راول جھیل کا نوحہ۔۔آصف محمود

قائد اعظم یونیورسٹی دارالحکومت کا اہم تعلیمی ادارہ ہے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے اس یونیورسٹی کا سیورریج کہاں جاتا ہے؟ اس یونیورسٹی کے فاضل اساتذہ اور محققین کرام دنیا جہان کے معاملات پر قوم کی رہنمائی فرمائیں گے لیکن یہ نہیں بتائیں گے کہ اس جامعہ کی ساری گندگی وادی کورنگ سے آتی ایک ندی میں شامل ہو کر سیدھی راول جھیل میں جا گرتی ہے۔
ڈپلومیٹک انکلیو اسلام آباد کی اہم ترین اور حساس ترین جگہ ہے ۔ یہاں سفارت خانے قائم ہیں اور دنیا بھر کا غیر ملکی عملہ یہاں رہائش پزیر ہے ۔ آپ کو جان کو حیرت ہو گی کہ جھیل سے دو فرلانگ ”اپ سٹریم“ میں واقع ڈپلومیٹک انکلیو کا سیوریج بھی سیدھا راول جھیل میں آتا ہے۔
بنی گالہ میں جناب عمران خان کا گھر ریگولرائز ہوا ہے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے ان کے گھر سمیت اس ساری بستی کا سیوریج کہاں جاتا ہے؟ پہلے دریائے کورنگ میں اور ایک کلومیٹر کا سفر طے کر سیدھا راول جھیل میں۔
نور پور شاہاں یعنی بری امام کی بستی کافی بڑی بستی ہے ۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں ۔ اس سارے علاقہ کا سیوریج بھی سیدھا راول جھیل میں آتا ہے۔
شادرا اسلام آباد کا ایک خوبصورت تفریحی مقام ہے ۔ اسی گاؤں میں پچھلے جاڑے میں چیتوں نے امام مسجد کی گائے مار دی تھی اور درجنوں بکریاں کھا گئے تھے ۔ گاؤں سے پہلے آبشار سی بنی ہوئی ہے ۔ سیاح جاتے ہیں اور اس پانی میں پڑی چارپائیوں پر بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور انہیں یہ خبر نہیں ہوتی کہ اوپر پہاڑ کی طرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں اور گاؤں میں بنے نصف درجن ہوٹلوں کا یہ سیوریج ہے جسے تازہ چشموں کا پانی سمجھ کر وہ لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ یہ سیوریج بھی راول جھیل میں آ گرتا ہے۔
دریائے کورنگ کے اوپر جھیل کی اپ سٹریم میں بارہ کہو ہے جو اب بستی نہیں رہی ایک پورا شہر بن چکاہے ۔ اس شہر کا سیوریج بھی کورنگ میں شامل ہوتا ہے اور سیدھا راول جھیل میں جا گرتا ہے۔
مری ایک مصروف ترین تفریحی مقام ہے جہاں لاکھوں سیاح آتے ہیں مری کا سارا سیوریج بھی دریائے کورنگ کے ذریعے سیدھا راول جھیل میں آ تا ہے۔
مری سے اسلام آباد تک 43 چھوٹی ندیوں کا پانی دریائے کورنگ میں شامل ہو کر راول گاؤں میں جمع ہوتا ہے ۔ اسے اب راول ڈیم کہا جاتا ہے ۔
زیادہ وقت نہیں گزرا، جھیل کا پانی صاف ہوتا تھا۔ اور کناروں پر بیٹھ کر دیکھنے سے کافی دور تک جھیل کی تہہ نظر آتی تھی ۔ اب پانی بھورا ہو چکا ہے ۔ تین چار فٹ سے آگے حد نگاہ دھندلا جاتی ہے ۔ کنارے کوڑے اور پلاسٹک کے تھیلوں سے بھر چکے۔بعض اوقات تو باقاعدہ تعفن اٹھتا ہے ۔ اس سب کی مگر کسی کو پرواہ نہیں ۔ ہاں کبھی مردہ مچھلیوں کے ڈھیر سامنے آ جائیں تو لوگوں کو حیرت ہوتی ہے یہ مچھلیاں کم بخت مر کیوں گئیں۔
اسی جھیل سے راولپنڈی کو پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔ یہاں انسان کی کوئی قدر ہو اور حکومت کی ترجیحات میں انسان شامل ہوں تو کوئی تحقیق ہو کہ راولپنڈی کے شہری یہ پانی پی پی کر کن کن بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
جب کبھی اس مسئلے پر بات ہوتی ہے تو سی ڈی اے اسلام آباد کے دیہی علاقے پر چڑھ دوڑتا ہے ۔ اپنے گریبان میں نہیں جھانکا جاتا ہے کہ فائیو سٹار ہوٹلوں، قائد اعظم یونیورسٹی اور ڈپلومیٹک انکلیو کا سیوریج ٹریٹ کیے بغیر جھیل میں کیوں پھینکا جا رہا ہے ۔ ڈیم کی اپ سٹریم میں واقع ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے بھی کوئی نہیں پوچھتا کہ انہوں نے اپنے سیوریج کی ٹریٹمنٹ کے لیے پلانٹ کیوں نہیں لگا رکھا ۔
اب بنی گالہ اور بارہ کہو جیسی بستیاں تو ظاہر ہے کہ خالی نہیں کرائی جا سکتیں کہ لوگ یہاں صدیوں سے موروثی زمینوں پر آباد ہیں اور لاکھوں گھر تعمیر ہو چکے ہیں ۔اس طرح تو پھر مری کا سیوریج بھی راول جھیل میں آتا ہے تو کیا مری کو بھی اکھاڑ پھینکا جائے؟اس کا واحد حل یہ ہے کہ جھیل اور اس کے داخلی راستوں پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جائیں لیکن یہ کسی کی ترجیح نہیں۔
مارگلہ کے چشموں اور برسات کے پانی سے اسلام آباد میں 12 ندیاں نکلتی ہیں ۔ بری امام سے آپ چلنا شروع کر دیں اور پہاڑ کے ساتھ ساتھ درہ جنگلاں، درہ کوانی کے ساتھ ساتھ آپ شاہ اللہ دتہ تک چلے جائیں، بارہ بڑی ندیاں راستے میں پڑتی ہیں ۔ مارگلہ کے چشموں سے پھوٹتی ان ندیوں کو اگر مارگلہ کے پہاڑوں میں دیکھیں تو آپ کی روح شانت ہو جائے ۔
ٹریل فائیو پر ایک ندی کافی دور تک پٖگڈنڈی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔ اس کا پانی موتیوں کی طرح چمک رہا ہوتا ہے ۔ انجیر کے چشمے کا پانی لیے جیسے ہی یہ ندی پہاڑ سے اترتی ہے اس میں سیوریج شامل ہو جاتا ہے اور اس میں سے تعفن اٹھنے لگتا ہے۔
مارگلہ کی دہلیز پر پھیلے کسی بھی پوش سیکٹر میں چلے جائیے، لوگوں نے بیسمنٹ کی سیورج کو پمپ کر کے مین لائن میں ڈالنے کی بجائے ساتھ سے بہتی ندیوں میں ڈال رکھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صاف چشموں سے پھوٹتی یہ بارہ ندیاں سیوریج لائن بن کر رہ گئی ہیں ۔رسول بخش رئیس صاحب نے لکھا تھا کہ پولیس فاؤنڈیشن، فضائیہ اور بحریہ جیسے جدید سیکٹرز کا بھی کوئی سیوریج سسٹم نہیں ہے اور ان کا سیوریج بھی ندیوں میں ڈالا جاتا ہے۔
یہ وہ ندیاں ہیں جو اس وادی کا حسن تھیں ۔ مری کے راستے میں، جوڈیشل ٹاؤن میں یہ حسن اپنی اصل شکل میں اب بھی موجود ہے۔ ابھی وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے اسلام آباد شہر کے اندر سے بھی صاف پانی کی رواں ان ندیوں کو دیکھا ہے اور بچپن میں ان میں سے مچھلیاں پکڑی ہیں ۔ میرے گھر کے پاس سے جو ندی بہہ رہی ہے اس میں سے گذشتہ سال بھی میں نے لوگوں کو مچھلیاں پکڑتے دیکھا ہے۔ 1880 کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ وادی کورنگ کی ان ندیوں سے لوگ سونا جمع کیا کرتے تھے۔ اب سونا نہ سہی کم از ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ان کی صفائی کا کوئی بندوبست کر لیں۔
ان چشموں اور ندیوں کو بچا لیجیے۔ آپ کی نسلیں انہیں یاد کر کے روئیں گی۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply