جی فار غلیظ اور غلامی

کئی سال قبل کی بات کے کہ میرے والد ایک نو برس کا بچہ گھر لائے کہ یہ یہیں رہے گا اور کام کرے گا۔ میری والدہ نے کہا یہ تو بہت چھوٹا ہے۔ معلوم ہوا کہ والد کے اہلحمد کا بھتیجا ہے۔ گاوں میں خراب ہو رہا تھا، سگریٹ پیتا پکڑا گیا۔ اہلحمد نے والد سے کہا کہ اسکو اپنے پاس رکھ لیجیے تو بگڑنے سے بچ جائے گا۔ خالد پچھلے بیس برس سے ہمارے گھر کا فرد ہے۔ اس نے پڑھنا لکھنا سیکھا، ڈرائیونگ سیکھی، ماشااللّہ اب بال بچے دار ہے۔ میرے لندن آنے کے بعد میری لائبریری میری والدہ نے اسکے کمرے میں ڈلوا دی۔ مجھے بہت خوشی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ رات سونے سے قبل وہ کتاب پڑھ کر سوتا ہے۔ میرے والد نے اسکو اتنی ہی سختی سے رکھا جتنی مجھے، وہ البتہ اچھا نکلا اور سگریٹ نہیں پیتا ہے۔ میرا بھائی اور میں دونوں لندن میں تھے اور والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا، میری والدہ کے لندن آنے تک خالد میری والدہ کا اسی طرح خیال رکھتا رہا جیسے بیٹا ماں کا۔ میری بہنیں اکثر میری والدہ سے شکایت کرتی ہیں کہ انکے لندن ہوتے جب وہ ہمارے گھر جائیں تو خالد کوشش کرتا ہے کہ وہ ہمارے گھر کی چیزیں استعمال نا کریں تاکہ “میری باجی کی چیزیں خراب نا ہوں”۔ میری والدہ اکثر مجھے کہ چکیں کہ میری وصیت سمجھ لو کہ ساری عمر خالد کا خیال کرتے رہنا۔
یہ سب بتانے کا مقصد اپنی تعریف نہیں بلکہ اپنے دلائل کی بنیاد رکھنا تھا۔ چائلڈ لیبر پوری دنیا میں معیوب ہے۔ قانونا پاکستان میں بھی جرم ہے اور واقعی اک ظلم ہے۔ مگر حقائق یہ ہیں کہ پاکستان جیسے معاشرے میں فقط قانون چائلڈ لیبر کا رستہ نہیں روک سکتا۔ غربت اور کثیر اولاد چائلڈ لیبر کی بنیادی وجہ ہے۔ جب تک اسکا علاج نا ہوا، غریب ماں باپ اپنی اولاد کو کام پر لگا کر گھر چلانے پر مجبور رہیں گے۔ چائلڈ لیبر پاکستان میں اب باقاعدہ انڈسٹری ہے جس میں ٹھیکیدار بھی موجود ہیں۔ یہ ٹھیکیدار گھروں میں یہ بچے بچیاں فراہم کرتے ہیں بطور ملازم اور کماتے ہیں۔ اس انڈسٹری سے وابستہ تمام قباحتیں بھی اب موجود ہیں جو رفتہ رفتہ کھلتی جا رہی ہیں۔ ریاست جب تک ماں یا باپ بن کر بچے نہیں پالے گی، وہ اسی طرح “چھوٹا” بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔
جہاں یہ معصوم بچے بچیاں گھروں اور کاروباروں پر ملازمت پر مجبور ہوتے ہیں، وہیں یہ جنسی استحصال اور جسمانی و زبانی ایذا کا بھی سب سے آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ خصوصا گھر میں موجود ملازم کو غلام سمجھا جاتا ہے اور اسکے ساتھ وہ سلوک اختیار کیا جاتا ہے جسکی اجازت نا مذہب دیتا ہے، نا قانون نا اخلاقیات۔ آئے روز کوئی نا کوئی کیس سامنے آتا ہے جس میں کوئی آجر اپنے ملازم کو تشدد یا جنسی استحصال کا نشانہ بناتا ہے۔
اسی سلسلے میں تازہ مثال جی فار غریدہ کی اینکر غریدہ فاروقی کی ہے۔ انکی ایک مبینہ کال بھی سامنے آئی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ایک ملازم کم سن بچی کو حبس بیجا میں رکھے ہوے ہے اور رہائی کیلیے چالیس ہزار مانگ رہی ہے۔ آخری اطلاعات تک بیلف نے بچی برآمد کر لی تھی اور ملزمہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے۔ ہمارے اینکرز، جو خود کو بلند اخلاق کے سنگھاسن پر بٹھا کر سیاستدانوں کے باسٹھ تریسٹھ کا فیصلہ ٹی وی پر کرتے ہیں، جو کوی بھی گھر میں گھس کر نکاح نامے چیک کرتے ہیں، جو ہیومن رائیٹس کے نام پر رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، اسی اینکر برادری سے غریدہ کی یہ حرکت ایک جرم بھی ہے اور شرمناک دھبہ بھی جو صحافت کے چہرے پر لگا۔ دوسروں کے گریبان میں جھانکنے والی غریدہ فاروقی بھول گئی کہ اسکے اپنی بدن سے کسقدر تعفن اٹھ رہا ہے۔ اب لاکھ توجیہ دی جائے گی، تعلقات استعمال کرتے ہوے کیس ختم کرانے کی کوشش ہو گی، اپنے خلاف سازش کا بیان دیا جائے گا یا غریب بچی کے والدین کو پیسے دے کر راضی نامہ کر لیا جائے گا۔ مگر یہ بدنما داغ میڈیا کے چہرے پر قائم رہے گا۔
‏https://www.dailymotion.com/video/x5ums14
ریاست کے موثر اقدامات اٹھانے تک شاید ہمیں خود اقدامات کرنے ہوں گے۔ ملازم بچوں سے بدسلوکی کے کسی بھی واقعہ پر شدید ری ایکشن دیجیے خواہ کرنے والا اپ کا سگا بہن بھائی یا شریک حیات ہی کیوں نا ہو۔ ان بچوں سے پیار کیجیے، انکو تعلیم دینے کی کوشش کیجیے اور اچھا ماحول دیجیے۔ آپ بھلے ان سے کی اچھائی پر اٹھنے والا خرچہ اپنی زکواۃ اور صدقات کی رقم میں ایڈجسٹ کر لیجیے مگر انکو اچھا کھلائیے اور پہنائیے۔ اپنے آس پاس غریدہ جیسی مخلوق پر نظر رکھیے اور فورا پولیس کو الرٹ کیجیے۔
ریاست نے اگر ماں باپ بن کر بچے پالنا نا شروع کئیے، تو جی فار غلیظ مخلوق اس ملک میں جی فار غلامی برقرار رکھے گی۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”جی فار غلیظ اور غلامی

  1. پیارے رانا صاحب، آپ نے بہت ہی اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس کی فوری وجہ بننے والا واقعہ بلاشبہ انتہائی شرمناک ہے؛ اور اس کی شرمناکی کا احساس قانون اور اقوامِ علم کے اجماعی اصولوں سے آگاہ شخص کیلئے شدید تر ہونا عین فطری ہے۔ اس احساس میں ہمیں بھی شریک کرکے خود کا جانچنے کا موقع فراہم کرنے پر بہت شکریہ۔

    بد قسمتی سے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی بعض بنیادی اہمیت کے حامل ایشوز کے بارے میں حساسیت بے حسی کی حد تک کم ہے۔ مذکورہ واقعے نے کمزوروں کے بارے میں ہماری بے حسی جیسی گھٹیا بد نمائی کو ننگا کیا ہے: بچوں اور ملازموں کے ساتھ بد سلوکی سے زیادہ ارذل کوئی اور عمل شاید کسی انسانی اجتماع میں ممکن نہ ہو۔ بچوں کے معاملے میں ہم جتنے غیر حساس ہیں، مہذب دنیا کو اگر اس کی پوری تصویر قصور سکینڈل اور روزمرہ کے واقعات سمیت کوئی دکھا دے تو شاید انسانیت کے مقام سے ہمارا تنزل کرنے کو کوئی متفقہ قرارداد منظور ہو جائے (مجھے اس سے بحث نہیں کہ اور کون کون سی قومیں ہمارے ہمرکاب ہوں گی)۔ ملازموں سے بدسلوکی بھی ہمارے بے حس معاشرے کیلئے ایک نان ایشوہے۔ یہ ایک ایسی خبر ہوتی ہے، جو محض ظالم کی فیس ویلیو کے مطابق توجہ حاصل کر سکتی ہے۔

    پاکستان کی معاشی اور سماجی صورتحال میں بچوں کی مزدوری اور گھریلو ملازموں کی محنت مشقت کا کوئی حل یا معقول متبادل مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتا۔ ایسے میں سخت ضرورت ہے کہ ان معاملات پر انسانی احساس کو جگانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، کیونکہ “حقائق یہ ہیں کہ پاکستان جیسے معاشرے میں فقط قانون چائلڈ لیبر کا رستہ نہیں روک سکتا۔” ہم آپ کی کوشش کے ممنون ہیں۔

  2. پیارے رانا صاحب، آپ نے بہت ہی اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ اس کی فوری وجہ بننے والا واقعہ بلاشبہ انتہائی شرمناک ہے؛ اور اس کی شرمناکی کا احساس قانون اور اقوامِ علم کے اجماعی اصولوں سے آگاہ شخص کیلئے شدید تر ہونا عین فطری ہے۔ اس احساس میں ہمیں بھی شریک کرکے خود کا جانچنے کا موقع فراہم کرنے پر بہت شکریہ۔

    بد قسمتی سے ہر معاشرے کی طرح ہمارے ہاں بھی بعض بنیادی اہمیت کے حامل ایشوز کے بارے میں حساسیت بے حسی کی حد تک کم ہے۔ مذکورہ واقعے نے کمزوروں کے بارے میں ہماری بے حسی جیسی گھٹیا بد نمائی کو ننگا کیا ہے: بچوں اور ملازموں کے ساتھ بد سلوکی سے زیادہ ارذل کوئی اور عمل شاید کسی انسانی اجتماع میں ممکن نہ ہو۔ بچوں کے معاملے میں ہم جتنے غیر حساس ہیں، مہذب دنیا کو اگر اس کی پوری تصویر قصور سکینڈل اور روزمرہ کے واقعات سمیت کوئی دکھا دے تو شاید انسانیت کے مقام سے ہمارا تنزل کرنے کو کوئی متفقہ قرارداد منظور ہو جائے (مجھے اس سے بحث نہیں کہ اور کون کون سی قومیں ہمارے ہمرکاب ہوں گی)۔ ملازموں سے بدسلوکی بھی ہمارے بے حس معاشرے کیلئے ایک نان ایشوہے۔ یہ ایک ایسی خبر ہوتی ہے، جو محض ظالم کی فیس ویلیو کے مطابق توجہ حاصل کر سکتی ہے۔

    پاکستان کی معاشی اور سماجی صورتحال میں بچوں کی مزدوری اور گھریلو ملازموں کی محنت مشقت کا کوئی حل یا معقول متبادل مستقبل قریب میں تو نظر نہیں آتا۔ ایسے میں سخت ضرورت ہے کہ ان معاملات پر انسانی احساس کو جگانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، کیونکہ “حقائق یہ ہیں کہ پاکستان جیسے معاشرے میں فقط قانون چائلڈ لیبر کا رستہ نہیں روک سکتا۔” ہم آپ کی کوشش کے ممنون ہیں۔

Leave a Reply