ملاوٹ زدہ سچ۔۔فراست محمود

طاقت کی وجہ سے خوف پیدا ہوا کرتا ہے اور پھر یہ خوف بڑھتا بڑھتا نفرت میں بدل جاتا ہے اور یہ نفرت آہستہ آہستہ بغاوت بن جاتی ہے اور بغاوت جب طاقت سے ٹکراتی ہے تو پلے کچھ نہیں رہتا طاقت کے۔
یہ عارضی دنیا جس میں خاک کا بنا نادان انسان مستقل اور پختہ اقتدار چاہتا ہے چاہے ،چاہے اُسے اس کے لیے کوئی بھی حربہ اختیارکرنا پڑے ۔
اقتدار کے ایوانوں کی ہوس اس قدر ہے یہاں کہ لوگ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کے جان تک لے لیتے ہیں اپنے پیاروں کی  ۔تخت کے نشے میں دھت ہوتے ہیں لوگ، یوں کہ خبر نہیں رکھتے اردگرد کے مکینوں کی۔روشنیوں کی چکا چوند میں گم ہوتے ہیں اس قدر کہ اندھیروں کی تاریکی کا سن کر گھبرانے لگتے ہیں۔

خیر باتوں ہی باتوں میں چل نکلتے ہیں میدان سیاست کی طرف اور دیکھتے ہیں کون کس کو باؤنسر مار کر حواس باختہ کر رہا ہے اور کون کس کو کتنے چھکے مار کر چھکے چھڑا رہا ہے۔ہمارے ملک میں چونکہ پائے جاتے ہیں نامور کھلاڑی تو اکثر مختلف طرز کے کھیل رہتے ہیں سدا جاری۔

بنیادی طور پہ وطن عزیز میں غیر جانبدارانہ سچ بولنا لکھنا اور سننا تقریباً ممنوع ہی ہے کیونکہ جب بھی سچ اختلاف کی صورت اختیار کرے گا تو اُگلے گا زہر ہی۔اپنے پرائے سارے ہی مخالف صفوں میں کھڑے ہوجائیں گے۔ایسی صورتحال بہت خوفناک ہوتی ہے اور یہی اکیلے پن کا خوف تو سچ بولنے کی راہ میں اژدھے کی مانند پھن پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔اور ہم لوگ عظیم لوگ سچ کو کہنے سے کترا جاتے ہیں۔

نواز شریف کو آپ چی گویرا بنائیں یا سقراط کا نام دیں لیں، دل کی تسلی کو نام تو دئیے ہی جا سکتے ہیں نا مگر یقین جانیے نواز شریف آپ کے دئیے گئے ناموں کا بھرم رکھنے سے قاصر رہے گا۔نواز شریف جمہوری بالا دستی کا بوجھ نہیں اٹھا پائے گا۔

بے شک عوام کے دل میں نواز شریف کے لئے محبت ہوگی مگر یہ محبت ہمیشہ کی طرح یک طرفہ رہے گی۔اقتدار کی بھول بھلیوں میں اور طاقت کے نشے میں گم ہوں گے یہ صاحب ایسے کہ جمہوریت کا راگ الاپنا مشکل ہو جائے گا ان کو۔

یہ سب (نواز،عمران زدداری)اشرافیہ ہی ہیں یہ اس نظام کو کبھی نہیں بدلیں گے یہ جب جب بھی اقتدار میں ہوں گے تو اسی بوسیدہ نظام کو نہ صرف مضبوط کریں گے بلکہ اس کی حفاظت بھی کریں گے اور جب جب یہ اقتدار سے باہر ہوں گے تو آدھے سچ بول کر ہیرو بنیں گے۔

فرض کریں اگر آج بھی نواز شریف ہی تخت پہ ہوتا تو اس قوم کو  ایسے سچ بتاتا ۔اقتدار میں رہتے ہوئے عمران خان بھی نہیں سدھارپائے  گا اس نظام کو۔مگر جونہی اقتدار سے محرومی ہوگی تو طرح طرح کے ایسے انکشافات خان صاحب کی زبان سے باہر آئیں گے۔(ماضی گواہ ہے اس بات کا). ایکسٹینشن کے ووٹ نے میاں صاحب کو مشکوک ٹھہرا دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لکھنے کو بہت کچھ  ہے مگر اکیلے پن کا خوف مجبور کر رہا ہے سوچ کی سرحدوں پہ پہرے دار کھڑے آنکھیں نکال رہے ہیں۔اس لئے اس تیز دھار پل صراط پہ قدم رکھنے کا خوف ذہن پہ مسلط ہے۔
کبھی وڈیرے بن کر
کبھی لٹیرے بن کر
کبھی ایوانوں میں جانے کے لئے
کبھی زندانوں میں جانے کے لئے
پروٹوکول کل بھی یہی لیتے تھے
پروٹوکول آج بھی یہی لیتے ہیں
کیوں؟؟؟
کیونکہ اس طاقتور نظام کی کنجی
اسی طاقتور طبقے کےہاتھ میں ہے
جو وقت پڑنے پہ ۔۔۔
انہی وڈیروں اور لٹیروں کو
پورے پروٹوکول کے ساتھ
کبھی ایوانوں میں
اور کبھی زندانوں میں
مقفل کر دیتا ہے۔
(ویسے جمہوریت بہترین انتقام ہوتا ہے ہر آمریت کا۔چاہے آمریت کا روپ کوئی سویلین دھارے یا وردی والا)
اتنی اتنی باتوں پہ غداری والے سرٹیفکیٹ جاری کرنا زیادتی ہوتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply