• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سفارتخانوں کے ساتھ ساتھ دل بھی کھلنے چاہئیں/ڈاکٹر ندیم عباس

سفارتخانوں کے ساتھ ساتھ دل بھی کھلنے چاہئیں/ڈاکٹر ندیم عباس

آج کا دن ایران سعودیہ تعلقات کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ابھی ابھی ایک ویڈیو دیکھی، جس میں سعودی عرب میں ایران کے سفارتحانے کی افتتاحی تقریب ہو رہی ہے۔ سعودی اور ایرانی سفارتکار باہم ملکر اس خوبصورت تقریب کو یادگار بنا رہے ہیں۔ اس کی لائیو کوریج سے اس تقریب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی دو بڑی مثبت ویڈیوز منظر عام پر آئی تھیں، جب سوڈان سے ایران کے سفارتی عملے کا انخلا عمل میں آیا تو سعودی جنرل طیارے میں جس والہانہ انداز سے ایرانی مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہا ہے اور بچھا جا رہا ہے، یہ جہاں تعجب آور تھا، وہیں خوشکن بھی تھا۔ چند دن پہلے ہم نے ٹی وی سکرینوں پر دیکھا کہ جب ایرانی حجاج کا قافلہ سعودی عرب کی زمین پر اتر کر ائیرپورٹ سے باہر آرہا ہے تو سعودی دف بجا کر شرینی پیش کرکے بڑے خوبصورت اور دلنشین انداز میں حجازی استقبال کر رہے ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس ویڈیو کو بڑے پیمانے پر دیکھا گیا۔ یہ باتیں اس کا عملی اظہار ہیں کہ امت کے افراد باہم مرتبط ہیں اور ایک دوسرے کے لیے فداکارانہ جذبہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ صرف حکومتی اقدام ہوتا تو عوامی سطح پر ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر سعودی عرب میں خوشی کا ماحول نہ ہوتا۔ افتتاح کی اس تقریب کے بعد ایران کے سفیر علی رضا عنایتی نے مشہور ٹی وی چینل العالم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خطے کے ممالک علاقائی سلامتی کے معاملے پر ایک نیا نقطہ نظر اپنائیں، جس کی بنیاد عسکریت پسندی کی بجائے ترقی پر ہو۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے خطے کی ترقی کی بنیاد پر علاقائی سلامتی کو ترجیح دیں۔ سکیورٹی ہتھیاروں، گولہ بارود یا فوجی دستوں کے ذریعے نہیں آتی۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی کئی دہائیوں سے علاقائی ممالک کو اربوں ڈالر مالیت کے جدید ترین ہتھیار خریدنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

سفیر محترم کی یہ بات سنہری حروف میں لکھنی چاہیئے کہ سکیورٹی کا تعلق صرف گولہ بارود سے قرار دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ یہی غلطی دوسرے ممالک کو ہمارے معاملات میں مداخلت کی بنیاد بنتی ہے۔ وہ ہمارے اس نظریہ کے عملی اقدام کے طور پر اپنا اسلحہ بیچنے آجاتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک اپنا اسلحہ بیچنے کے لیے میڈیا سمیت مختلف موثر اداروں اور شخصیات پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں ان ممالک کو اربوں ڈالر کے اسلحہ کے آرڈر مل جاتے ہیں اور ہمارے وسائل ان کے پاس چلے جاتے ہیں۔ سکیورٹی کو اقتصادی، تجارتی، سماجی اور ثقافتی ترقی پر مبنی ہونا چاہیئے، اس طرح خطے میں استحکام آتا ہے۔ جب ہم اقتصادی طو پر مربوط ہوں گے، باہم تجارت سے جڑے ہوں گے اور ثقافت کی مشترکہ بنیادوں پر آگے بڑھیں گے تو خطے کی سکیورٹی پہلے سے زیادہ بہتر ہوگی۔

یورپ ہمیں قوم ، مذہب اور زبان کی بنیاد پر لڑاتا ہے، مگر پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگوں کو مروانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ سکیورٹی جنگوں سے نہیں آتی۔ اسی لیے آج پورے یورپ میں سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، یہ لوگ پہلے سے زیادہ محفوظ ہوچکے ہیں۔ ان کے بارڈر ایک لائن سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کی معیشتیں اور ثقافتیں باہم جڑ چکی ہیں۔ اس ارتباط نے انہیں بہت زیادہ فائدہ دیا ہے اور آج ناصرف انہیں داخلی سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ دنیا کو ڈرا کر اپنا اسلحہ بیچتے ہیں کہ تمہارے مسئلے کا حل یہ ہے۔ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سعودی عرب جیسا ملک جو یورپ اور امریکہ کے لیے سونے کی چڑیا کی حیثیت رکھتا ہو، اسے یوں جانے دیں۔ آج جب سعودی عرب میں ایران کا سفارتخانہ کھل رہا تھا، اسی وقت امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن محمد بن سلمان سے ملاقات کر رہے تھے۔

تقریباً ایک گھنٹہ 40 منٹ تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں تیل کی قیمتوں، سوڈان سے امریکیوں کے انخلا کے لیے سعودی عرب کی حمایت، یمن میں سیاسی مذاکرات کی ضرورت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکانات سمیت مختلف موضوعات پر بات ہوئی۔ ایران سعودیہ تعلقات بحال ہونے پر امریکہ کی طرف سے خوشی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا بلکہ اپنے مشرق وسطیٰ کے گریٹ پلان کی ناکامی کے طور پر دیکھا گیا۔ جس میں مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ بحرین اور عرب امارات سمیت بہت سے ممالک بڑی جلدی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر راضی ہوگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی وقت سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اب کچھ ہی دنوں میں سعودی عرب میں بھی اسرائیلی سفارتخانہ کھل جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا کہ آج اسرائیلی کی بجائے ایرانی سفارتخانہ کھل رہا ہے۔ یہ ٹرمپ کے دور میں شروع کیے گئے ابراہم اکارڈ کی بھی عملی موت کا اعلان ہے کہ اب اس کا مشرق وسطی میں کوئی کردار نہیں ہے۔ اب طاقت کے توازن تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کا اعلان کسی مغربی ملک میں نہیں ہوا بلکہ بیجنگ میں ہوا۔ اب دنیا کی تقدیر کے فیصلے چند مغربی دارالحکومتوں میں ہی طے نہیں کیے جائیں گے بلکہ اور طاقتیں بھی موجود ہیں، جو بڑی تیزی سے مغرب کی بالادستی کو روک رہی ہیں۔ امید یہ ہے کہ جس طرح سفارتخانے کھلے ہیں، ویسے ہی دل بھی کھلے گے اور دونوں ممالک مزید ترقی کریں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply