شکست ایک تحفہ۔۔روبینہ فیصل

“میری وفا ا س وقت تک ہے ، جب تک میری ضرورت ( کسی بھی قسم کی )تم سے بندھی ہے ، ضرورت کے بدلتے ہی میری وفا بھی بدل جائے گی ۔” یہ میں نہیں کہہ رہی یہ ایک ایسا رویہ ہے جو ا نسانوں میں ا س قدر پھیل گیا ہے کہ یو ں لگتا ہے کہ محبت تو دور کی بات ، انسانیت کا ہی جنازہ اٹھ چکا ہے ۔اتنی ڈھٹائی سے لوگ چہرہ بدلتے ہیں کہ میں سوچتی ہوں کہ ایسے رویوں کی ایسی قبولیت کیسے ممکن ہو گئی ہے ؟

مظہر شفیق کی صوبائی الیکشن میں شکست کا سنا تو یقین نہ آیا کیونکہ وہ ایک ایسے امیدوار تھے ،جن کی جیت یقینی تھی ۔ ہماری رائیڈنگ سے میاں عمران کا جیتنا بھی یقینی تھا ۔ لیکن ایک دم لبرل کے خلاف ایسی آندھی چلی کہ پکے پکے جیتے ہو ئے امیدواروں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گئی ۔ حالانکہ ان دو امیدواروں کی تو میں گوا ہ ہوں کہ انہوں نے جتنی محنت کی اس کا بیان ممکن نہیں ۔ مگر ہوا یوں کہ لبرل کا ووٹ ٹوٹ کر این ڈی پی کی جھولی میں جا گرا ، اور ان کے ووٹر کے دو ٹوٹے ہو تے ہی ، کنزرویٹو ، ہڈ پیر ہلائے بغیرجیت گئے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہارنے والے سارے امیدوار نا اہل تھے ۔ جیت کی صورت لوگ پارٹی کو کریڈٹ دیتے ہیں ،تو ڈسکریڈٹ بھی پارٹی کو ہی جانا چاہیے لیکن ہو تا کیا ہے ہم جیسی دل جلی قوم اپنے ہی ہا رے ہوئے امیدوار کی ذات میں کیڑے نکالنے لگ جاتے ہیں ۔۔جیسے کہ وہ بریانی سیاست کر رہا تھا ، یا ہوم ورک نہیں تھا ، یا لو جی بڑا آیا ۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

مظہر شفیق نہ صرف میرے بھائی ہیں بلکہ بہت اچھے دوست بھی ہیں ۔ ان کا ہاتھ کبھی میرے سر سے ہٹا نہیں اور وہ مجھے ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ “کبھی میں زندگی کے  ان دنوں کو سوچتا ہو ں کہ جب میں بالکل بدحال کھڑا ہوں ، یا میں بہت سخت بیمار ہو جاؤں تو سب دوستوں میں سے آپ کا چہرہ  سب سے واضح نظر آتا ہے ۔ “میرے لئے مظہر بھائی یا کسی بھی اپنے دوست کا ایسا اعتماد ، زندگی کی کامیابی اور اللہ کا انعام ہے ۔ اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنی ضرورت کے تحت کسی کے ساتھ چمٹتے اور ہٹتے ہیں ۔

میں یہ باتیں اپنی تعریف میں نہیں بلکہ اس فرق کو واضح کرنے کے لئے لکھ رہی ہوں کہ ہماری ترجیحات کیوں بدلتی جارہی ہیں ۔ ہم ایسے دوست کیوں ڈھونڈتے ہیں یا ایسے لوگوں کے پیچھے پھرنا کیوں پسند کرتے ہیں جو ہمارے کسی کام آسکیں ۔ اور جب وہ ہمارے کسی کام کے نہیں رہتے تو ہم انتہائی سنگدلی سے انہیں زندگیوں سے مائنس کر دیتے ہیں ۔ دنیا کو مکمل طور پر مطلبی ہو نے سے بچا نا ہے تو ہمیں ایسے رویوں پر سوچنا ہوگا ۔ مظہر بھائی جیت جاتے تو میں شاید  انہیں ایک مہینے بعد مبارک کا میسج کرتی ، مگر وہ ہارے تو انہیں مل کے یہ بتانا ضروری لگا کہ : “کہ یہ شکست بھی ایک تحفہ ہو تی ہے ،یہ سیٹ بیکس خدا اپنے پسندیدہ بندوں کو عاجز رکھنے اور جعلی ، لوگوں سے بچانے کے لئے ہی دیتا ہے ۔۔ نیگٹو میں پازیٹیو یہ دیکھیں کہ جیت کی صورت آپ کو ان لوگوں کا کیسے پتہ چلتا جو آپ کی شکست کے بعد ایسے غائب ہو ئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔۔ ”

مظہر بھائی نے اپنا مخصوص با آوازِ بلند قہقہ لگاکر ارد گرد بیٹھے لوگوں کو چونکا یا اور کہا : آپ کو ٹیلی پیتھی آتی ہے ؟”
میں نے کہا : کبھی کبھی ایک تجربہ بھی کافی ہو تا ہے اور میں تو زندگی میں ایسے طوطا چشم درجنوں کے حساب سے بھگتا چکی ہوں ۔ زندگی میں کچھ سبق ایسے ہو تے ہیں جس کو ملتے ہیں اس کے لئے تو ہو تے ہی ہو تے ہیں لیکن اگر دوسروں کے ساتھ شئیر کر لئے جائیں تو حکایتیں بن جاتی ہیں ۔ مظہر بھائی کے الیکشن کا نچوڑ  “میں نے لبرلز کی نامینیشن جیت کر وکٹری تقریر بھی کی ، جس کے سٹیج پر وہ وہ لوگ نظر آئے جنہیں میں جانتا تک نہیں تھا ۔ اور میں نے الیکشن ہار کر ہاری ہو ئی تقریر بھی کی ، جس کا سٹیج تقریباً  اپنے بہت قریبی لوگوں کے علاوہ ، خالی تھا ۔ ہاری ہو ئی اور وکٹری تقریر کے سٹیج نے مجھے زندگی کی اس حقیقت سے روشناس کروایا جو مجھے جیت کی صورت کبھی نصیب نہ ہوتی ”

میں نے کہا، تو بس یہی احساس آپ کی پوری دس ماہ کی ان تھک محنت کا صلہ ہے ۔کامیابی مل جاتی تو آپ اپنی اور لوگوں کی ذات ہی نہ پہچان پاتے ۔ کئی دفعہ خدا اپنے سادہ دل بندوں کو اسی طرح کے الیکڑک شاک دیتا ہے ۔
ہم عام گنہگار بندوں کے غرور کے معصوم سے مختلف لیول ہو تے ہیں،کسی کو اپنی نیکی کا غرور ہو تا ہے ، کسی کو قابلیت کا ، کسی کو خلوص کا ، کسی کو یہ غرور کہ ہم پر خدا کا خاص کر م ہے کہ ہماری زندگی میں کو ئی غلط انسان نہیں آسکتا ، کیونکہ ہم خود غلط نہیں ہیں ۔وغیرہ وغیرہ  اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ ایسے سادہ دلوں کے یہ سب غرور ٹوٹتے ہیں کیونکہ خدا جن کو اپنے قریب رکھتا ہے وہ ان کو ایسے بے ضرر سے غرور بھی نہیں پالنے دیتا ، اور ایک جھٹکے سے واپس زمین پر لے آتا ہے ۔ تو ایسی شکستیں اور پیراسائٹس جیسے لوگوں سے خون چسوانے کے بعد ، انسان بچ جائے تو کیا کہنے اور ایسے اعصاب شکن حالات میں انسان کے پاس دو راستے ہو تے ہیں ایک یہ کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، اپنی روح کی گہرائی میں اتر جائے اور پازیٹیو انرجی کے ساتھ  زیادہ بلندی کی طرف اٹھنے کی کوشش کر ے اور دوسرا راستہ مایوسی اور نیچے اترنے کا ہے جس کی منزل ایک دلدل سے دوسری دلدل ہے ۔تو ایسے آزمائشی لمحات میں انسان کی خود کی تلاش شروع ہو تی ہے اور یہ موقع ہر ایک نصیب میں نہیں ہو تا ۔

میں مظہر بھائی کو اس بات کی مبارک دیتی ہوں کہ اللہ نے انہیں عارضی کامیابی نہیں دی تو کیا ہوا اس کے بدلے ایسا تجربہ دیا ہے،ایسا سبق دیا ہے کہ جو وہ کبھی بھی جیت کر حاصل نہیں کر سکتے تھے ۔ کیونکہ چڑھتے سورج کو سلام کر نے والے 99%لوگ ہیں اور جب تک آپ کی گڈی چڑھی ہو ئی ہے یہ بھی آپ کے اوپر چڑھے ہی رہیں گے اور آپ کو اپنی مر ضی سے اپنے لئے بھی سوچنے نہیں دیں گے ۔ خوش قسمت ہیں مظہر بھائی جنہیں اب اپنے لئے سوچنے کا موقع  ملے گا ۔ جیت جاتے تو میں ان کے لئے کالم نہ لکھتی اب ہا ریں ہیں تو میں انہیں یہ بتا نا چاہتی ہوں کہ یہ ہار اصل میں ایک جیت ہے ۔وہ ایک قابل ، حقدار ، نالج ایبل اور اپ ڈیٹڈ امیدوار تھے ۔ انہوں نے جتنی محنت کی اتنی شاید  کسی اور نے نہ کی ہو ۔ جو بات ان کی ہار کے ساتھ ہوا میں تحلیل ہو گئی ، ورنہ ہر لکھنے والا لکھتا کہ مظہر شفیق وہ واحد امیدوار ہے جس نے اپنی رائیڈننگ کے ایک ایک دروازے پر دستک دی تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ جس بات کا مجھے ایک دوست کی حیثیت سے پتہ ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دفتر کے اندر انواع و اقسام کے لوگوں کو ہینڈل کرنا اور کون نہیں جانتا کہ اپنی پاکستانی کمیونٹی کے دو لوگ بھی کہیں اکھٹے ہو جائیں تو پاور کی جنگ میں ایک دوسرے کے بال نوچنے لگتے ہیں ، اس سب میں مظہر بھائی کا آدھے سے زیادہ سانس تو پھولا ہی رہتا تھا پھر لوگوں کے دوغلے پن کو جانتے بوجھتے ہو ئے نظر انداز کرنا اور ہنسنے کی مشقت جھیلنا ۔۔الیکشن سے پہلے ہی لبرلز کی شکست نظر آگئی تھی ، اس ڈی مورائلزئنگ والے ماحول میں اپنا اور اپنے والنٹئیرز کا مورال بلند رکھنا ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مظہر بھائی !!آپ ایک بہادر انسان ہیں   اور وہ لوگ جو اپنے پاکستانی امیدواروں کے لئے پہلے اندر سے حسد میں بھرے ہو ئے تھے اور ان کی ہار کے بعد بے جا تنقید کر رہے ہیں انہیں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ ایک احساس کی موت نہ ہو نے دیں ، احساس کریں کہ ان امیدواروں نے اپنا وقت ،توانائی ، پیسہ ، اپنی نوکری اور فیملی ٹائم سب اس چولہے میں جھونک رکھا تھا اور سب سے بڑھ کر دماغی مشقت۔۔خدا کے واسطے دوغلے پن اور حسد سے نجات حاصل کر یں ۔ اور ہوا کا رخ دیکھ کر چہرے کا رخ نہ بدل لیا کریں!

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply