سرمائے کے طور پر ہم تک پہنچا ہے اور ہم اُمید کرتے ہیں اور لوگ بھی اس میں ہمارے ساتھ شراکت کرسکیں گے۔‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، سوم، ص ۴۳۸)۔

اسلام کا قلعہ اور شوق شہادت
پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کی ریلی 30 اکتوبر1947ء سے قائداعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہر شخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی ان عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ِضرورت اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ ہوگا۔ جن کا نصب العین اندرونِ ملک بھی امن اور بیرونِ ملک بھی امن ہوتا ہے۔۔۔ اس کے ساتھ اپنا حوصلہ بلند رکھیے۔ موت سے نہ ڈریے۔ ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ موت کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں پاکستان اور اسلام کا وقار بچانے کے لیے اس کا مردانہ وار سامنا کرنا چاہیے۔ صحیح مقصد کے حصول کی خاطر ایک مسلمان کے لیے جامِ شہادت نوش کرنے سے بہتر کوئی راہِ نجات نہیں۔‘‘ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، چہارم، ص ۳۸۹-۳۹۰)

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک مرد خدا پرست کی واحد تمنا
آل انڈیا مسلم لیگ کے اجتماع منعقدہ 1939ء سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا: ’’میں دُنیا کافی دیکھ چکا ہوں اور میرے پاس دولت بھی کافی ہے۔ میں زندگی کی تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوچکا ہوں۔ اب میری واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو کامیاب، خوش حال اور آزاد قوم کی طرح دیکھوں۔ میں اس دنیا کو صاف ضمیر اور پورے اطمینان کے ساتھ اس احساس کے ساتھ چھوڑنا چاہتا ہوں کہ جناح نے اسلام کے مقصد اور مسلمانوں سے بے وفائی نہیں کی۔ مجھے آپ کی تعریف یا کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا دل، میرا ضمیر اور میرا ایمان موت کے وقت یہ ثابت کرے کہ جناح مسلمانوں اور مسلمانوں کے مقصد کا دفاع کرتے ہوئے فوت ہوا ہے۔ میرا خدا گواہی دے کہ جناح “کفر” کی قوتوں کے خلاف ایک مسلمان کی طرح جیا اور اسلام کے پرچم کو سربلند کرتے ہوئے جان دی۔”بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply