پاکستانی قوم اور انٹرنیٹ۔۔نازیہ علی

پاکستانی نوجوان نسل اور پاکستانی قوم تیزی سے انٹرنیٹ کے منفی استعمال سے تباہی کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے جو کہ کسی المیے سے کم نہیں اپنی  دینی تعلیمات اور خاندانی روایات کو بھلا کر جب انسان اپنے آپ کو کسی کی دیکھا دیکھی اسکے انداز اور   سمت چلانے کی کوشش کرنے لگے تو ایسے میں اس پر یہ محاورہ غلط نہیں کہ “کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا”۔

ہمارا معاشرہ مشرقی روایات بُھلا کر مغربی بے حیائی سے متاثر ہو کر وہ آزادی اپنانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں والدین اپنی اولاد کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر بھی ان پر کسی قسم کی نظر نہیں رکھتے ۔اس طرح کی تمام صورتحال میں معاشرے میں منفی نتائج آنا کوئی انوکھی بات نہیں جب والدین اولاد کے روز مرہ معاملات پر نظر نہیں  رکھیں گے کہ اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کریں گے کہ آیا ان کا بچہ موبائل پر   گیم کھیل   رہا ہے یا یوٹیوب پر کوئی غیر اخلاقی ویڈیو دیکھ رہا ہے تو  ، وہیں سے  پہلے بچے اور پھر   معاشرے کا بگاڑ شروع ہو تا  ہے۔

انٹر نیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا کے استعمال کی اگر نوجوان نسل میں بات کی جائے تو وہ مثبت اور منفی ہے مگر زیادہ تر منفی رجحان دیکھا گیا ہے فیس بک ،واٹس ایپ ،انسٹا اور ٹک ٹاک کے ذریعے کچھ گھروں میں طوفان آئے ہوئے ہیں اور کچھ میں انکی تیاری اکثر رہتی ہے۔پہلے جہاں دیہات  میں لڑکیاں یا عورتیں باپردہ پائی جاتی تھیں اب انکے ہاتھوں میں بھی موبائل تھما کر یا تو کمائی کا ذریعہ یا پھر کسی کا گھر اجاڑنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ لڑکیوں میں بھی انٹر نیٹ کے منفی اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ،فیس بک وغیرہ پر چلنے والے معاشقوں کی وجہ سے لڑکیاں صرف وقتی جذبات یا لڑکے کی فروفائل اور تصویروں سے اُس کی امیری کا اندازہ لگا کراکثر   دوسری ،تیسری  اور  چوتھی بیوی بننے پر بھی خوشی سے آمادہ دکھائی دیتی ہیں،  اپنے ماحول سے چھٹکارہ پانے کیلئے دیہی سے شہری بننے کو ترجیح دیتے ہوئے مرد کی اپنی پہلی بیوی کے خلاف سنائی گئی جھوٹی داستانوں پر بھی بھروسہ کر لیتی ہیں اور اپنی غیرت کی تمام حدیں پار کر کے کسی بھی شادی شدہ مرد کو بآسانی اکسا کر اپنا دیوانہ بننے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ایسے کیسز میں اکثر ان لڑخیوں کے گھر والے ان کا ساتھ دیتے  نظر آتے  ہیں    ۔

سوشل میڈیا جہاں ایک طرف سیاستدانوں،اداکاروں،ماڈلز،فیشن ڈیزائنرز،میک اپ آرٹسٹ،بزنس مین،شیف اور دیگر معروف شخصیات اور کاروباری حضرات کیلئے انکے کام کی تشہیر یا لوگوں سے رابطے کا ذریعہ ہے وہیں دوسری جانب اسکا منفی استعمال ہماری نسلیں تباہ کررہا  ہے ۔
فن سے تعلق رکھنے والوں یا پھر طوائفوں کی جگہ جب کسی گھر کی تقریب یا شادی میں کوئی لڑکی ڈانس کا کہتی تھی تو سو باتیں سوچی جاتی تھیں کہ ڈانس نازیبا  نہ  ہو یا باپ بھائی سامنے نہ ہو مگر آج ہر لڑکی ٹک ٹاک پر ناچتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے وہ مرد جو کوٹھے کی طوائفوں کو بُرا کہتے دکھائی دیتے ہیں کیا ان کو ٹک ٹاک پر ناچتی اپنے ہی گھر کی عورتیں اچھی لگتی ہیں ۔  جو محرم اور نا محرم کا فرق بھلا کر ہر مرد کے ٹک ٹاک سے جڑ کر اپنی ویڈیو اپلوڈ کرتی ہیں ۔

معاشرے میں   بڑھتی  اس بے حیائی پر ہم سب کو مل کر آواز اٹھانی ہو گی ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم خود دعا کرینگے کہ کاش اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ ہماری دنیا سے کہیں دور چلا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply