جنرل باجوہ کی توہین / اظہر سید

بطور پاکستانی اپنی فوج اور اس کے جنرلوں پر تنقید کا حق صرف پاکستانیوں کا ہے ۔کسی غیر ملکی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک میں پاکستان کے کسی جنرل کو گندی گالیاں دے ۔سابق آرمی چیف باجوہ نام کا بندہ نہیں بلکہ پاکستانی فوج کا سابق سربراہ ہے ۔یوں سرعام گالیاں دینے سے توہین اس باجوہ نامی بندے کی نہیں ہوئی ہر پاکستانی کی ہوئی ہے ۔دل مضطرب ہے پاکستان کیوں ایسی ریاست بن گیا ہے ہر کوئی نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے ۔
ہماری ناقص رائے کے مطابق جنرل باجوہ کے ساتھ جو سلوک ہوااس کے زمہ دار وہ خود ہیں اور وہ مائنڈ سیٹ ہے جس نے اج ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے ایک عام ادمی بیرون ملک ہمارے سابق آرمی چیف کو اسکی اہلیہ کے سامنے غلیظ گالیاں دیتا ہے ۔ پوری دنیا میں یہ ویڈیو وائرل ہو جاتی ہے ۔
پاکستانی فوج ہیرو سے ولن بننے کے عمل میں ہے ۔جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دور تک فوج مجموعی طور پر عوامی مسائل کی زمہ دار نہیں سمجھی جاتی تھی ۔دونوں فوجی صدور کے دور میں بین الاقوامی مالی معاونت سے عام پاکستانی کو دال دلیہ کی زیادہ فکر نہیں ہوتی تھی ۔
عالمی مالی معاونت کے خاتمہ کا عمل افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد ختم ہو گیا اور اندرونی مسائل میں اضافہ کے ساتھ ہی فوج بھی بطور ادارہ کٹہرے میں کھڑی ہو گئی ۔معاشی ابتری کا جو عمل شروع ہوا ہے وہ فوج کو کٹہرے سے نکلنے نہیں دے گا اور معاشی بحران کے سب سے زیادہ اثرات بھی فوج پر ہی مرتب ہونگے ۔
فوج بطور ادارہ انفرادی غلطیوں پر احتساب کے موثر اور بے مثال نظام کی وجہ سے ایک شاندار ادارہ ہے لیکن پالیسی سازی کی سطح پر غلطیوں کے “احتساب کا نظام” خامیوں سے بھرا ہے ۔
ایک ریاست کے طور پر پاکستان اس سطح پر پہنچ گیا ہے اب پالیسی سازی میں بھی غلطیوں پر احتساب کا نظام قائم کرنا پڑے گا ۔
اب یہ ممکن نہیں کارگل کر لیا جائے اور اسکے ردعمل سے ہونے والے نقصان کے زمہ داروں کا احتساب نہ ہو ۔
ایم کیو ایم ،اچھے اور برے طالب علم ،افغان پالیسی یا نوسر باز کو مسلط کرنے سمیت نقصان کا باعث بننے والی تمام پالیسیوں کے تخلیق کاروں کو بھی احتساب کے اسی طرز کے نظام کا سامنا کرنا چاہئے جس طرح انفرادی غلطی پر کورٹ مارشل ایسا احتساب کا نظام موجود ہے ۔
معیشت ہی دنیا میں عزت اور وقار سے جینے کا راستہ ہے ۔جب تک بیرونی معاونت ملتی تھی کام چلتا رہتا تھا ۔ اب بیرونی معاونت نہیں ہے صرف معیشت واحد آپشن ہے ۔معاشی استحکام تک فوج کو پیچھے ہٹنا پڑے گا اور یہی مسلہ کا واحد حل ہے ۔
پاکستان خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس چینیوں کی صورت دوسری آپشن موجود ہے ۔چینیوں کی آپشن موجود نہ ہوتی تو دیوالیہ تو ہونا ہی تھا ساتھ میں ایٹمی اثاثوں اور میزائل پروگرام کے ساتھ سے بھی بتدریج ہاتھ دھو بیٹھنے تھے ۔
فوج کے وقار کی بحالی کیلئے بہت کچھ کرنا پڑے گا ۔سخت فیصلے نہ کئے تو ففتھ جنریشن وار کے انڈے بچے دنیا بھر میں پاکستانی فوج کے سابق افسران کی توہین کرتے رہیں گے ۔یہ سلسلہ جو جنرل باجوہ کو دی جانے والی گالیوں سے شروع ہوا ہے اسے یہیں پر روکنے کیلئے تمام درکار اقدامات کرنا ہونگے ۔نہ کئے گئے تو یہ سلسلہ حاضر سروس افسران تک بھی پہنچ جائے گا ۔
پہلے مرحلہ میں اعلی فوجی افسران کے ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک منتقلی پر پابندی عائد کی جائے ۔
اعلی فوجی افسران کے اہل خانہ کی غیر ملکی شہریت پر پابندی لگائی جائے ۔اعلی فوجی افسران کے اہل خانہ کے بیرون ملک جائیداد خریدنے اور کاروبار خریدنے پر پابندی لگائی جائے اور اس کا دائرہ عدلیہ سمیت دیگر اداروں تک وسیع کیا جائے ۔پالیسی سازی میں غلطیوں پر احتساب کا موثر نظام قائم کیا جائے اور زمہ داروں کو سزا دینے کا نظام قائم کیا جائے تاکہ مستقبل میں “گروپ آف جنرلز” فوج یا ملک کے مفاد میں کوئی پالیسی بنائے تو احتساب کے موثر نظام کو بھی سامنے رکھے ۔اب افغانستان کا معاملہ ختم ہو چکا اور اس معاملہ سے جڑے مالی معاونت کے سلسلے بھی ختم شد ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply