نوٹ : مذکورہ تحریر رنگا رنگ جھوٹی امیدوں کا سہارا لینے والوں اور تنہائی کے منکروں کے لئے ہرگز نہیں ہے ! شکریہ
ساحر شفیق لکھتے ہیں
“اُداسی کے دنوں میں ایک دن اُس کا دل چاہا کہ وہ کسی سے ناراض ہو جائے!
بہت ناراض ۔۔اتنا ناراض کہ دوسرا آدمی اُسے منانے کے لئے خودکشی کی دھمکی تک دینے پر مجبور ہو جائے اُسے قائل کرنے کی کوشش کرے، دلیلیں دے، عذر پیش کرے وہ اِس قدر رقّت کا مظاہرہ کرے اور اتنی حجت کرے کہ آخر کار اسے صلح کرنی ہی پڑے!
وہ کس سے ناراض ہو؟ اُس نے سوچا اور اُداس ہوگیا
اُس کا تو کوئی بھی نہیں تھا!”
ساحر شفیق کی یہ بات سالہا سال پہلے کی ہوسکتی ہے مگر اب جب کہ دنیا کی کُل آبادی 8 یا سوا 8 ارب سے تجاوز کرچکی ہے پھر بھی دنیا کے مشہور اور پُراثر سوسائڈ نوٹس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ : میں پُل تک پیدل جاؤنگا اگر اس بیچ کسی نے مجھے مسکرا کر دیکھ لیا تو میں پُل سے نہیں کودونگا!
مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ یہ جملہ ایک سوسائڈ نوٹ ہے یعنی ۔۔۔!خیر!
عالمی تجزیہ نگار، ماہرین، ماحولیاتی فلاسفر، رائج الوقت مسائل کے ماہر نگران اور کرہ ارض کی بیشتر تبدیلوں پر نظر رکھنے والے سائنسدان ۔۔یہ سبھی لوگ آپ کو درپیش مسائل کی ہم آہنگی تو دے سکتے ہیں مگر ان کے فارمولوں تھیوریوں میں بھی یہ دکھ شامل نہیں کہ ایک نارمل سے لیکر حساس انسان تک جو مایہ ناز چیز کھو چکا ہے وہ کسی کا ہم مزاج شخص پانا ہے!
کسی کا کاندھا نہ مل پانا، کسی کے پاس اس کا دکھ سمجھنے سننے اور کہنے کو سامع نہ ہونا یہ آخری المیہ ہے ان سب باتوں کا خلاصہ تنہائی ہے۔
اگر تنہائی نہ ہوتی تو ارنسٹ ہیمنگوے جیسا انسان میوکلینک سے ڈسچارج ہونے کے دو دن بعد 2 جولائی 1961 کو الماری سے اپنی شارٹ گن نہ نکالتا ،نہ ہی وہ اس میں دو کار توس ڈالتا اور نہ گن کا اگلا حصّہ اپنے منہ میں ڈال کر بندوق کی لبلبی دباتا۔۔
دراصل بھیڑ میں چلتا انسان بھی تنہا ہوسکتا ہے اور تنہائی میں رہتا انسان بھی عین ممکن ہے ایک بھیڑ ساتھ لئے چلتا ہو مانا کہ یہ بہت خشک موضوع ہے مگر میرے نزدیک خلوت میں جلوت، جلوت میں خلوت کا یہی مطلب ہے۔
کیونکہ ارنسٹ ہیمنگوے کی موت کے بعد ساری دنیا حیران تھی کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا جبکہ وہ بیشتر مقامات پر کہہ چکا تھا کہ : “کچھ لوگ موت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اُن میں سے ایک میں بھی ہوں میں اپنے آپ کو کبھی بھی نہیں مار سکتا”۔
ہم لوگ جو شہروں میں رہتے ہوئے ہریالی، درختوں، برف پوش پہاڑوں کے ساتھ اپنے لئے ایک ایسے گھر کی تمنا کرتے ہیں جہاں داخلی دروازے کے سامنے ہی نہر، دریا یا جھیل ہو، کوئی آبادی نہ ہو!
ایک پُرسکون، پُر آرائش زندگی ہمارے لئے یہی کچھ ہے جبکہ یہ سب تو ورجینیا وولف کو بھی حاصل تھا پھر کیوں آخر ایک روز اس نے رین کوٹ پہنا اور اس کی لمبی لمبی جیبوں میں پتھر بھرے اور نہر میں کود گئی؟
آخر ونسنٹ ولیم وین خوخ، یعنی وان گوگھ جس نے اپنی زندگی میں 900 تصاویر اور 1100 خاکے تخلیق کئے جس کا سیلف پورٹریٹ 1998 میں سات کروڑ پندرہ لاکھ ڈالرز میں فروخت ہوا ،جس کے فن پارے اور عکس نگاری دنیا میں قیمت کے اعتبار سے سب سے مہنگی پینٹنگز مانی جاتی ہیں ،مونا لیزا کی پینٹنگ کے بعد جس کا شاہکار بعنوان “اسٹاری نائٹ” مقبول ترین عکس ہے۔
وہی وان گوگھ / وین خوخ 29 جولائی 1890 کے دن 37 سال کی عمر میں بندوق کے ذریعے خودکشی کی کوشش کے تحت آنے والے گہرے زخم کے ذریعے جان دینے سے قبل لکھتا ہے
“ثیو! میرے بھائی! غم کبھی ختم نہیں ہوگا”
آخر یہ کونسا غم اور دکھ ہے جو نہ تو دکھتا ہے نہ ہی ختم ہوتا ہے؟ ایسی ہزاروں لاکھوں تمثیلیں موجود ہیں
المیہ اب بھی برقرار ہے کہ کسی کا کاندھا، کوئی سامع اور کوئی دکھ سننے والا فرد ہر کسی کے لئے گم ہوچکا ہے۔
ٹیسٹ آف چیری ایک ایرانی فلم ہے جس میں ایک شخص پوری عکس بندی میں ایک گاڑی لئے گھوم رہا ہے تاکہ وہ مرجائے تو کوئی اسے دفنادے
یعنی بس فقط ایک فرد کی تلاش!
کیا یہ دکھ اور کرب یہاں روز مرہ ہمارے اردگرد موجود نہیں؟
ایڈا جوکہ ایک نارویین مووی ہے جس کے آخری پندرہ منٹ میں ایک لڑکی دکھائی جاتی ہے
کیمرہ ایک مخصوص مقام پر نصب ہے جو لڑکی کی نقل و حرکت، کچن کی صاف صفائی اور ترتیب دکھاتا ہے اور اس سب کے بعد یک مشت بنا کسی سوچ و تعصب و بربریت کے وہ لڑکی کھلی کھڑکی سے کود جاتی ہے
اتنی پُر اثر خاموش موت؟
کہانی ایسے ہی تو ختم ہوتی ہے!
اگر اب بھی یہ بات سمجھنا مشکل ہے تو عصرِ حاضر میں جہاں 8 ارب سے زائد دنیا جی رہی ہے وہاں ہم لوگ گفتگو کے لئے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کیوں کررہے ہیں؟
فلم HER ریلیز 2013 اس کی بعینہ درست عکس بندی ہے
یاسیت، اداسی، تنہائی اور مایوسی بھلے کفر ہو مگر اس کا وجود جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
کیونکہ خودکشی سے بچانے کے لئے کوئی اپنا کاندھا دینے کو تیار نہیں ہے بلکہ بیشتر جھوٹی امیدوں، تلقینوں کا سہارا دینے والے خواتین و مرد، رونے سے روکنے والے انسان ملامتی صوفی بن کر اجر و ثواب بیچ میں لے آتے ہیں۔
حقیقی زندگی میں اس سب کا جو میں اوپر لکھ چکا ہوں وجود پھر بھی ہے مگر معذرت کے ساتھ یہاں ملامتی صوفی کی کوئی اصل نہیں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں