سیاسی ذکاوت: فقرہ بازی سے دشنام تک/عابد میر

جمہوری سیاست کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں اختلافِ رائے کے معنی دشمنی، غداری اور نتیجہ قتل نہیں ہوتا (استثنیٰ ہر جگہ موجود ہے)۔ حتیٰ کہ اختلافِ رائے کے لیے بھی تہذیب کا دامن تھامے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کوئی اس حد کو پار کرے تو اسے “غیرپارلیمانی الفاظ” کے استعمال اور سیاسی تہذیب سے نابلوغت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ البتہ سیاسی اختلاف کے لیے مہذب انداز میں “چھیڑخانی” چلتی رہتی ہے، مگر اس ضمن میں فقرہ بازی کے لیے حسِ مزاح کے ساتھ گہری بصیرت و ذکاوت بھی درکار ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو تو فقرہ بازی، دشنام کا روپ دھار لیتی ہے اور بدمزگی کا سبب بن سکتی ہے۔

بلوچستان میں ماضی میں عطااللہ مینگل سیاسی طنز اور پُرمزاح فقروں کے حوالے سے معروف رہے ہیں، جس میں ذکاوت کے ساتھ فریقِ مخالف کو زچ کرنے کے اسباب بھی ہوا کرتے تھے۔ ماضی قریب میں جے یو آئی ہی کے حافظ حسین احمد ذومعنی سیاسی فقرہ بازی کے ماہر رہے ہیں۔ عطااللہ مینگل کی سیاسی وراثت سمیت ان کی فہم و ذکاوت کے تسلسل کو ان کے فرزند اختر مینگل خوش اسلوبی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ مقتدرہ سمیت سیاسی مخالفین کے لیے ان کے طنزیہ و ذکاوت بھرے فقرے اکثر شہہ سرخیوں کی زینت رہے ہیں۔

حال ہی میں این اے 260 پر ہونے والے انتخابات میں ان کے مدمقابل جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کی این پی کی جانب سے حمایت سے متعلق ان کے اور این پی کے مابین دشنام کا سلسہ جاری رہا، جو جمعیت امیدوار کی کامیابی کے بعد مزید تیزی اختیار کر گیا ہے۔ اختر مینگل اور ان کی جماعت کو یقین ہے کہ ان کی شکست میں این پی کا مرکزی کردار ہے۔ اس لیے وہ ان پہ کھلے زبانی وار کر رہے ہیں۔ این پی کی جانب سے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی ایک کٹر مذہبی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کو لے کر بلوچستان بھر سے انہیں ویسے ہی طنز و تشنیع کا سامنا رہا۔

اسی پس منظر میں اختر مینگل نے چند روز قبل اپنی ایک پریس کانفرنس میں اس بابت حسبِ روایت اپنی فہم و ذکاوت کا استعمال کرتے ہوئے ایک فی البدیہہ فقرہ کہہ دیا، جس نے ایک بار پھر اخبارات کی شہہ سرخی کی جگہ لے لی تو وہیں سوشل میڈیا پہ بھی خوب گردش میں رہا۔ ان کا فقرہ تھا کہ، “مولویوں نے مالک و حاصل کر قرآن اور نماز پڑھنا سکھا دیا۔”
واضح رہے کہ نیشنل پارٹی اپنے متعلق ایک سیکولر، ترقی پسند، روشن خیال اور قوم دوست پارٹی کا تاثر رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ جملہ سیاسی طنز اور ذکاوت سے بھرا ہوا تھا۔ جوابِ آں غزل کے طور پر اس کا بھرپور جواب جمعیت کے مولانا ترابی نے دیا۔ انہوں نے اگلے ہی روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ، “سردار اختر مینگل خود اقتدار کی خاطر ملاؤں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ میں تہجد بھی پڑھتا ہوں۔”

یہ نہلے پہ دھلے کا وار تھا۔ جس کا جواب بی این پی کے ولی کاکڑ نے ایک تازہ بیان میں اس طنز کے ذریعے دینے کی کوشش کی ہے کہ، “مولانا فضل الرحمان نے حاصل خان کو بھی ایم ایم اے میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔” لیکن جوابی وار میں میاں مدن والی وہ بات نہیں۔ سچ یہ ہے کہ اختر مینگل نے ایک زبردست “چوکا” مارا، تو مولانا ترابی کا جواب بھرپور “چھکا” تھا۔ ولی کاکڑ کے بیان کو اُس باؤلر کی جھنجلاہٹ سے متصور کیا جا سکتا ہے، چھکا کھانے کے بعد جس کی بال پر بی ایل بی ڈبلیو کی اپیل رد ہو جائے اور وہ تلملا کر”امپائر” کو گھورتا اور بڑبڑاتا رہ جائے۔

دوسری جانب این پی ترجمان کا بیان محض روایتی دشنام پہ مبنی ہے، جو ماسوائے نفرت بڑھانے کے اور کچھ نہیں کرتا۔ ولی کاکڑ کے مذکورہ جملے کے سوا ان کا باقی بیان بھی کچھ ایسا ہی تاثر دیتا ہے۔۔۔۔عرض یہ کرنا تھا کہ سیاسی اختلاف کو سیاسی اخلاقیات کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ سیاسی فقرہ بازی کو دشنام نہیں بنانا چاہیے۔ سیاست میں آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے حریف آج کے حلیف بن سکتے ہیں۔ اس لیے سیاسی قیادت اور کارکنوں کو تول کر بولنا چاہیے جو کل ان کی رسوائی کا سامان نہ بنے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دراصل سیاسی فقرہ بازی جس گہری بصیرت و ذکاوت کی متقاضی ہے، نفرتوں کے نعرے میں پل کر جوان ہونے والا ہمارا سیاسی کارکن اُس سے قطعی نابلد ہے۔ حالاں کہ یہ کوئی مشکل راہ نہیں، ذرا سے مطالعہ، مشاہدہ، مکالمہ و مباحثہ سے وہ اس میدان کے شہہ سوار بن سکتے ہیں جہاں مخالف کو محض لفظی گھاؤ سے ہی گھائل کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا کاری زخم دیا جا سکتا ہے، جس پہ وہ تلملائے بھی، بے اختیار مسکرائے بھی۔ نفرت کے نعروں میں گھری ہماری سیاسی کلاس کو اس تربیت کی اشد ضرورت ہے.

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply