عشق زاد/ناصر خان ناصر

اگرچہ میں کچھ بہت زیادہ دل پھینک اور ہرجائی فطرت کا مالک بھی نہیں ہوں، مگر کیا کروں، دل کے ہاتھوں بہت مجبور ہوں کہ تقریباً روزانہ ہی میری محبوباؤں کی شکل بدل جاتی ہے۔۔۔ اور اکثر اوقات ان کی تعداد بھی۔
کبھی مجھے کوئی  موٹی مٹلی، کالی کلوٹی اور بڑی جسامت والی محبوبہ اچھی لگنے لگتی ہے تو کبھی چھریری، نازک اندام، دبلی پتلی کھپاچ، چاہو تو چٹکی میں پکڑ کر مسل ڈالو، چھلا سی کمر میں ہاتھ ڈال کر چوڑی میں پرو لو، لاڈ میں سینے پہ لٹا لو تو پھولوں کی ڈالی سی۔۔۔ وزن کا پتہ بھی نہ چلے ۔
پھر یک لخت نازک انداموں سے دل کھٹا ہو جاتا ہے اور پھر سے بھاری بھرکم پر جان نکلنے لگتی ہے۔

یوں تو ہر رنگت ہر جسامت، ہر ایک شکل و صورت اور نیشنیلٹی کی کئی  کئی  محبوبائیں میرے من کو بھا جاتی ہیں اور اپنے جادو سے سر چڑھ کر آپ بولتی، میرے دل سے اُترتی ہی نہیں ہیں۔ بڑی مشکلوں سے لاکھ پیچھا چھڑوانے کی سعی کرو، مگر کم بخت سلیش کی طرح ہاتھوں سے چپکی پڑتی ہیں۔

مسری کی ڈلی بن کر منہ میں گھلنے لگتی ہیں اور ٹھنڈے پانی سے بھرے گنگا جمنی مراد آبادی کٹورے کی طرح لبا لب بھری ہوئی ۔۔ منہ سے لگا کر غٹاغٹ  جتنا مرضی چاہے پی لو، پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں ہے۔ کوری صراحی اٹھا کر پوری کی پوری منہ سے لگا لو اور خالی کر کے ٹھلیا کی طرح کونے کھدرے میں پٹخ دو، من کی پیاس کا وہی عالم رہے گا۔ ہر پل اسی کونے ٹھونسی صراحی کو منہ سے لگانے کی بےتابی۔۔ پیاس کا کوئی  ٹھکانہ ہے؟

نجانے ان سب کو کون کون سے حیلے بہانے، جادو ٹونے۔۔۔ حشر افروز مکر و فریب اور سحر انگیز بانکی ادائیں آتی ہیں؟
کیسے کیسے چھو منتر زبانی یاد ہیں؟
ابھی کل ہی کلموہیوں کو گلے لگا کر اپنی سدھ بدھ کھوئی  تھی، آج پھر وہی پیاس۔۔۔
میری بیگم کو پہلے پہل بے حد جلن ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ سوتیا ڈاہ موت سے بھی بدتر ہوتا ہے۔
جب وہ نئی نویلی دلہن بنی، سہرے جلوے سمیت سجی سجائی، چاہوں مرادوں سے بیاہی، اپنی جھکی جھکی پلکیں لئے، لاج سے دوہری ہوتی، شرمائی سی ڈولی سے نیچے اتریں اور آتے ہی ان کا واسطہ ان کلموہیوں سے آن پڑا تو ان کا سندر مکھڑا جھٹ پٹ اُتر سا گیا تھا۔

شروع شروع میں تو بیگم نے ان میں سے کسی ایک کو بھی منہ نہ لگایا۔ من ہی من میں شاید ڈنڈے، تکلے، بیلن یا پھکنی سے شامت ماریوں کی خاطر تواضع کرنے، ناشدنیوں کو لوقا لگانے، چونڈہ سلگانے اور چہرہ جھلسانے کی دهمکیاں بھی ضرور دی ہوں تو مجھے کچھ پتہ نہیں۔

وہ سب کی سب ڈهیٹ بنی، مجھ سے لپٹی، چمٹی یوں بیٹھی رہیں جیسے نئی  دلہن بیگم صاحبہ نہیں ہیں بلکہ وہ خود ہیں۔

اب سوچنے پہ یاد آیا کہ ان میں سے ایک آدھ تو سہاگ رات کو پھولوں کے ہاروں سے سجے پلنگ پہ بھی چڑهی بیٹھی رہی تھی۔

میری نئی  نویلی دلہن کو غصہ تو بہت آیا تھا مگر چونکہ دلہنیں بول نہیں سکتیں، لہذا لہو کے دو گھونٹ بھر کر وہ بھی شاید چپ ہو رہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنی دلہن کا گھونگھٹ تو میں نے ہی اٹھایا تھا مگر جب میرا من اک من موہنی، دل میں گھس بیٹھی محبوبہ کا دلنواز مکھڑا دیکھ کر بے تابی سے مچل اٹھا تھا تو میں نے پہلے چوری چھپے اسے ہی چوم ڈالا تھا۔
اب سوچتا ہوں، میں بھی کتنا ظالم ہو گیا تھا!

پھر سوتیا ڈاہ کے رنگ بیگم صاحبہ پر چڑھنا شروع ہو گئے۔ جب اندیشوں کے زہریلے، پھنکارتے، ششکارتے، شعلے اگلتے ناگ روزانہ اپنی اپنی لمبی زبانیں نکالتے، انھیں دن رات ڈسنے لگے تو وہ ان میں سے چند ایک حرام زادیوں کو گھر سے نکال پھینکنے کے جتن کرنے لگیں۔مگر پھر نجانے کیوں وہ بھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے سحر اور شادابی سے مرعوب ہو گئیں۔

ایک دن مجھے دهیرے سے کہنے لگیں:
“یہ تو سب کی سب جادوگرنیاں ہیں، چڑیلیں!
چلو میرا کیا جاتا ہے؟
مرنے دو ان کم بختوں کو بھی۔
انھیں یہاں کسی کونے کھدرے میں ڈال دو۔۔۔ مگر دل کی ملکہ تو میں ہی رہوں گی ناں؟”
آخری فقرہ انہوں نے ذرا بلند آواز میں ارشاد فرمایا تھا، جسے سنتے ہی ساری کی ساری بدزات، کم بختیں زور زور سے ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ گئیں۔
ایک منہ چڑهی تو میرے سینے پہ چڑھتی  چلی گئی  اور لگی کھلم کھلا مسکوٹ کرنے۔
بیگم صاحبہ نے جب ان کے یہ ترچھے تیور دیکھے تو کروٹ بدل کر منہ پرے کر کے سو جانے میں ہی اپنی عافیت گردانی۔
کون ان ناشدنی، گھاک، پھپھٹ بائیوں کے متھے لگ کر ناحق اپنی عاقبت خراب کرے؟

پھر دهیرے دهیرے یہ بات بھی بیگم پر کھل گئی  کہ خاکسار کے دل و دماغ پر کس کی حکمرانی ہے!
مجبوری کا نام شکریہ!
بیگم صاحبہ کو ایک مشرقی لڑکی ہونے کے ناطے ان سب کی عادت ڈالنا ہی پڑی۔
اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ایسا ہی ایک نہ ایک سمجھوتا ہر مشرقی لڑکی کو کرنا ہی پڑتا ہے۔
ان دنوں مجھے اک نیا نیا عشق چڑھا تھا۔
بھورے گھنگھریالے بالوں کے گھپے سے سر پہ سجائے، سفید چمڑی لیے، موٹی موٹی نیلی آنکھوں والی لڑکی سے۔۔۔
لڑکی تو خیر اسے نہیں کہیں گے کیونکہ وہ ایک بھرپور عورت تھی۔
حسن اور رعب حسن کے دبدبے سے سرشار۔۔۔
کافر اداؤں کی تجلیوں سے پور پور شرابور۔۔ انگ انگ چور چور۔
وہ دور دیس روس سے آئی  تھی۔
کچھ کچھ بھاری بھرکم سے کولہے، نئی  بہار کے شگوفوں سے بھری ٹہنی کا سا مچلتا مہکتا بدن، خوب لانبی چوڑی۔
وہ لحیم شحیم ہونے کے باوجود فوراً  میرے دل و دماغ پر چھا گئی  اور آتے ہی گھر کی مالکن بن بیٹھی۔
میری منہ چڑهی دوسری محبوباؤں کے تن من میں گویا ایک آگ سی لگ گئی۔ ان کی آنکھوں کے ڈیلے ڈھیلے پڑ گئے اور ان کے گلے ناحق خشک ہونے لگے۔
بیگم کا غصہ اور ماتھے کی شکنیں روز بروز بڑهنے لگیں۔۔۔
اے لو۔۔۔
چند دنوں میں اپنے دم سادهے ساری کی ساری پرانی محبوبائیں نڈهال ہو ہو کر گرنے لگیں۔ چند ایک نے اپنے پینترے بدل کر جھٹ پٹ بستر سے نیچے کھسک لینے میں اپنی عافیت جانی۔
کچھ نے سخت جان بن کر، دم بخود ہو کر ذرا دور ہٹ بیٹھ کر یہ نیا تماشا دیکھنا شروع کیا۔

اینا نام تھا اسکا۔
مجھے بھی اس سے یکلخت جانے کیوں اتنی محبت ہو گئی تھی کہ پچھلی تمام محبتیں اس الفت کے آگے ہیچ پڑ گئی تھیں۔
بیگم صاحبہ کی ناگواری الگ سے غضب ڈھاتی تھی۔ ان سب کے چمکتے پنڈے بھی پھیکے پڑ گئے تھے اور ان کے اداس چہروں پہ اک کھنڈی سی چھا گئی  تھی۔
ان کی اجلی رنگتیں کجلانے لگیں تھیں۔ تب ان میں سے سب سے زیادہ سمجھ دار اور سب سے زیادہ بوڑهی نے اک لمبا معنی خیز کھنگورا بھرا اور اٹھ کر سب کو سمجھانے لگی۔ یہ شکن تھی!
دادا ابا کے زمانے کی بڑی بڑھیا، آفت کی پڑیا۔
پھر ابا حضور کے ہاتھوں ھاتھ ہوتی ہوئی اب میری نگہداشت میں چلی آئی  تھی۔
یہ بھی بہت دنوں تک میری مکمل لاڈلی اور چہیتی بنی رہی تھی۔
اس کے چہرے پہ جھریاں پڑی ہوئیں تھیں، اڑا اڑا سا رنگ روپ، ذرا دھیرج سے نہ چھوو تو ہمہ وقت بکھرنے پر فوراً  تیار۔۔۔
اگرچہ نگوڑی ایک بساندی سی عجیب بو میں رچی ہوئی  تھی مگر میری جان اب بھی اس پر جاتی تھی۔۔۔
یہی سوچ کر میں نے اسے جھک کر اٹھا لیا اور سینے سے لگا لیا۔
یہ میری بہت پرانی محبوبائیں تھیں۔ میرے رنگ ڈهنگ کو اک زمانے سے دیکھے ہوئے۔۔۔ شاید یہ میری رگ رگ سے واقف تھیں۔ شکنتلا نے منہ بسورتی چندنیا کو گلے سے لگایا۔
چیکو پہکو روتی چترا کو تسلی دلاسے دئیے۔ جانی جو پلنگڑی سے لگی اک ادا سے سر نہوڑائے بیٹھی تھی، اسے زمانے کی اونچ نیچ سمجھائی ۔
وہیں سفید براق چاندنی پر پاؤں پسارے، گا ؤتکیے سے نشست لگائے دلربا بھی براجمان تھی۔ تھی وہ ذرا طرحدار۔۔۔ کچھ کچھ چلبلی سی تھی، پرانی ڈیرہ دار طوائفوں کی طرح بنی ٹھنی ٹھسے دار۔۔۔ بانکی۔
جانوں بھی وہیں کی تھی۔۔۔ جو نہایت ادا سے منہ تھوتھائے اک طرف غزل کا مقطع بنی بیٹھی تھی۔۔۔
” اے نوج!
ہمارا کیا ہے۔۔۔ یہ در نہیں تو کیا بے در ہو جاویں گے؟
لونڈی لاکھ پشتینی غلام سہی، ہے تو حضور کی پرانی نمک خوار۔
بندی یوں سرکار کی نظریں پھیر لیے جانے کی تاب نہیں رکھتی۔ آپ حکم کیجئے، عدولی کی مجال کسے ہے؟
بندی کہیں کالے کوس منہ کالا کر جاوے گی۔
لے میں نے اپنے دل کی بات کہہ دی”
وہ کھنکھار کر بولی۔
اس کا حسرت بھرا چہرہ اور اجڑا ہار سنگھار نظروں کو کھٹک سا گیا۔
دل پر اک چوٹ سی پڑی۔
لشکارے مارتی ناک کی لونگ کی چمکتی نوکیلی کنی تیر کی طرح دل میں چبھ گئی ۔
“چل ہٹ نگوڑی، تجھ پہ مولا کی سنوار! شیطان کے کان بہرے۔۔۔
اری تب لوگ باگ یہ نہ کہویں گے کہ منہ جلی، کلموہی رنڈی نے بھی کفن کا چونگا کر لیا”
دلربا یوں گویا ہوئی۔
وہ بالکل دبلی پتلی۔۔۔ چھریری کمسن نازک سی تھی۔
بالی عمریا میں بھی چھپن چھری۔
اک بند نشے کی بوتل۔۔۔
بوند بوند خمار سے بھری ہوئی۔
وہ اک لمبے عرصے تک میری جان و جگر بنی رہی تھی، منہ لگی، نک چڑی آفت۔۔۔ چھپن چھری۔
اب کچھ اور محبوبائیں جن کے الٹے سیدھے کئی نام تھے، بیچ میں آن کودیں اور یوں جا کر میری جان کی خلاصی ہوئی۔
پھر ایک زمانے بعد چند نئ محبوبائیں مجھے ملیں۔
نظموں غزلوں کی طرح پیچدار۔۔۔
اور رنگا رنگ تنوع سے بھرپور۔
ان کے نشے عجب نرالے تھے اور رنگ عجیب چوکھے۔

میں بھی انکے رنگ میں رنگتا ہی چلا گیا۔ میری آنکھوں کو نئے رنگ نئی چمک عطا کرنے والیوں، ان نئی آفت کی پرکالہ قیامتوں نے مجھے تو اپنا دیوانہ بنا ہی لیا، خود بھی ساری ساری رات میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دل کھول کر بیٹھی رہتیں۔ کبھی اپنے من کا حال میرے دل میں انڈیل دیتیں تو کبھی کھلی کتاب بن کر بچھ بچھ جاتیں۔
تب میں نادان یہ سمجھا تھا کہ زندگی کا انت بھی یوں ہی ہو گا۔ مگر یہ شاید میری اک بھول تھی۔
میری اس بهول کو مٹانے کے لیے سچ مچ کا طوفان “قطرینہ” آ گیا۔
کتنے لوگوں کو وہ قیامت خیز طوفان بھول چکا ہو گا مگر مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔
یہ کل ہی کی تو بات تھی۔۔۔۔

دکھ کی حقیقت یکلخت پھیل جانے والے اس اندهیرے کی لکیر جیسی ہوتی ہے جو سمٹے تو بہتی آنکھ میں نہ سمٹتے سرمے کی طرح اک لمبی رات میں ڈهل جاتی ہے۔
اور پھیلے تو اک خالی خالی سا اداس دل بن جائے۔
مجھے بتایا گیا کہ گھر سے فقط اپنی جان بچا کر بھاگتے سمے میں اپنی صرف ایک ہی محبوبہ کو ساتھ لے جا سکتا ہوں۔
صرف ایک۔۔۔
واحد۔۔۔
اینا کرنینا۔۔۔ یا شکنتلا؟
میرے دادا جان کی نشانی!
میری جانی، میری امراو جان ادا
چتر لیکھا؟ یا قرہ العین حیدر کی غیر معمولی لفظی چترائ سے لکھی دلربا؟
چندنیا۔۔۔ چاندنی بیگم؟

Advertisements
julia rana solicitors

صرف ایک کتاب کو ساتھ لے جانا اور باقی سب کو پیچھے چھوڑ جانا میرے لیے اک عذاب ہی تھا۔
بہت سوچنے کے بعد گھر سے نکلتے سمے میں نے چوم کر ایک کتاب کو اٹھا لیا کہ اس سے بڑی کوئی  کتاب میرے نزدیک ہے ہی نہیں۔
جلا وطنی کے پورے مہینہ بھر ہر ہر رات مجھے اپنی کتابوں کے بین کرنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ جیسے کوئی  بہت دور سے رو رو کر مجھے پکارتا ہو۔
حکومت کی طرف سے عائد پابندی اور کرفیو کی بنا پر کوئی  شخص بھی ایک ماہ تک نیو اورلینز شہر میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ خدا خدا کر کے پابندی ہٹی تو ہم سب کی واپسی بھی ہوئی۔
اب بھلا یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ خدا نے اپنے خاص کرم سے میرے گھر سمیت ان سب کتابوں کو بھی مکمل بربادی سے بچائے رکھا۔
گو کتنی چیزوں کا نقصان ہوا مگر میری سب “محبوبائیں” مسکراتی ہوئ دم سادھے میرا انتظار ہی کرتی رہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply