صحافی کوئی پارٹی نہیں رکھتا۔۔شہزاد سلیم عباسی

صحافت ایک باوقار پیشہ ہے۔ ایکس جنریشن نے بغود مشاہدہ کیا ہے کہ جب موٹی بیٹریز والا ریڈیو ہوتا تھا تو صحافی سارا سارادن بیٹھ کر ریڈیو کی صحافت کرتا تھا۔ تو سمجھ میں آیا کہ ذرائع ابلاغ جوں جوں ترقی  کرتا گیا صحافی بھی ترقی کرتا گیا۔ نوجوانوں  کو تو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ برسوں پہلے تو حقہ، سگریٹ اور چائے کیساتھ صحافت کی محفلیں لگتیں تھیں۔اورشعبہ صحافت میں بولے گئے ایک ایک لفظ، فقرے، قافیہ ردیف اور عروض پر مہینوں بحث ہوتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ صحافت کیا ہوتی ہے؟ اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ اب توہر بچہ پیدائشی سنگر، صحافی یا پٹوار ی پیدا ہوتا ہے۔ یاد رہے راقم کی اوّل الذکر سے مراد اچھی آواز رکھنے والا، بین الذکر سے مراد سچائی کی کھوج لگا کر اسے چھپانے والا اور پٹوار ی سے مراد حق کا ساتھ دینے والا ہے۔ صحافت کی ارتقائی شکلیں بھی بنتی رہیں۔ صحافت چائے کے ڈھابوں اور چوک چوراہوں سے نکل کر پریس کلبوں میں آگئی۔ یہاں تک تو تقریباً سب سیٹ تھا۔ کچھ نارمز باقی تھیں۔ کیوں اقدار والے اعلی ٰٰ پائے کے صحافی موجود تھے اور اب جو چند نابغہ ء روزگارہی بچے ہیں یہ بیچار ے اپنی عزتیں بچاتے پھر رہے ہیں۔

یاد رکھیں آج کی معلوم تاریخ میں کوئی پیشہ مقدس نہیں ہوتا۔ پیشہ مقدس تبھی بنتا ہے جب اس سے منسلک لوگ اپنی بظاہر وضع قطع کیساتھ اندر سے بھی اُجلے ہوں اور وفا اور بھلائی کا جذبہ رکھتے ہوں۔پرنٹ کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی چکا چوند نے صحافی کو پہلی بار اینکر بنا دیا۔ مطلب کہ صحافی سے اینکر بننے میں ایکس جنریشن کیساتھ ساتھ  جوانوں  نے بھی خوب مزے لیے۔یہ نوجوان (عامی) صحافی اور اینکرکی تعریف و تفہیم میں پڑ گئے جبکہ اینکرز نے خوب ہاتھ صاف کئے۔ اسی اثنا میں اینکرز نما صحافیوں نے لاکھوں کروڑوں کی تنخواہیں،جائیدادیں، پلاٹ اور بیسیوں طرح کی مراعات لینا شروع کر دیں۔ بہرحال جب آنکھ کھلی تو عام آدمی مڈل کلاس سے لوئر مڈل کلاس کی چکی سے ہوتا ہوا لوئر کلاس تک پہنچ گیا۔ صحافی سے اینکرز بننے کی ریس میں سیاستدانوں نے اپنے اپنے میڈیا گروپ بنا لیے۔

یہ دور فیس بک، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے عروج کا دور ہے۔
صحافت کا تیسرا دور تب آتا ہے جب ڈیجٹیل میڈیا کی انٹری ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا نے دنیا میں آئی ٹی اور جدت کا تہلکہ مچادیا۔ جس نے پرانی، درمیانی اور نئی پود (نوجوان) کو کمبائن کر دیا۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے محمود و ایاز۔ یہ دور ایک طرح سے ٹھیک بھی ہے کہ پہلے پہلے بڑے بڑے صحافیوں کو صحافت کا ستون اور بابائے صحافت جیسے القابات سے نوازا جاتا تھااور ان کے پاس بیٹھ جانے کو بھی شرف سمجھا جاتا تھا۔ مگر جب سے ٹک ٹاک، فیس بک ریل اور یو ٹیوب جیسے انقلابات آئے ہیں بڑا صحافی، بڑا یو ٹیوبر، ٹک ٹاکر وغیرہ وغیرہ سب ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ دور اس طرح بھی بہت دلچسپ ہے کہ اس میں صحافی، صحافت چھوڑ کر جرنلزم میں آگیا۔ صحافت ”صحف“ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کتاب اور رسالے کے ہیں جبکہ صحافت  کو انگلش میں جرنلزم کہتے ہیں اور جرنلز م کے معنی روزانہ حساب کتاب یعنی روزنامچہ ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ صحافت کس قدر ترقی کرتے ہوئے جرنلزم تک پہنچی اور اب جہاں بڑے بڑے سلیبرٹیز کے فارمز ہاؤسزیا گھر ہیں وہیں بڑے جرنلسٹس کے بھی ہیں کہ اب وہ ہر وقت حساب و کتاب کے گھن چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دیکھیے! کام کی بات یہ ہے کہ حالیہ صحافت کا گلا گھونٹنے کی روش نئی نہیں ہے۔ گزشتہ دور میں عمران خان نے فسطائیت کی انتہا ء کی تھی اور اب اگر ایسا ہورہا ہے تو بھی غلط ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ صحافی کبھی پارٹی نہیں بن سکتا۔ صحافی کبھی بھی ٹِلٹ نہیں ہو سکتا۔ صحافی کا کام صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہے۔ صحافی ہر برائی کے خلاف آواز اٹھائے گا اور قلم یا زبان کی طاقت سے عوام کو بتائے گا کہ کہاں ناانصافی ہے۔ کچھ صحافی جب رائٹ ونگ میں چلے جائیں اور کچھ لفٹ ونگ میں تو پھر عوام یہی سمجھے گی کہ صحافی اب جرنلسٹ بن گیا۔
بات سیدھی سی ہے کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو وہ آنکھیں بند  کر لیتی ہے کیوں کہ وہ چور دروزے سے آتی ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ اگر کچھ دائیں بائیں کیا تو پھر پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے جائیں گے۔اور اپوزیشن شور مچاتی ہے اور سب کو للکارتی ہے اور جب اسے حکومت دی جاتی ہے تو وہ بھی چپ کر کے حکومت کی  لوری انجوائے کرتی ہے۔ مگر ایسے یہ کمپنی نہیں چلے گی۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ملک ترقی کرے اور رول آف لاء کی حکمرانی ہو تو پھر اگلی باری کی صدائیں لگانے سے پہلے پارلیمنٹ میں مل بیٹھیں اورطے  کریں کہ اب سے رول آف لاء کو پامال کرنے والا ہر مجرم، قوم کا مجرم ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply