مجھے یاد ہے(قسط نمبر 11)۔۔۔۔حامد یزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
(11 قسط)

گھر کے ہلکے زرد رنگ کے دروازے پر لٹکی ’’کُنڈی‘‘ کے کھٹکنے کی آواز سنتے ہی امّی جان دُھلے کپڑوں کو تہہ لگاتے ہوئے ماجد کی جانب دیکھتی ہیں۔۔ وہ بھاگتا ہوا دروازے پر جاتا ہے۔ دروازہ کھولتا ہے۔ دہلیز پر خاکی وردی پہنے ڈاکیا کھڑا مسکرارہا ہے۔

یہ لیں چھوٹے یزدانی صاب۔ انڈیا سے ہے آیا ہے لفافہ بڑے یزدانی صاب کے لیے۔ایک تم ہی رہ گئے ہو جس کے نام” ابھی تک کوئی خط نہیں آتا ورنہ یزدانی صاب کے ساتھ ساتھ خالد، ساجد، حامد سبھی کے لیے رسالوں کے پیکٹ، خط، پوسٹ کارڈ ، منی آرڈر آتے رہتے ہیں۔ پورے مزنگ کی ڈاک ایک طرف اور اِس  ایک گھر کی ڈاک ایک طرف۔ کئی خطوں پر تو پورا پتہ درج کرنے کی بھی لوگ ضرورت محسوس نہیں کرتے۔بس یزدانی نام کے نیچے مزنگ، لاہور لکھ دیا۔ پتہ ہے انھیں کہ یہاں کا ڈاکیا باقی کام خود ہی کرلے گا۔‘‘ وہ بائیں کندھے سے جھولتے خاکی ہی رنگ کے تھیلے میں سے کچھ لفافے اور پوسٹ کارڈ نکال کر ماجد کو تھماتے ہوئے کہتا ہے۔

’’جاو، اسے ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس دو۔ بے چارہ کیسے گرمی میں گلیوں گلیوں گھوم رہا ہوگا صبح سے۔‘‘ امی جان راشد سے کہتی ہیں۔

’’اسے پیاس لگی ہوتی تو ضرور مانگ لیتا پانی۔‘‘ میں چارپائی میں دھنسے ہوئے اپنی کاپی میں کچھ لکھتے ہوئے کہتا ہوں۔

’’ نہیں، بیٹا۔ دروازے پر آئے کو یوں بھی کچھ کھلائے پلائے بغیر نہیں جانے دینا چاہیئے اور پانی پلانا تو بہت بڑی نیکی ہے۔ بہت ثواب ملتا ہے اس سے۔‘‘ امی جان دھیمی آواز میں سمجھاتے ہوئے کہتی ہیں اور لکڑی کی چوکڑی پر دھرے مٹی کے گھڑے سے ’’ٹُھوٹھی‘‘ اٹھاتے ہوئے پانی سٹیل کے گلاس میں انڈینے لگتی ہیں۔

راشد پانی کا گلاس لے کر دروازے پر کھڑے ڈاکیے کو پیش کرتا ہے۔

’’ ارے، اس کی کیا ضرورت تھی بھلا۔ خیر، اب لے آئے ہو تو پی لیتا ہوں۔‘‘ ڈاکیا غٹا غٹ پانی پی جاتا ہے۔

’’ بہت شکریہ۔ آج گرمی بھی کافی ہے۔ اچھا لگا ٹھنڈا پانی۔یزدانی صاب کے گھر سے پانی پئے بغیر کبھی گیا بھی تو نہیں۔‘‘ ڈاکیا گلاس راشد کو لوٹاتے ہوئے کہتا ہے اور باآوازِ بلند سلام کرکے گلی سے باہر جانے کو مُڑ جاتا ہے۔

٭٭٭

’’لاؤ، اِدھر دکھاؤ کیا کچھ آیا ہے ڈاک  میں؟‘‘ میں ماجد سے کہتا ہوں۔

’’ یہ تو پاپا کے لیے ہے۔ ڈاکیے نے خود مجھے بتایا۔ یہ پیکٹ ان کا ہے باقی دیکھ لو کس کس کے لیے ہے۔‘‘ وہ خطوط کے لفافے اور پوسٹ کارڈ میرے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔

’’وہ پیکٹ بھی دکھاؤ۔ کوئی رسالہ لگتا ہے۔لاؤ ذرا کھول کر دیکھوں تو۔‘‘ میں اپنے اشتیاق پر قابو نہیں رکھ پاتا۔’’ہاں، ہاں دے دو۔دیکھ لینے دو۔ کون سا اُن کا ذاتی خط ہوتا ہے۔ سب ادبی ہی ہوتے ہیں اور یہ بھی تواب شعر و شاعری اور مشاعروں کے چکر میں پڑ گیا ہے۔ اللہ ہی خیر کرے اس کے مستقبل کی۔‘‘ امی جان  ’’جعلی سی‘‘ تفتیش کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ماجد وہ پیکٹ بھی مجھے دے دیتا ہے۔ میں پیکٹ کھولتا ہوں۔ اندر دہلی سے ادبی رسالہ’’ بیسیویں صدی‘‘ کا شمارہ برآمد ہوتا ہے۔

چورنگے باتصویر سرورق کے اندر مدیرِ اعلیٰ  کانام  درج ہے: خوشتر گرامی اور مدیر کا نام ہے رحمان نیّر۔ ورق پلٹتا ہوں تو سامنے تین تصویری خاکے چہکتے دکھائی دیتے ہیں۔ دو چھوٹے سائز کے اور ایک بڑے سائز کا۔ بڑے سائزکے خاکے میں خوشتر گرامی اپنے دوست یزدانی جالندھری سے بغل گیر دکھائے گئے ہیں اور نیچے یہ مصرعہ درج ہے:

آمِلے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک

’’ارے واہ۔ یہ تو پاپا ہیں خوشتر انکل کے ساتھ۔‘‘ خاکہ دیکھتے ہی خوشی سے میرے منہ سے نکلتا ہے۔

’’لاؤ، دکھاوؤتو مجھے۔ ‘‘ امی جان کپڑے چھوڑ کر مجھ سے ’’بیسویں صدی‘‘ لے کر دیکھنے لگتی ہیں۔

’’اور واہ۔ یہ تو وہی ہیں مگر خاکہ  پرانی فوٹو سے گیا ہے اس لیے ذرا سے مختلف دکھائی دیتے ہیں اِس میں۔‘‘ امی جان کہتی ہیں۔

’’اچھا لائیے مجھے دیکھنے تو دیجیے باقی رسالہ‘‘ میں مطالبہ کرتا ہوں۔

’’ ہاں، ہاں۔ دے دیجیے اسے۔ اس نے دیکھنا ہوگا کہ اس کی کوئی غزل وزل تو نہیں چھپی اس میں۔ کیا آپ کو پتہ ہے امّی؟ یہ پاپا کے خط میں اپنی شاعری ڈال کر بھیجنے لگا ہے۔‘‘ ماجد امی جان کے کے سامنے میرا پول کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔

’’وہ تو میں پاپا کو بتا کر بھیجتا ہوں۔‘‘ میں وضاحت کرتا ہوں۔

’’اچھا تو تم ایسا کرنا کہ شاعری سے دور رہنا اور پڑھائی پر پوری توجہ دینا۔یہ شاعر لوگ بس ہوائی باتیں کرتے ہیں۔ عملی زندگی کو کم سمجھتے ہیں۔‘‘ امی جان بظاہر ماجد سے مخاطب ہیں مگر شاید سمجھا مجھے رہی ہیں۔

٭٭٭

میں والد صاحب کے ساتھ گوجرانوالہ  پہنچا ہوں۔ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی بس میں سفر کر کے۔راز کاشمیری صاحب بس کے اڈے پر موجود ہیں۔ وہ ہمیں لے کر ایک بارونق بازار میں واقع پلاسٹک کی مصنوعات کی ایک دکان پر آتے ہیں اور بتاتے ہیں یہ  ان کے برخواردار کی دکان ہے اور گھر دُور ہونے کے باعث انھوں نے ہمیں قریب واقع اس دکان پر لانے کا فیصلہ کیا۔ دکان کے اوپر انھوں نے ایک پر آسائش کمرہ بنا رکھا ہے۔ وہ ہمیں اوپر کمرے میں لے جاتے ہیں اور والد صاحب کو  مشاعرہ گاہ جانے سے پہلے آرام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

والد صاحب پلنگ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھے ہیں۔ راز صاحب زمیں پر بیٹھ کر ان کی ٹانگیں دبانے لگتے ہیں۔ والد صاحب بڑی محبت سے انھیں منع کرتے ہیں۔ میں راز صاحب سےکہتا ہوں کہ وہ ہٹ جائیں  اور مجھے اس خدمت کا موقع دیں۔ راز صاحب فرماتے ہیں:

تمھیں اپنے استاد کی خدمت کا موقع ملے تو کیا تم ہاتھ سے جانے دو گے؟ ظاہر ہے ، نہیں۔تو میں خدمت کا یہ موقع کیوں گنواؤں؟‘‘

لیکن والد صاحب ہم دونوں کو شکریہ کے ساتھ منع کردیتے ہیں۔

٭٭٭

مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب کراچی سے والد صاحب کے استاد، انجمنِ ترقیِ اردو سندھ کے روح و رواں مولانا افسر صدیقی امروہوی صاحب لاہور تشریف لائے تھے اور ہمارے ہاں ہی ٹھہرے تھے۔ والد صاحب کی خدمت گزاری کا یہ عالم تھا کہ فی الواقع پاؤں زمین پر نہ رکھنے دیتے تھے۔ صبح ناشتہ کے بعد انھیں احباب سے ملوانے لے جاتے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد کسی محفل میں شرکت کے لیے ان کے ہمراہ جاتے اور رات ان کے سو جانے تک ان کی خدمت میں رہتے۔ میں نے ایسا ادب اپنی زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔

٭٭٭

شام کو ہم راسخ عرفانی صاحب کے ہاں مشاعرہ پر پہنچتے ہیں۔ وہاں عارف عبدالمتین، حفیظ صدیقی، میرزا ادیب اور بہت سے دیگر مقامی اور مہمان شعرا ءو ادبا موجود ہیں۔ مشاعرہ سے قبل راسخ صاحب کے نئے شعری مجموعہ کے حوالہ سے مضامین بھی پڑھے جاتے ہیں۔ مشاعرہ رات گئے تک چلتا رہا۔ ہم نصف شب کے بعد لاہور واپس پہنچے ہیں۔

٭٭٭

میں، میرے دودوست اور ہم جماعت محمد شاہد اور تنویر احمد گُلشنِ راوی میں پروفیسر واصف علی واصف صاحب کے نو تعمیر شدہ گھر پہنچے ہیں۔ امتحانات کے قریب ہم ضرور ان کے لاہور انگلش کالج میں داخلہ لے لیا کرتے ۔ تاہم اب انھوں نے نابھہ روڈ پر واقع اپنا کالج بند کردیا ہے۔ سٹوڈنٹس اب ان کے گھر پڑھنے جاتے ہیں۔

کلاس کے بعد واصف صاحب اپنا شعری مجموعہ ’’ شب چراغ‘‘ والدصاحب کے نام لکھ کر مجھے دیتے ہیں اور سلام بھجواتے ہیں۔

ہم تینوں سائیکلوں پر سوار واپس مزنگ لوٹ رہے ہیں۔ گلشنِ راوی میں ابھی زیادہ گھر تعمیر نہیں ہوئے۔ سورج غروب ہوتے ہیں عجب ویرانی سے بستی پر چھاگئی ہے اور ہم تینوں گویا اجاڑ سڑک سے نہیں بلکہ کسی ڈراؤنی کہانی میں سے گزررہے ہیں۔

٭٭٭

بالآخر والد صاحب نے اپنی غزلیات کا مجموعہ شائع کروانے کے فیصلہ کرہی لیا ہے۔ نام ’’ توراتِ دل‘‘ رکھا ہے۔ غزلیات کے انتخاب  میں مجھ سے بھی مشورہ فرماتے ہیں۔ یہ میرا اعزاز ہے اور ان کی مشفقانہ اور پدرانہ محبت۔  منتخب غزلیات کو فُل سکیپ کے اوراق پر خوش خطی سے لکھتے جاتے ہیں۔ اس مجموعہ کا سرورق معروف خطاط ابنِ پروین رقم کے صاحب زادے اقبال پروین رقم صاحب نے بنایا ہے اور اپنے مخصوص دل نشیں خط میں مجموعہ کا نام تحریر کیا ہے۔ سرورق سادہ بھی ہے اور رنگین بھی۔ حرف ’دل‘ میں ایک پھول بھی دکھایا گیا ہے۔ والد صاحب  کا تخلص یعنی ’یزدانی‘ پڑے سائز میں لکھا گیا ہے جبکہ  ’جالندھری‘ باریک خط میں تحریر ہے۔ مجھے یاد ہے اقبال صاحب نے یہ سرورق والد صاحب کو دکھاتے ہوئے کہا تھا اگر سرورق پر صرف ’یزدانی‘ لکھا جائے تو زیادہ خوب صورت لگے مگر والد صاحب  مکمل قلمی نام چاہتے تھے۔منتخب غزلیات کی فوٹو کاپیاں بنا کر ایک الگ سے رجسٹر سا بنا دیا گیا ہے۔ اب دیباچہ اور فلیپس لکھوانے کا مرحلہ طے ہوگا۔

٭٭٭

Advertisements
julia rana solicitors

راجا رشیدمحمود صاحب رضا پبلی کیشنز کے زبیر صاحب کے ساتھ والد صاحب سے ملتے ہیں۔ وہ ان کا نعتیہ مجموعہ ’’توصیف‘‘ شائع کرنا چاہتے ہیں۔ والد صاحب رضامندی کا اظہار کرتے ہیں اور یوں والد صاحب کی بکھری ہوئی نعتوں کی تلاش اور یکجائی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ نعتیں اکٹھا کرکے کاتب کے سپرد کی گئی ہیں۔ اس مجموعہ کا سرورق والد صاحب کے دیرینہ دوست بشیرموجد صاحب نے بنایا ہے۔ سرورق ان سے لینے میں ہی والد صاحب کے ساتھ موجد صاحب کے پرنٹنگ پریس گیا تھا جو رائل پارک میں ماہنامہ’’محفل‘‘ کے دفتر کی پہلی منزل پر واقع ہے۔

سرورق دینے کے بعد موجد صاحب نے ایک رجسٹر بھی والد صاحب کو تھما دیا ہے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ان کے ایک شاعر دوست کے مجموعہ کا مسودہ ہے اور یہ کہ والد صاحب ایک نظر اسے دیکھ لیں۔ والد صاحب کچھ کہتے نہیں ۔ بس مسکرا کر مسودہ ان سے لے لیتے ہیں۔ اور ہم ’’محفل‘‘ کے دفتر جانے کے لیے سیڑھیوں کا  رُخ کرتے ہیں۔

………………………٭٭٭

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مجھے یاد ہے(قسط نمبر 11)۔۔۔۔حامد یزدانی

Leave a Reply