• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسلم اکثریتی جزائر لکشدیپ بھارتی نشانے پر(2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

مسلم اکثریتی جزائر لکشدیپ بھارتی نشانے پر(2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

صاف و شفاف پانیوں، سفید نرم ریتیلے ساحل اور ناریل کے درختوں سے گھرے یہ جزائر موتی کے دانے لگتے تھے۔ معلوم ہوا کہ باقی دنیا سے رابط کیلئے بس یہ واحد فلائٹ روز لینڈ کرتی ہے اور ہفتے میں ایک بار کوچی سے بحری جہاز مسافروں کو لانے لیجانے اور ساز و سامان کے ساتھ وارد ہوتا ہے۔ 36جزائر میں بس 10میں ہی آبادی ہے۔ پانچ جزائر تو سیاحوں کیلئے بند ہیں ، کیونکہ ان میں بحریہ کے اڈے ہیں۔ ایک غیر آباد جزیرے بانگارام میں غیر ملکی سیاحوں کیلئے ریزورٹس کا انتظام ہے۔ یہ واحد جزیرہ ہے جہان شراب نوشی کی اجازت ہے۔گرم موسم مگر خوشگوار ہوا ماحول کو مسحورکن بنا دیتی ہے۔ بھارت کے ساحلی علاقوں میں یہ واحد جگہ ہے ، جہاں تہہ در تہہ رنگا رنگ مونگے یعنی مرجان کے چٹانوں کے سلسلہ موجود ہیں۔ سمندر کا پانی اتنا شفاف کہ مٹر کا دانہ بھی گر جائے تو تہہ میں نظر آجائیگا۔ جزیرہ پر بڑے ریسٹورنٹ یا ہوٹل موجود تو نہیں ہیں، مگر کوٹیج اور خیموں میں رہنے کے انتظامات ہیں اور مقامی آبادی بھی سیاحوں کیلئے گھروں کے دروازے کھول کر ان کی میزبانی کرتے ہیں۔ بحری جہاز ایم وی ٹیپو سلطان میں بھی رہائش کا انتظام ہے اور وہ دیگر جزائر کی سیر بھی کراتا ہے۔ مقامی آبادی میں بہت زیادہ امارت تو نہیں ہے، مگر غربت بھی نہیں ہے۔ دیگر علاقوں کی طرح ہی سماج میں طبقاتی نظا م ہے، جس میں کویا ، زمیندار یا ناریل کے باغات کے مالکان ہیں، مالمی جہازوں پر ملاح اور کشتی بانی کا کام کرتے ہیں۔ ان 36جزائر کا آپس میں رابط اسی کمیونٹی کی مرہون منت ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ بہترین ملاح ہوتے ہیں اور سمندر کے نبض شناس ہیں۔ ملاچاری کمیونٹی تو بے زمین مزدور ہیں، مگر ناریل کے اونچے پیڑوں سے ناریل توڑ کر لانے میں انکو مہارت حاصل ہے، نیز ان جزائر کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی یعنی ناریل کے ریشوں سے بنائے جانے والی اشیاء ان کے ہی کاریگر ہاتھوں سے تیار ہوتی ہیں۔ مسجدیں بھی خاصی آباد رہتی ہیں، مگر خواتین مردوں کے دوش بدوش کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔بتایا گیا کہ منی کوائے جزیرہ پر ایک کمیونٹی میں خاتون یعنی دلہن ہی بارات لیکر دلہے کے گھر پہنچتی ہے اور مرد کو اپنے گھر لاتی ہے۔ نئے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل جو گجرات میں مودی کے وزارت اعلیٰ کے دوران وزیر داخلہ رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ ان جزائر میں پچھلے کئی دہائیوں سے ترقی نہیں ہوئی ہے۔ اسلئے سیاحوں کو کھنچنے کیلئے سبھی جزائر میں شراب نوشی کی اجازت ہوگی۔ اب ان کو کوئی پوچھے ان کے اپنے صوبہ گجرات اور صوبہ بہار میں شراب نوشی کی کیوں ممانعت ہے؟ ترقی اگر شراب سے ہی ہوتی ہے، تو گجرات اور بہار میں بھی شراب بندی ختم کرنی چاہیے۔ اسکے علاوہ گائے کے گوشت کی خرید و فروخت اور کہیں لانے لے جانے پر پابندی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں، دو سے زائد بچوں کے والدین کے پنچایت الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی، غنڈہ ایکٹ کا نفا ذ اور ترقی کے نام پر کسی کی بھی زمین حاصل کر لینے سے متعلق اعلانات شامل ہیں۔

درج فہرست قبائلی علاقہ کا درجہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک باہر کے لوگ ان جزائر پر زمینوں کی خرید و فرخت نہیں کر سکتے تھے۔ لکشدیپ کے رکن پارلیمان محمد فیصل کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون میں مقامی نمائندوں کوکسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہو گا بلکہ سارے اختیارات صرف ایک شخص کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔ایڈمنسٹریٹر کے فیصلوں کی کوئی مخالفت نہ ہو، اس کے لیے عام لوگوں کو گرفتار کر لینے کے ایک نئے سخت قانون کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے تحت کسی بھی شخص کو اس کے خلاف عدالتی سماعت کے بغیر ایک برس تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

ایسی جگہ جہاں خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جرائم برائے نام ہیں،جیل خالی ہے، وہاں ایسے سخت قانون کی کیا ضرورت ہے؟پڑوس کے صوبہ کیرالہ کی طرح ہی گائے کا گوشت یہاں کی آبادی کی اہم خوراک ہے۔ اگر گائے اتنی ہی مقدس ہے، تو کیرالا، اور شمال مشرقی ریاستوں ، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی خود حکمران ہے، گائے کے گوشت پر پابندی کیوں نہیں لگاتی ہے؟ نئے قانون کی رو سے مقامی مسلمانوں کی زمینیں ہتھیانے اور سرکاری انتظامیہ کو گاؤں بسانے یا دیگر ترقیاتی کاموں کے نام پر یہ اختیار ہوگا کہ، وہ زمین کے اصلی مالکان کو ان کی زمین سے بیدخل کرکے دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں۔اس طرح بیرونی لوگوں کو لکشدیپ میں قابض ہونے اور ان کی بسانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ نباتات اور حیوانات سے مالا مال اور اپنی مخصوص ثقافت اور ورثہ رکھنے والے ان جزائر کو ایک کھوکھلے ترقیاتی ایجنڈے کے تحت زیر کیا جا رہا ہے۔کشمیر ہی طرح ان جزائر کی مسلم اکثریتی شناخت پر وار کرکے اسکو ہندو استھان کے بطور پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور بتایا جاتا ہے کہ ان جزائر کا نام ہندو اساطیری کہانی رامائن کے ہیرو بھگوان رام کے چھوٹے بھائی لکشمن کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جبکہ لکشدیپ لاکھ اور دیپ یعنی جزیرہ کا مخفف ہے۔ کشمیر اور آسام کے بعد اب لکشدیپ میں مسلم آبادی کو ہدف کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ ہندو قوم پرست منظم انداز میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کررہے ہیں، تاکہ راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ کے فاشزم کے فلسفہ کو عملی جامہ پہنا کر بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے ایجنڈے کو تیز کیا جاسکے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply