میانمار کا ہائبرڈ نظام حکومت بھی ناکام ہوا۔۔محمد منیب خان

میانمار میں  2010  سے ہائبرڈ نظام حکومت موجود تھا۔ گو اس کے خد و خال تو پاکستان کے نظام حکومت سے یکسر مخلتف تھے البتہاثرات کم و بیش ایک جیسے ہی تھے۔ پاکستان میں ہائبرڈ نظام حکومت کی کامیابی کی باز گشت چند ماہ قبل سنائی دی جب ایکسنئیر صحافی نے اپنے شو میں جسم کا مکمل زور لگا کر لوگوں کو یہ بات بارآور کروانا چاہی کہ پاکستان میں ہائبرڈ نظام حکومت کےثمرات سامنے آ رہے ہیں اور یہ طرز حکومت کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ مجھ ایسے جمہوریت پسندوں نے اپنے صوفوں میں کُھبے ہوئےناگوار شکلیں بنا کر کروٹیں تو بدلیں لیکن یہ کوئی خاص اچنبھے کی بات نہیں تھی ۔  ببانگ دہل غالباً یہ پہلا اعتراف تھا۔ ورنہ حال تو یہرہا ہے کہ ماضی میں تین بار براہ راست اقتدار پہ قبضہ کر کے،  چھ بار آئین معطل کرکے، اپنے ہاتھ سے غیر جماعتی الیکشن کرواکر اور آئی جے آئی جیسا پلیٹ فارم بنا کر بھی یار لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو بھلا ہوا سنئیر صحافیکا کہ انہوں نے ادھوری آمریت اور ادھوری جمہوریت کے ملغوبے سے بنے نظام کو کوئی نام دیا۔ اور پاکستان کے عوام تک یہ خبرپہنچی کہ دراصل ہمیں گذشتہ ساٹھ سال سے کس نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے۔

بات دراصل میانمار کے ہائبرڈ نظام حکومت سے شروع ہوتی ہوئی میری ذہنی آوارہ گردی کے سبب اپنے ملک کے نظام تک آ پہنچی۔ خیرمیانمار میں2010 سے ہائبرڈ نظام حکومت قائم تھا۔ اور 2015 سے اس نظام حکومت کی باگ دوڑ رسمی طور پہ نوبل انعام یافتہمعروف اور جمہوریت کے لیے طویل جد و جہد کرنے والی سیاستدان آنگ سان سوچی کے ہاتھ میں آئی۔ سوچی کی جدوجہد کا اندازہاس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1989 سے 2010 کے درمیان اکیس سال کے عرصے میں تقریباً پندرہ سال قید و بند میں رہیں۔  فوج کے اقتدار میں عمل دخل کیوجہ سے پہلے انہوں نے 2010کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور پھر 2015 کے انتخابات میں نہ صرفحصہ لیا بلکہ انکی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے حکومت بھی بنائی۔

میانمار کا پارلیمان بھی کیا لاجواب ایوان تھا۔ ایوان میں پچیس فیصد نشستوں پہ براہ راست باوردی لوگ براجمان ہوتے تھے جبکہبقیہ پچھتر فیصد نشستوں پہ کامیاب ہونے والے سویلین لوگ موجود تھے۔ جبکہ کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے ایوان میں پچھتر فیصدسے زائد اکثریت کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس پہ مستزاد شہری حقوق سلب کیے ہوئے تھے، میڈیا کو بندشوں کا سامنا تھا اور کوئیسیاح دارالخلافہ میں بلااجازت تصویر کشی نہیں کر سکتا تھا۔ گویا ایک طویل جمہوری جدوجہد کرنے والی آنگ سان سوچی کو بھی جواقتدار ملا وہ اپنے خد وخال میں نہ مکمل جمہوری تھا اور نہ مکمل آمرانہ۔ چونکہ میانمار نے ایک طویل آمریت کا سامنا کیا تھا لہذاعین ممکن ہے سوچی کو اقتدار کے یہ خدوخال بھی بادل نخواستہ قبول تھے۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ چند روز قبل ایک بار پھرمیانمار کے سجیلے جوان ہائبرڈ نظام حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پہ قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔

میانمار کی فوج کا حالیہ اقدام گذشتہ برس نومبر میں سوچی کی جماعت کا نئے الیکشن جیتنے کے بعد کا رد عمل ہے۔ یعنی آن سانگسوچی کی جماعت مسلسل دوسری بار انتخابات جیت گئی تھی۔ (کسی سیاسی جماعت کا دو بار مسلسل انتخابات جیتنا ہائبرڈ نظامحکومت تک میں نہیں برداشت ہوتا) میانمار میں ہائبرڈ نظام حکومت اپنی ناکامی کا چیخ چیخ کے اعلان کر رہا ہے۔ فوج نے 2010 میںالیکشن کروائے جس میں آن سان سوچی کے بائیکاٹ کیوجہ سے فوج کی حمایتی جماعت کو کامیابی ملی جبکہ اس کے بعد مسلسلدونوں انتخابات آن سان سوچی نے جیتے۔ کسی بھی ایسے ملک جہاں ہائبرڈ نظام حکومت ہو کے مقتدرہ حلقوں کو مکمل جمہوریت کاقیام کسی طور گوارا نہیں ہوتا۔ لہذا ایسے ملکوں میں لولی لنگڑی جمہوریت بھی جب چلنے لگتی ہے تو وہ اس کو نہ صرف اپنیناکامی کے طور پہ دیکھتے ہیں بلکہ جمہوری اقدار کی روایات آمریت کے اقتدار کے راستے کا پتھر محسوس ہونے لگتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہائبرڈ نظام حکومت بظاہر  کتنا ہی دلکش و دلنشیں لگے لیکن یہ کسی ملک کی ترقی کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ اقتدار کےایوانوں میں بیٹھے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں میں کشمکش کو بڑھا دیتا ہے۔ ایسے نظام حکومت سے ملک کی خدمت تو شاید نہہو سکے البتہ بہت سوں کے مفادات کو تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ جس ملک میں ایک گروہ، ایک محکمے یا ایک ادارے کو تحفظ حاصلہو اس ملک میں یقیناً کئی دوسرے گروہ، محکمے اور ادارے ایسے ہوں گے جن کا استحصال ہو رہا ہوگا۔ اور ہائبرڈ نظام حکومت میںسب سے زیادہ استحصال اور بے توقیری پارلیمان کی ہوتی ہے۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply