نقاد فلسفی (21)۔۔وہاراامباکر

وہ دوست جنہیں سائنس پسند نہیں، کئی طرح کے ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جن کو پوسٹ ماڈرنسٹ کہا جاتا ہے۔
“سائنس کا نیچرل دنیا سے ناقابلِ ذکر تعلق ہے۔ سائنس سماجی کنسٹرکٹ ہے”۔ یہ ہیری کولنز کی لکھی کتاب “آپ کو سائنس کے بارے میں کیا معلوم ہونا چاہیے” سے ہے۔ اگر ہم اس کو سنجیدہ لیں تو فلکیات میں کاپرنیکس تھیوری کی قبولیت کی وجہ میں زمین کا سورج کے گرد گردش کرنا ناقابلِ ذکر وجہ ہے۔
برونو لاتوغ مشہور فرانسیسی فلسفی ہیں۔ ان کا فزکس میں خاص تجربہ نہیں۔ انہیں آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹویٹی پر تنقید کرنے کی سوجھی۔ اس تھیوری کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وقت ریلیٹو ہے۔ دو الگ فریم آف ریفرنس پر وقت کی رفتار الگ ہو گی اور بہت زیادہ رفتار پر یہ فرق نمایاں ہوتا جائے گا۔ یہ فرق اصل ہے، قانونِ فطرت ہے۔ لاتوغ اس کی وضاحت بذریعہ فلسفہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ اس کو کیسے کرتے ہیں؟ پڑھیں اور سر دھنیں۔
لاتوغ آئن سٹائن کو تھیوری آف ریلیٹیویٹی کے بارے میں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہتے ہیں۔

Einstein is obsessed with transporting information through the transformation without deformation; his passion for the precise superimposition of readings; his panic at the idea that observers sent away might betray, might retain privileges, and send reports that could not be used to expand our knowledge; his desire to discipline the delegated observers and to turn them into dependent pieces of apparatus that do nothing but watch the coincidence of hands and notches.

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اصل الفاظ ہیں۔ اس کا ترجمہ کرنا اس کا مزا خراب کر دیتا۔ لیکن وہ کچھ یہ کہنا چاہ رہے ہیں۔
“آئن اسٹائن کو بغیر کسی نقص یا تبدیلی کے ذریعے انفارمیشن کی ترسیل کا جنون ہے۔ انہیں جنون ہے کہ انفارمیشن جیسے بھیجی گئی ہو، بالکل پریسائز طریقے سے ویسے ہی پڑھی جائے۔ وہ اس خیال سے گھبرا گئے ہیں کہ آبزور جو بھیجے گا، اس میں گڑبڑ کر سکتا ہے۔ اس پر اپنا حق برقرار رکھ سکتا ہے اور ایسی اطلاعات بھیج سکتا ہے جو ہمارے علم کو بڑھانے کے لئے استعمال نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ ان مبصرین کو نظم و ضبط میں لائیں اور انہیں قابلِ اعتبار آلات بنا دیں جو گھڑیوں کی سوئیوں کو دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کرتا ہے”۔
اگر سمجھ نہیں آیا تو کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ اس میں اکیلے نہیں۔ ہم فزکس کے ماہر تو نہیں لیکن اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آئن سٹائن نے اپنی تھیوری کا تعلق اس گھبراہٹ سے نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفے میں فیمینزم اور پوسٹ ماڈرازم کے ملاپ نے کچھ دلچسپ خیالات کو جنم دیا ہے جو لاتوغ کے خیالات کی طرح ہیں۔ لیکن ابھی کیلئے ایک نگینہ سینڈرا ہارڈنگ سے۔ “جدید سائنس میں جنسی استعاروں کا بڑا کردار ہے۔ فطرت کو مونث کہا جاتا ہے۔ مرد خواتین پر غلبہ چاہتے ہیں اور خواتین پر زبردستی کی خواہش رکھتے ہیں۔ فطرت کے راز جاننا ان کے لئے ویسی ہی لذت ہے جیسے ریپ کرنا کیونکہ مرد ہر مونث کو اپنا تابع کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں سائنس اور تھیوریوں کا ازسرِنو جائزہ لینا ہو گا۔ نئی فیمینسٹ سائنسدانوں کا میدان میں آنا نئی دریافتیں کرے گا جو روایتی سائنسدانوں کی سائنس کو جڑ سے اکھاڑ دیں گی”۔
روایتی سائنسدانوں میں مرد بھی ہیں، خواتین بھی (اور فیمینسٹ خواتین بھی)۔ نیوٹن کے (یا میرے) فطرت کے بارے میں تجسس کی جڑ غالباً جنسی معاملات یا زبردستی کی خواہش کی وجہ سے نہیں۔ اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ پوسٹ ماڈرنسٹ فلسفے کی قائل فیمینسٹ خواتین گریویٹی اور آپٹکس کی نئی تھیوری پیش نہیں کریں گی۔ ان کے لئے نئے ٹیلی سکوپ ایجاد نہیں ہوں گے۔ (ظاہر ہے کہ ایسے خیالات کسی معقول فیمینسٹ کے نہیں ہوتے)۔
اگر کوئی کہے کہ سوشل اور تاریخی عوامل، بشمول صنفی کردار کے کسی مسئلے، نے سائنس کے تاریخ کو متاثر کیا ہے تو ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اپنے کسی بھی نظریے کی خاطر سائنس کی ازسرِ نو دریافت کی ضرورت نہیں۔ فیمینسٹ سائنس کے دعوے کسی بھی نظریاتی سائنس کی طرح مہمل الفاظ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوے کی دہائی میں شروع ہونے والی پوسٹ ماڈرنزم فلسفے کی تحریک کی اس قسم کے دعووں کی بے شمار مثالیں ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ سائنس پر ہونے والا پہلا انٹلکچوئل حملہ ہے۔ ایسے دوستوں کے دفاع میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سائنسدانوں کو نذرِ آتش نہیں کیا۔ پال فیرابینڈ سے شروع ہونے والی اس روایت نے سائنس کو تو نہیں، لیکن فلسفے کی شہرت کو بہت مجروح کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس کے نقادوں کا وہ نکتہ جو وہ مسلسل دہراتے رہتے ہیں، وہ یہ کہ سائنس انسانی ایکٹیویٹی ہے۔ انسان آبجیکٹو نہیں تو بھلا سائنس میں آبجیکٹویٹی کیسے ابھر سکتی ہے؟
اگر آپ سائنسدان ہیں تو اس کا آسان جواب یہ دیں گے کہ بطورِ سائنسدان آپ کی تربیت ہی ایسے ہوئی ہے کہ آپ جذبات کو الگ رکھ کر سائنس کر سکتے ہیں۔ یا کم از کم غیرسائنسدانوں سے بہتر کر سکتے ہیں۔ ایسے دعوے نظر آتے ہیں “سائنسدان اپنا ذہن تبدیل کرنے میں تامل نہیں کرتے”۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس دعوے کے پیچھے کچھ ایمپریکل شواہد بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن میری رائے میں یہ توقع رکھنا کہ سائنسدان ایک اوسط فرد سے زیادہ آبجیکٹو ہو گا، ویسا ہی ہے جیسے توقع رکھی جائے کہ ایک مذہبی عالم یا اخلاقیات کا پروفیسر بہترین اخلاق کا حامل ہو گا۔ یعنی کہ ایسا ہو تو سکتا ہے لیکن ایسے دعوے پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کر لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں، سائنس کی ایکٹیویٹی سے معروضیت ابھر سکتی ہے۔
اس مسئلے کو فلسفی ہیلن لونجینو نے “سائنس بطورِ سماجی علم” میں تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کی بڑی
وجہ یہ ہے کہ سائنس سماجی علم ہے۔ “اکیلا سائنسدان” اسے نہیں کرتا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply