سانپ اور سیڑھی کا انسانی کھیل/ظفر اقبال وٹو

لڈو میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل تو آپ نے ضرور کھیلا ہو گا- یہ میرے بچپن کے پسندیدہ ٹائم پاس میں سے تھا اور ہماری گرمیوں کی آدھی چھٹیاں اس کھیل میں گزرتیں ،حسن اتفاق سے گزشتہ دس پندرہ برس سے میرے کام کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ میں اپنے سامنے سانپ اور سیڑھی کا انسانی کھیل روز دیکھتا ہوں۔

‎دفتری  امور کی انجام دہی کے دوران زیادہ تر ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا جو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی سیڑھی کی تلاش میں ہوتے ہیں جو انہیں 28 سے سیدھا 77 تک پہنچا دے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو محنت نہیں کرنا چاہتے- جو ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش میں ہوتے ہیں- انہیں زندگی میں ہر قدم پر گڈ لک کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ بے فیض لوگ ہوتے ہیں جو اپنی صلاحیتیں استعمال نہیں کرنا چاہتے یہ دوسروں کی سیڑھیاں بھی یہ خود چڑھنا چاہتے ہیں-ان کا خیال ہوتا ہے کہ زندگی کے ہر بہتر موقعے پر صرف ان کا حق ہے، یہ دوسروں کو سکھانا نہیں چاہتے ان کے لئے سیڑھی نہیں بننا چاہتے۔

‎ایک دوسری قسم کے لوگ بھی بہت   ملتے ہیں جو سانپ کے ڈسنے کے خوف سے زندگی کی لڈو کی بازی کھیلنا ہی نہیں چاہتے – انہیں ہر مشکل 99 والا سانپ نظر آتی ہے جو انہیں سیدھا 5 پر لے جائے گی۔ یہ اپنے آپ سے سے خوف زدہ لوگ ہوتے ہیں ۔انہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ہوتا یہ ہر وقت بہت سے غیر موجود خطروں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو انہیں کوئی بھی بڑا کام کرنے سے روک سکیں،آگے بڑھنے سے بچا سکیں – یہ خود ہی اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے لوگ ہوتے ہیں جس کا ذمہ دار یہ اپنے  علاوہ  باقی ساری دنیا کو سمجھتے ہیں ۔یہ اپنا بہترین روپ بننے کی بجائے اوسط رہنا چاہتے ہیں۔یہ باقی لوگوں کو بھی شور مچا کر زندگی کی بازی کھل کر کھیلنے سے روکتے رہتے ہیں کہ نجانے کس موڑ پر سانپ بیٹھا ہو۔ میں انہیں دولے شاہ کے چوہے کہتا ہوں۔یہ “صم”بکم”عمی”۰۰لوگ ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اس دنیا کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانا ہوتا ہے ۔

‎سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل کا اصل مزہ وہ لوگ لے رہے ہوتے ہیں جنہوں نے طے کیا ہوتا ہے کہ انہوں نے ہر حال میں 100 کے خانے تک پہنچنا ہے راستے میں کوئی چھوٹی بڑی سیڑھی مل جائے ۔کوئی شفیق ہستی مہربان بن جائے ، کوئی ہاتھ پکڑنے والا مل جائے ، کوئی گڈ لک مل جائے تو یہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ ان میں اور عاجزی آجاتی ہے۔اپنے رب کی عنایت کے تشکر میں تھوڑے اور شکر گزار ہو جاتے ہیں – تھوڑے اور جھک جاتے ہیں ۔ ذمہ داری کا احساس خود ہی بڑھا لیتے ہیں۔ بڑا ہونے کے خوف سے تھوڑے اور چھوٹے ہو جاتے ہیں- اپنی کوشش تھوڑی اور بڑھا دیتے ہیں،دوسروں کے لئے سیڑھی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔

‎یہ وہ چیمپئن ہوتے ہیں جن کو اگر کوئی سانپ ڈس لے 99 سے 5 پر پہنچا دے تو یہ پھر بھی ہمت نہیں ہارتے۔ یہ پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یہ رب کا شکر ادا کرتے ہیں کہ 5 پر آئے ہیں 0 پر نہیں۔ یہ اور مضبوط ہو جاتے ہیں ۔یہ کہتے ہیں کہ 99 تک کا سفر تو میرا پہلے ہی دیکھا ہوا ہے، یہ پھر سے شروع ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے 100 تک پہنچنا ہوتا ہے – یہ کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔یہ کہتے ہیں کوئی سانپ 99والے سے بڑا تو نہیں ہو سکتا- یہ ایک ایک کرکے پھر 100تک پہنچ جاتے ہیں کیونکہ اصل مزہ تو تو جیتنے میں ہی ہے ناں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ضرور جیتتے ہیں۔ یہ جیت کر پھر سے جیتنے کیلئے دوبارہ کھیلنا شروع ہو جاتے ہیں بغیر کسی سیڑھی کا انتظار کئے- بنا کسی سانپ کے خوف کے – انہیں سمجھ آجاتی ہے بڑی بڑی سیڑھی بھی انہیں 72 تک پہنچا سکتی ہے، 100 تک انہیں خود پہنچنا ہے اور لمبے سے لمبا سانپ بھی انہیں 0 تک نہیں لے جاسکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

‎ ایسے لوگ ہی زندگی میں اصل چیمپئن بنتے ہیں انہیں اپنے زور بازو پر بھروسہ ہوتا ہے -انہیں اپنے رب کا وعدہ یاد ہوتا ہے ۔۔کسی کی محنت کبھی ضائع نہیں جاتی۔۔ یہ اپنے رب سے 1 کے بدلے میں 10 لینے والے لوگ ہوتے ہیں۔یہ اپنی صلاحیت سے 10 لے کر بھی 100 لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں۔100 کا ہزار بنانے کے لئے۔ یہ “انعمت علیھم “لوگ ہوتے ہیں جن سے ہر کسی کو فیض ہی ملتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply