• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قرآنی آیات میں بانی اسلامﷺ کی معرفت کی ایک جھلک(حصّہ اوّل)۔۔۔نذ ر حافی

قرآنی آیات میں بانی اسلامﷺ کی معرفت کی ایک جھلک(حصّہ اوّل)۔۔۔نذ ر حافی

معرفت (True Justified belief)
معرفت یعنی درست شناخت (سچائی پر مبنی عقیدہ)، جس انسان کو کسی نظریئے، عقیدے یا شخصیت کی درست شناخت نہ ہو، وہ اس کی تعلیمات کے مطابق عمل بھی درست نہیں کرسکتا۔ گویا انسان کی باطنی معرفت (Esoteric cognition) اُس کے ظاہری عمل کی عمر اور حدود اربعہ طے کرتی ہے۔ معرفت جتنی گہری ہوتی ہے، عمل اتنا ہی پائیدار ہوتا ہے۔ آسان لفظوں میں کسی بھی شخص پر اُس کے عقیدے کی سچائی جتنی آشکار ہوتی ہے، وہ اُس پر عمل کا بھی اتنا ہی پابند ہوتا ہے۔ اِس رو سے معرفتِ نہائی اور عملِ بلافصل جُزوِ لاینفک ((Indivisible)) ہیں۔ دینِ اسلام نے ہمیں پیغمبرِ اسلام ؐ کی سیرت کے مطابق اعمال انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہمیں جتنی پیغمبرِ اسلام ؐ کی معرفت ہوگی، ہم اتنا ہی اُن کی سیرت پر عمل کریں گے۔ بانی اسلام کی معرفت کا ایک اہم اور قطعی منبع (Definite source) قرآن مجید ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کسی بھی چیز کے بارے میں قرآن مجید سے معرفت اور شناخت حاصل کرنے کا رجحان کم ہے، چنانچہ بانی اسلامﷺ کی بھی جو کچھ شناخت ہمیں ہے، اُس کا زیادہ تر انحصار قرآن مجید کے علاوہ دیگر کتب اور ہمارے اپنے قلبی تمایلات پر ہے۔

اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بانی اسلامﷺ کی درست شناخت، یعنی معرفت کے بغیر زندگی گزارنے کے بجائے قرآن مجید سے حقیقی معرفت حاصل کریں۔ یعنی ہمیں اپنے خود ساختہ ذہنی مفروضات اور کہنہ عقائد پر قائم رہنے کے بجائے قرآن مجید کی نورانی و ملکوتی آیات سے اپنے پیغمبرﷺ کی معرفت حاصل کرنی چاہیئے۔ کسی بھی قوم کا رہبر و رہنماء اس کے لئے نمونہء عمل (Role model) ہوتا ہے۔ اقوام اپنے رہبر کے نقشِ قدم پر چل کر ہی تعمیر و ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ گویا کسی قوم کے قائد کے نقوشِ زندگانی ہی اپنی قوم کے لئے چراغِ ہدایت ہوتے ہیں۔ قائد اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں جس طور سے بھی زندگی گزارتا ہے، اس کا ہر لمحہ اپنی قوم کے لئے نشانِ علم و عمل بن جاتا ہے۔ قرآن مجید نے حضرت محمد الرسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کو امّت مسلمہ کے لئے قائد اور نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ اب یہ مسلمانانِ عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیغمبرِ اسلام کی شخصیت اور حیاتِ مقدسہ کے تمام پہلووں کی معرفت حاصل کریں، تاکہ اس معرفت کے مطابق اعمال انجام دے سکیں۔ ہم اس مختصر تحریر میں قرآن مجید کو بطورِ منبع اپنے سامنے رکھ کر بانی اسلام کی معرفت کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خداوندِ عالم سے دعا گو ہیں کہ وہ ہماری اس سعی و کاوش کو ہمارے لئے دنیا و آخرت میں سعادت و نجات کا باعث بنائے۔(آمین)

ولادت سے پہلے حضور کی بشارت
قرآن مجید کے مطابق حضرت محمد الرسول اللہﷺ کے آنے کی بشارت آپ سے پہلے والے انبیا خصوصاً حضرت عیسیٰ نے دی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ایک آیت ملاحظہ فرمائیں:وَاِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِی ِسْرَائِیلَ ِنِّی رَسُولُ اﷲِ ِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ َاحْمَدُ فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہَذَا سِحْر مُبِین۔ “اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جس کا نام احمد ہے لیکن پھر بھی جب وہ معجزات لے کر آئے تو لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔[1] مندرجہ بالا آیت کے مطابق حضرت عیسیٰ نے حضورِ اکرم کے آنے کی بشارت دی تھی۔

حضورؐ کی ولادت کو بشارت کہنے کی وجہ
حضورِ اکرم کے دنیا میں تشریف لانے کو اس لئے بشارت کہا گیا ہے، چونکہ حضورِ اکرم اپنے سے پہلے والے انبیاء کے مقابلے میں نئے اور بلند مفاہیم و مطالب اور کامل و اکمل شریعت لے کر آئے ہیں۔ اگر حضورِ اکرم نئے مفاہیم و معارف نہ لاتے یا گذشتہ انبیاء کے ہی ہم پلّہ شریعت لاتے تو ایسے میں یہ کوئی بشارت کی بات نہ تھی اور نہ ہی کسی نبی ضرورت تھی۔ حضرت عیسیٰ کا اپنی قوم کو حضورِ اکرم کی آمد کی بشارت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ حضورِ اکرم نہ صرف حضرت عیسیٰ سے اور قرآن مجید نہ صرف انجیل سے افضل و برتر ہے بلکہ حضورﷺ اپنے سے سابق تمام انبیاء سے برتر ہیں اور قرآنِ مجید گذشتہ تمام آسمانی کتابوں سے افضل ہے۔ چونکہ حضورﷺ سب انبیاء کے آخر میں تشریف لائے اور آپ ختم النّبیین ہیں، یعنی آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اس لئے آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

حضورؐ کی نبوّت کا مقام
حضور اکرمﷺ نہ صرف یہ کہ نبی ہیں بلکہ ختم النبیین ہیں۔ آپ کی فضیلتوں میں سے ایک فضیلت آپ کا ختم النبیّن ہونا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ پروردگار ہے: مَا کَانَ مُحَمَّد َبَا َحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اﷲِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا۔ “محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔”[2] مندرجہ بالا آیت حضور اکرمﷺ کی ختم نبوت پر واضح اور روشن دلیل ہے۔ اس آیت میں حضور اکرمﷺ کو خَاتَمَ النَّبِیِّین کہا گیا ہے۔

خَاتَمَ النَّبِیِّین کا مطلب
خَاتَم کسی تحریر کے آخر میں لگائی جانے والی مہر کو کہتے ہیں۔ جب محرّر (تحریر کرنے والا) اپنی تحریر مکمل کر لیتا ہے تو وہ آخر میں ایک مہر لگا دیتا ہے، تاکہ (قاری) پڑھنے والے کو پتہ چل جائے کہ بات ختم ہوگئی ہے۔ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے سلسلہ نبوت کو جاری کرنے والے پروردگار نے حضورﷺ کو خَاتَمَ النَّبِیِّین، یعنی آخری نبی قرار دیا ہے۔ پس قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کے بعد ناں کوئی نبی آیا ہے اور ناں ہی آئے گا۔ حضورﷺ کا ایک اور امتیاز آپﷺ کی عبودیت اور بندگی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عبودیت کے بارے کیا ارشاد فرمایا ہے۔

حضورؐ کی بندگی اور عبادت
خداوند عالم کے نزدیک سب سے کامل ترین عبادت حضور اکرمﷺ کی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے آپ کے سوا کسی اور نبی یا رسول کو عبدہ یعنی بطور خاص اپنا عبد نہیں کہا جبکہ آپ کے بارے میں سورہ فرقان آیت ١میں ارشاد مبارک ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ۔ “بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے”(١) اسی طرح سورہ اسراء کی آیت ایک میں ارشاد پروردگار ہے: سُبْحَانَ الَّذِی َسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ِلَی الْمَسْجِدِ الَْقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا ِنَّہ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ۔ “پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار، جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔”(١) حضور اکرمﷺ کی ایک اور اہم فضیلت یہ ہے کہ قرآن مجید نے آپ کو اول المسلمین قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے اول المسلمین ہونے کے بارے میں کس طرح سے گفتگو فرمائی ہے۔

اوّلِ مخلوق اور اول مسلمین
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اکرمﷺ سے فرمایا ہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ میں اوّلُ المسلمین (پہلا مسلمان) ہوں۔ خدا نے کسی اور پیغمبر کے لئے یہ لقب استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ حضرت ابراہیم، رسول اکرمﷺ سے پہلے دنیا میں تشریف لائے اور بزرگانِ انبیاء میں شمار ہوتے ہیں، خود رسول اکرمﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ “انا ابن الذبیحین” حضورﷺ نے خود کو حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسمٰعیل کا فرزند قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود خدا نے حضرت ابراہیم کو اوّلُ المسلمین نہیں کہا۔ حضرت نوح شیخ الانبیاء ہیں اور حضرت آدم جو کہ ابولبشر ہیں، خدا نے انھیں بھی اس لقب سے منسوب نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور کوﷺ وقت اور زمانے کے اعتبار سے اوّلُ المسلمین نہیں کہا گیا، چونکہ حضورﷺ سے پہلے بھی انبیاء اس دنیا میں موجود تھے۔ حضورﷺ کو اس لئے اوّلُ المسلمین کہا گیا ہے، چونکہ آپﷺ مخلوقِ اوّل ہیں، یعنی آپ کی ذات ِ اقدس سب سے پہلے خلق ہوئی، چنانچہ اس لحاظ سے آپ اوّلُ المسلمین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے حضورﷺ ہی محشور ہوں گے۔

خدا وندِ عالم نے سورہ انعام کی آیت ١٦٢تا ١٦٣ میں ارشاد فرمایا ہے: قُلْ ِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَای وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (١٦٢) لاَشَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ ُمِرْتُ وََنَا َوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (١٦٣) (162) کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری عبادتیں، میری زندگی، میری موت سب اللہ کے لئے ہے، جو عالمین کا پالنے والا ہے۔ (163) اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ اسی طرح سورہ زمر کی آیت ١٢ میں ارشاد پروردگار ہے: قُلْ ِنِّی ُمِرْتُ َنْ َعْبُدَ اﷲَ مُخْلِصًا لَہُ الدِّینَ (١١) وَُمِرْتُ لَِنْ َکُونَ َوَّلَ الْمُسْلِمِینَ (١٢) (11) کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاص عبادت کے ساتھ اللہ کی عبادت کروں (12) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بن جاوں۔ حضورﷺ کی شخصیّت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کی سیرت و سنّت سراپائے وحی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

سراپاء  وحی
قرآن مجید نے حضورﷺ کے کلام اور سکوت دونوں کو مرضیِ پروردگار کے تابع قرار دیا ہے۔ جیسا کہ سورہ نجم کی آیت ٣ اور ٤ میں ارشاد پروردگار ہے۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی (٣) انْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحَی(٤) “وہ ہوائے نفس کے تحت نطق نہیں کرتا، اس کا نطق وحی ہوتا ہے۔” یاد رہے کہ نطق سے مراد قول یا گفتگو نہیں ہے بلکہ نطق سے مراد سکوت و گفتگو ہر دو حالتیں ہیں۔ قانونی اختراعات اور سماجی مسائل کے بارے میں انسان جو کچھ بھی ہوائے نفس کے تحت کرتا ہے، وہ ناں ہی تو جامع اور کامل ہوتا ہے اور ناں ہی حق و عدالت کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے، لیکن اس کے برعکس انسان جو کچھ وحی الٰہی کے تحت کرتا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ جامع اور کامل ہوتا ہے بلکہ عین حق و عدالت بھی ہوتا ہے۔ پس پیغمبر اسلامﷺ کی تمام گفتار و کردار میں وحی کا پرتو اور جلوہ ہے اور اس میں کسی بھی طرح سے ہوائے نفس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کی ذاتِ گرامی کو پیکرِ عصمت قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عصمت و طہارت کے بارے میں کس انداز سے گفتگو فرمائی ہے۔

عصمت و طہارت کا درجہ
عصمت و طہارت سے مراد فقط انسان کی گفتگو میں غلطیوں سے حفاظت نہیں بلکہ اس کے تمام مراحلِ زندگی میں غلطیوں اور لغزشوں سے حفاظت کا نام عصمت و طہارت ہے۔ چنانچہ وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی (٣) ِانْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحَی (٤) سے یہی مطلب بیان ہو رہا ہے کہ حضورﷺکی تمام سیرت و حیات، عصمت و طہارت میں ڈھلی ہوئی ہے۔ اسی طرح سورہ انعام کی آیت ٥٠ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ا ِنْ َتَّبِعُ ِلاَّ مَا یُوحَی۔ “ہم تو صرف وحی پروردگار کا اتباع کرتے ہیں۔” چونکہ حضورﷺ نے صرف وحی کی پیروی کی ہے، اس لئے آپ کی تمام تر زندگی عصمت و طہارت کی آئینہ دار ہے۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کی ذات ِمقدس کو معصوم ہونے کے باعث تمام جہان کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ حضورﷺ کو نمونہ عمل قرار دینے سے متعلق قرآن مجید نے کیا بیان فرمایا ہے۔

بحیثیتِ نمونہ عمل
قرآن مجید نے سورہ احزاب کی آیت ٢١ میں حضورﷺ کو تمام عالم کے لئے نمونہ عمل قراردیتے ہوئے فرمایا ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اﷲِ ُسْوَة حَسَنَة لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اﷲَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِیرًا۔ “تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔” اس آیہ مجیدہ میں نہ صرف یہ کہ رسولِ اکرمﷺ کو نمونہ عمل قرار دیا گیا ہے بلکہ ان لوگوں کی شناخت بھی کرائی گئی ہے، جو حضورﷺ کی اتباع اور پیروی کرنے والے ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق اگر کوئی شخص حضورﷺ کی پیروی نہیں کرتا اور حضورﷺ کو اپنے لئے نمونہ عمل نہیں مانتا تو وہ دراصل اللہ سے غافل ہے اور روزِ آخرت سے ناامید ہے۔ پس اگر ہم اللہ کو اپنا خالق و مالک سمجھتے ہیں اور روزِ قیامت پر یقین رکھتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم زندگی کے تمام سیاسی و اجتماعی و انفرادی معاملات میں بھی حضورﷺ کی پیروی اور اطاعت کریں۔ چنانچہ سورہ حشر کی آیت ٧ میں ارشاد پروردگار ہے: وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ شَدِیدُ الْعِقَابِ۔ “اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے، اسے لے لو اور جس چیز سے منع کر دے، اس سے رک جاو اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔” رسول اکرمﷺ چونکہ عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل ہیں، اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اتنے عظیم پیغمرﷺ کو کن القابات اور خطابات سے پکارا ہے۔

خدا کا حضورؐ سے اندازِ گفتگو
قرآن مجید میں خداوندِ عالم نے مختلف انبیاء کرام کو اُن کے نام لے کر مخاطب کیا ہے، جبکہ حضورﷺ کو نام لے کر پکارنے کے بجائے مختلف القابات سے یاد کیا ہے۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کو کبھی “قُل” یعنی فرما دیجئے، کبھی فبشّر عبادالذین۔۔۔ یعنی ان لوگوں کو بشارت دیجئے۔۔۔۔ اور کہیں پر یا ایھا النّبی، کہیں پر یا ایھا لمزمل، کہیں پر یا ایھا المدثر۔۔۔ کہا ہے، لیکن کہیں پر بھی یا محمدﷺ نہیں کہا۔ قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ خداوندِ عالم نے حضورﷺ کے اخلاق کو خلقِ عظیم قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے اخلاقِ حسنہ پر کس طرح روشنی ڈالی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply