• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط17)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط17)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ضحی مرحہ کی تحفتاً دی ہوئی کتاب میں کھوئی تھی کہ اچانک چونک گئی۔ آمنہ کے کمرے سے مسلسل ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔زرا سا آرام دہ محسوس کیا پر حیرت زدہ ہوئے بنا نہیں رہ سکی۔
“یہ کون آ گیا ہے۔آمنہ تو کبھی اتنا ہنستی نہیں دکھائی دیتی تھی ۔”
وہ بے زار چہرہ لیے اس کے کمرے کی طرف بڑھی ۔ ایک پیاری سی لڑکی بہ تکلف انداز سے اسے دیکھ کر چہرے کے نقوش کو بگڑے زاویے دینے گی۔بے ساختہ ضحی کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔
“ادھر آؤضحی، ان سے ملو۔ یہ میری بہت اچھی دوست ہے حسنہ بھاءبھاء پی ایچ ڈی ڈاکٹر ایگری کلچر کے فارسٹری ڈپارٹمنٹ میں پڑھاتی ہیں۔ زندہ دل، ہنس مکھ اور دوست نواز طبیعت کی حامل، آج سے یہ تمھاری بھی دوست ہے۔امید ہے تم اس کی سنگت میں خود کو بہت اچھا محسوس کرو گی ۔”
آمنہ نے ضحی کا تعارف حسنہ سے کروایا ۔ اور حسنہ نے گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے اسے آنکھ ماری۔ ہو بہو اپنی کاسٹ بھاء بھاء جیسی تھی ملنسار اور ہنس مکھ۔

” لوگ کیسے بے فکری سے ہنستے ہیں ۔؟ ”
ضحی نے حسنہ کو دیکھتے ہوئے سوچا جو بات بات پر چہرے کے مختلف زاویے اور مزاح سے بھرپور گفتگو سے محفل کو خوشگوار بنا رہی تھی ۔
اسے یاد آیا ایک سئکالوجسٹ نے اسے کہا تھا کہ خوش مزاج لوگوں سے تعلق بناؤ، زندگی سے بھرپور افراد کی صحبت اختیار کرو۔حسنہ اسے ایسے ہی لگی ۔بہت طویل عرصے کے بعد کے اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑی ۔جس کے طفیل اسے زندگی کی خوبصورتی کا احساس ہوا اس کے لیے دل سے دعا نکلی
“یا اللہ حسنہ بھاءبھاء کو ہمیشہ ایسے ہی مسکراتا رکھے ۔”
ایک لذیذ، خوشبو دار اور ذائقہ سے بھرپور ہانڈی اسی وقت تیار ہوتی ہے۔ جب اس میں متناسب اور بہترین اجزائے ترکیبی کا استعمال ہو ۔ اچھی زندگی کے لیے بھی ایسی ہی اجزائے ترکیبی کی ضرورت ہوتی ہے ۔اچھے ہنس مکھ دوستوں کی محفل زندگی کی بہت سی الجھنوں کو حل کرنے کے ساتھ ہماری روح کو ترو تازہ کر دیتی ہے ۔ہر وقت ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا کر سنجیدہ رہنے والا انسان جلد ہی زندگی کی بازی ہار جاتا ہے لیکن اگر وہ ایسے دوستوں کے ساتھ رہے جو مسئلہ کے طوفان کو پھونکوں سے تھما دینے والے ہوں تو ذہن ہر بوجھ سے آزاد ہوجاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ضحی کو حسنہ سے مل کر اس بات کا احساس ہوا کہ اسے بھی زندگی کو پر لطف ، مزاح سے بھرپور، بلند قہقہوں کے ساتھ جینا چاہیے ۔
“لمحہ موجود میں جینا ہی زندگی کا لطف ہے”
ضحی کے کانوں میں بازگشت ہوئی جو لاشعور نے کہیں محفوظ کر رکھی تھی ۔ مجھے اب ایسے ہی جینا ہے ۔اپنی ذات کو وقت دینے کا خیال ہی اب اسے زندگی کی طرف لا رہا تھا ۔
“جو انسان خود کو ایک گھنٹہ اور اپنی فیملی کو دو گھنٹے نہیں دیتا، یہ سمجھ لو وہ بیکار زندگی گزار رہا ہے ۔”
اور اور آواز لاشعور کے پردے چیرتے ہوئی شعور کی دیوار سے ٹکرائی ۔
“اب میں اپنے معاملات خود طے کروں گی۔تاکہ اپنی الجھی خوف زدہ منفی سوچوں کو بہترین سوچوں سے بدل دوں . اب مجھے سب کام چھوڑ کر اپنی ذات کی آگاہی کاسفر کرنا چاہیے ۔”
ضحی نے اپنے اوقات طے کیے۔ ایک وقت کا چارٹ بنایا۔صبح کس وقت بیدار ہونا ہے، کتنی دیر واک اور ایکسرسائز کرنی ہے ۔گھر کے تمام کام اپنے ذمہ لینے ہیں۔ ذہنی صلاحیتوں کو بہتر کرنے کے لیے تخلیقی سرگرمیوں کو سوچنا شروع کیا ۔ باہمت لوگوں کی داستانیں اب اس کے مطالعے میں رہتیں۔اس نے اپنے گولز بنا لیے تھے جن کے لیے وہ روز کے ٹارگٹ طے کرتی اور پھر ان کو مکمل کرنے کی کوشش کرتی ۔ کبھی کبھی منفی سوچیں اسے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے سے روکنے لگ جاتی ۔
“آمنہ!!!! ایک بات پوچھو؟”
صحن میں بیٹھے صبح کے نکلے پرندوں کی واپسی سے ہوتے ہوئے شور کے درمیان ضحی نے سوال کیا ۔
“جی میری جان ضرور ۔ کبھی بھی الجھنوں، اندیشوں اور الجھتی سوچوں کو بے مہار نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ کسی سے ان باتوں کا کتھارسس لازمی کرنا انسان کے لیے زندگی کی راہیں کھولتا ہے ۔”
وہ ہمیشہ سے اس کو حوصلہ دیتی ۔
“مجھے کبھی کبھی بیٹھے بیٹھے ایسے لگتا ہے، میں ابھی گروں گئی اور ختم ہو جاؤں گی، کبھی فون کی بیل سے چونک جاتی ہوں۔ کسی کے مرنے کی اطلاع تو نہیں آ گئی۔ کبھی ہجوم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہاں فوتگی ہو چکی ہے۔سفر کے خیال سے ہی حادثے اور پھر اسے گہرائی سےسوچنے سے موت محسوس ہوتی ہے ۔راستوں پر نکلوں تو ابھری زمینیں مجھے قبریں لگتی ہیں ۔۔۔کبھی کبھی میرا سر پھٹنے کے قریب ہو جاتا ہے ۔کب ختم ہو گا یہ سب آمنہ ۔ ڈاکٹر تو کہتے ہیں ساری زندگی چلے گا اور تم زندگی کی دوڑ میں بس ایک ناکارہ پرزہ ہو ۔”
چہرے پر اپنائیت بھری مسکراہٹ طاری کرکے آمنہ نے ضحی کی سمت اپنا رخ کیا اور گویا ہوئی ۔
” دیکھو میری جان ایک سادہ سا اصول ہے آپ کی سوچوں کا محور جو چیز ہو گی تو آپ کا ذہن اس رخ کے تمام پہلوؤں کو سامنے لائے گا ۔آپ تعمیری، تخلیقی ذہنیت کی حامل ہیں تو دماغ ایک ہی چیز کو مختلف انداز سے پیش کرنے کے طریقے بتاتا ہے، جیسے مٹی ہے لیکن اسی مٹی سے بہت سے برتن َعمارات کے ڈئزاین تیار ہوتے ہیں، ایسی بہت سی مثالیں ہیں ۔ اللہ نے ذہن کے اندر دو خانے رکھے ہیں۔ شعور اور تحت شعور رکھا ہے ۔ تحت شعور زندگی میں پیش آنے والے بہت سے خوشی اور غمی کے واقعات، بظاہر جنہیں ہم بھول چکے ہوتے ہیں ۔کسی نا کسی موڑ پر سامنے لے آتا ہے ۔ اب جس بات کا تم ذکر کر رہی ہو، اس کیفیت کا نام ڈیتھ فوبیا ہے اور جب آپ موت کا سوچتے ہیں تو تمام سوچیں اسی کے گرد گھومتی ہیں ۔ مثلاً آپ جب کھانا کھاتے ہیں تو آپ کو یاد آئے گا کہ کھانا فلاں مرنے والے فرد نے آخری وقت کھایا تھا ۔ جب آپ سفر کرتے ہیں تو اس وقت یہی یاد آئے گا کہ فلاں شخص کا حادثہ میں انتقال ہو جائے گا۔ جتنے بھی امور زندگی ہیں اس کو کرتے وقت ساری سوچیں اسی کے گرد گھومتی ہیں جس سے انسان پینک اٹیک کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اب اپنی سوچوں کے مرکز کو بدلنے کی کوشش کرو۔ جیسے زندگی میں بہتری کے لیے صحت مند مشاغل کے اختیار کرنے سے تم میں بہت سی تبدیلیاں آ رہی ہیں ۔۔ ویسی ہی ذہن میں تخلیقی سوچوں کی مصروفیات کو انتہا پر لے آؤ ۔”
دروازے پر دستک کے ساتھ ان کی گفتگو کا تسلسل بھی رک گیا ۔
” کون آیا ہے اس وقت”
جاری ہے ۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply