ہوس پرستی، قوم کی اخلاقی حالت اور سیکس ٹیبو۔۔۔عبداللہ اشفاق

ابھی مدرسے کے استاد اور اس کی کرتوت سامنے آئی  ہیں تو کئی لوگ سیخ پا نظر آتے ہیں اور کئی یہ کہتے بھی نہیں تھک رہے کہ سارے ہی مدارس میں ایسا ہوتا ہے اور دوسری طرف انہی  مدارس سے منسلک حضرات  سکول اور کالجز کی مثالیں دے کر اس معاملے کو  دبانے  کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔۔ بات اتنی سی ہے کہ ابھی  ہم اپنی کئی ننی کلیوں اور ان کے درندگی کا شکار ہوئے   لاشوں سے فرصت ہی نہیں حاصل کر پاتے کہ ایک نیا واقعہ   وقوع پذیر  ہوجاتا ہے۔۔

آپ مانیں  یا نہ مانیں  سماج کی نچلی تہ میں پنپنے والی یہ گندگی بہت تیزی سے اوپری سطح پر نمودار ہورہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید اضافہ ہی ہوا چلا جا رہا ہے ، اس گندگی کو پھیلانے میں کسی نہ کسی حد تک مجموعی سوسائٹی ہی ذمہ دار ہے ، اب مزید وقت نہیں ہے کہ اس گندگی پر وہ ہی مہذب  غلف چڑھا کر  مزید چھپایا جاتا رہے اور کوئی واقعہ ہونے پر تُو تُو میں میں پر ہی اکتفاء کیا جائے، عرض یہ  ہے کہ مزید تباہی اور بربادی سے پچنے کے لئے  کانٹ چھانٹ   کی اشد ضرورت ہے۔۔۔

آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ اس گندگی کو پھیلانے میں سارا سماج کس طور پر کسی نا کسی حد تک ملوث ہے اور وہ کیا جذبات ہیں جس کی تسکین کے صحیح و درست ذرائع سے غفلت برتنے پر آئے روز ایک نئی افتاد سے سابقہ  پڑ رہا ہے۔۔

سیکس ایک اہم انسانی جبلت ہے، اور ہر قدیم و جدید دور میں خدائی تعلیمات نے اس جبلت کی درست و راستی کے طریقے سے تسکین کرنے کے لئے تمام ضروری معلومات انسانوں تک پہنچائی ہیں اور نوع انسانی کی بقا و تربیت اس کے عظیم مقاصد میں سے ایک مقصد ٹھہرایا گیا ہے۔اس کی اتنی معاشرتی  اہمیت ہے کہ قرآن مجید میں بھی ان موضوعات پر شرم کا مادہ غالب نہیں آیا بلکہ تمام ضروری معلومات ان مسائل سے متعلق دی گئی ہیں۔ اس کا شمار سوسائٹی کے ٹیبوز میں ہر گز نہیں ہوتا کہ درست و غلط کی تمیز کے حوالے سے مکمل خاموشی برتی جائے  بلکہ اس لحاظ سے والدین و تعلیمی اداروں کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ ان تعلیمات کے  تمام اہم پہلو بروقت اپنی اولاد اور شاگردوں  تک پہنچانے کا انتظام کریں۔۔۔اب آپ اسے سیکس گائڈنس کا نام دیں یا کوئی اور لیکن اس کی ضرورت سے اب انکار نہیں کیا جاسکتا۔۔

دوسری اہم بات اس جبلت سے منسلک   مختلف انسانی رویوں کی سائیکو لوجیکل بنیادوں پر  سٹڈی کرنے کی ضرورت ہے، ایک صحیح راستہ موجود ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص دوسرے غلط راستے کا انتخاب  کررہا ہے تو یقیناً وہ جذباتی و سائیکولوجیکلی بیمار ہے جس کی بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے اسباب پیدا کرنا بھی  ، اس  کانٹ چھانٹ کے مرحلوں میں سے ایک   ہے۔ اس حوالے سے کچھ حد تک معلومات سیکس گائڈنس کے نصاب میں دی جاسکتی ہے۔تاکہ بیمار اور تندرست رویوں کی بروقت تشخیص ہوسکے۔

تیسری اہم بات ، درست ذرائع سے اس جبلت کی تسکین کے ماحول میں رکاوٹیں پیدا کرنا اس جبلت کو فنٹاسی کی حد تک لے جانے کا سبب بن رہا ہے، اگر نکاح آسان کردیا جائے تو یقیناً سماج کی مجموعی اخلاقی حالت میں بہتری لائی جاسکتی ہے، دوسرا غلط راستوں کی ترویج کو روکنا اور عوام الناس میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

جدید ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا کے اوپر شائع ہونے والے مواد اور پبلک انٹرسٹ کی بنیاد پر معاشرے کی حالت اور اس کی گراوٹ کو محسوس کیا جاسکتا ہے،قلیل  عرصے  میں سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کی خواہش ہوس کی حدوں کو  چھو رہی ہے۔۔ حریم شاہ، قندیل بلوچ، بھولا ریکارڈ اور اسی طرح کے کئی کردار۔۔ سیاسی شخصیات کا گریبان، اور سب سے بڑھ کر ساری پبلک کا کسی بھی  سکینڈل کے سامنے آنے پر لنک لنک کا مطالبہ کرنا، ظاہر کرتا ہے۔۔ صاحب مکمل نہیں تو ساری دال ہی کسی نہ کسی حد تک کالی ہے۔۔ اسے قابو  کرنے ، لوگوں کے بیمار رویوں کو تلاش کرنے اور عوام کو تعلیم یافتہ  کرنا لازمی نظر آتا ہے۔۔

ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ حکومت پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملزمان کو کڑی سزا دلوانے کے ساتھ ساتھ مکمل اجتماعی مشینری کو استعمال کرنے میں کس حد تک کوشاں ہے۔۔

آخر میں یہ کہ معاشرے کی گراوٹ میں اپنے کردار کا جائزہ لینا  اور خود احتسابی کے عمل کو فروغ دینے اور اس کی بہتری میں شخصی اور اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہمیں بڑی تباہی سے بچا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

عبداللہ اشفاق
اٹلی کی جامعہ پولیٹیکنیک میں شعبہ انجینئرنگ اینڈ مینیجمنٹ میں ماسٹرز کے لئے زیر تعلیم ہوں، این ای ڈی یونیورسٹی سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ معاشرے اور خصوصا" پاکستان کے سماج کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے منزل کی تلاش ہے۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply