جدید اور جدیدیت (تحریر1976 ء)
گذشتہ برسوں کے کچھ رسائل اور کتب میں مشمولہ مضامین ِ نظم و نثر کی ورق گردانی کے بعددل میں یہ خیال جاگزیں ہوا کہ چالیس اور پچاس کی دہائی میں جس ادب کو ہم ترقی پسند تحریک سے قدرے مختلف سمجھ کر ’نیا ادب‘ کا نام دیتے تھے اور جس میں راشدؔ اور میرا جیؔ دو معتبر نام تھے اور جس میں قدرے دیر سے مجید امجدؔ اور اختر الایمانؔ بھی شامل کیے جاسکتے تھے، اب ایک نئے دھارے میں بدل چکا ہے (اس بات کا اطلاق انڈیا پر زیادہ اور پاکستان پر کم دکھائی دیتا ہے)اور اس دھارے کو ایک خود کار واٹر پمپ سے چلانے والوں نے ’جدیدیت‘ کا نام دیا ہے۔ اس کا نعم البدل انگریزی میں کیا ہو سکتا ہے، کم از کم میرے پاس تو اس کا جواب نہیں ہے۔ یقیناً یہ تحریک وہنہیں ہے، جسے فرانسیسی میں، انیسویں صدی کے اختتام پذیر ہونے کی مناسبت سے fin-de-sie’cle (فانت سیئکل) کہا گیا تھا، یا انگریزی میں modernism یا modernityکا نام دیا گیا تھا۔ آج بھی ہم جس ’جدید ادب‘ کو مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں، اس کی ابتدا کا لیکھا جوکھا ہم انگریزی میں امیجسٹ پوئٹری کے پہلے دور (ایذرا پاؤنڈ اور اس کے ساتھیوں) سے شروع کرتے ہوئے دوسرے دور (ایلیٹ اور اس کے پیچھے آنے والے شعرا) تک جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ہوتے ہوئے پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم کے درمیانی وقفے تک پہنچ کر اسے ختم کر دیتے ہیں۔”ختم“ شاید ایک غلط لفظ ہے، کیونکہ ’امیجزم‘ کی جس شرط ِ اول سے یہ تحاریک شروع ہوئی تھیں، اس دورانیے میں کسی نہ کسی صورت جاری و ساری تو رہیں لیکن اسلوب سے قطع نظر، موضوع اور مضمون کی سطح پر تشکیک، بے سمتی،فرار، فرد کی تنہائی کا احساس، فرد کی داخلی ”لا فردیت“، زمانہ ء حال سے بے زاری..ایسے در آئے کہ امیج خارجی منظر نامے کو ترک کرنے کے بعد، موضوع اور مضمون کی مناسبت سے ایک سے زیادہ جہتیں قبول کرتا ہوا ذہنی ہوا خوری کو نکل گیا۔دوسری جنگ ِ عظیم کا دورانیہ صرف چھ برسوں کا تھا اور ان برسوں میں جو ادب تخلیق ہوا، وہ کوئی الگ حیثیت نہیں رکھتا لیکن جنگ کے فوراً بعد بے زمینی، غریب الوطنی، (جنگ کے سیاق میں) دہشت، بے حوصلگی، اضطرار، غیر محفوظیت، لا یعنیت اور مہملیت کا دور دورہ رہا۔
اب، یعنی ربع صدی کے بعد مجھے یہ سطریں لکھتے ہوئے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اردو میں وارد ”جدیدیت“ ایک حد تویورپ کے اس دور سے تعلق رکھتی ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد معرض ِ وجود میں آیا اور دوسری حد تک یہ اس بے سمتی کی غماز ہے جو Theatre of the Absurd یا Beat Generation یا پھر Magical Realism کے گروہوں میں دکھائی دیتی تھی۔ ”لا معنویت کا تھیئٹر“ (مجھے absurd کا یہی معنی پسند ہے) البیئر کامو Albert Camus کے حوالے سے یا یوجِین آئیونیسکو ؔ کے حوالے سے ایک اصطلاح کے طور پر مارٹن ایسلِن Martin Esslin نے پہلی بار استعمال کی۔ اس سلسلے کی معتبر ترین ہستی سییموئل بیکٹ Samuel Beckett ہے جس کے ہاں Modern, Postmodern & Absurd تینوں تحاریک قطار اند ا قطار دکھائی دیتی ہیں۔
اردو میں ’جدیدیت‘ اوّل اوّل تو ترقی پسند تحریک کے ردّ ِ عمل کے طور پرہندوستان میں وارد ہوئی۔ اسے تاریخی استدلال کی سطح پر، ’قبول ِ عام‘ کی بجائے ’قبول ِ خاص‘ کے طور پر شناخت دینے میں شمس الرحمن فاروقی نہ صرف پیش پیش رہے، بلکہ اس کی سرپرستی اور رہنمائی کا بیڑا بھی انہوں نے اٹھایا۔ ایک قائد اور قانون گو کی طرح انہوں نے تحریک کو اس کے تاریخی کردار سے آگاہ کیا۔ ان کی ادارت میں چھپنے والا جریدہ ”شبخون“ تحریک سے وابستہ اہل ِ قلم کو ایک پلیٹ فارم مہّیا کرنے میں پیش پیش رہا۔ یہ کریڈٹ فاروقی صاحب کو ہی جاتا ہے کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ چند ایک پرانے اہل قلم کو چھوڑ کر ہر نئے لکھنے والے نے ’جدید‘ کہلوانے میں فخر محسوس کیا…..لیکن تحریک اور تنظیم میں بہت فرق ہے۔ ترقی پسند تحریک ایک تنظیم کی زیر ِ قیادت کام کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ منٹو ؔ کو ”ذات باہر“ کرنے میں بھی ایک ریزولیوشن کی ضرورت پیش آئی تھی۔ کئی چھُٹ بھَیّے (”شاہراہ“ کے پرکاش پنڈت کی مثال اظہر مِن الشمّس ہے، جو خود کو اردو کا چیخوفؔ لکھا کرتے تھے!) آرگنائزیشن کے کندھوں پر بیٹھ کر خود کو”نو گزا فقیر“ سمجھنے لگے تھے۔
جدیدیت کی تحریک بنیادی طور پر ہی قلم کی آزادی کی محرک تھی اور Organisational control کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، لیکن ہوا یہ کہ چند برسوں میں ہی انارکی اور انتشارنے اندرونی خلفشار کے طور پر اس تحریک کو گھُن کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ زبان کی شکست و ریخت شروع کی گئی تو لسّانیات کے سب اصول بالائے طاق رکھ دیے گئے۔ افسانوں میں کردار تحلیل ہوا، وقت کی یک سمتی رفتار کو شعوری رو کے زیر اثر Forward to the Past یا پھر Back to the Future کر دیا گیا۔ امیج پیٹرن،جس میں سب سے زیادہ Organic Unity کی ضرورت تھی، ایک لا یعنی ”کولاج“ کی صورت میں بدل دیا گیا۔ فاروقی صاحب کو دوش دینا غلط ہے۔ وہ ایک نقّاد تھے، رہنما تھے، آرگنائزر نہیں تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ’زیادتیوں‘ کا جو ادب کی مختلف اصناف کے ساتھ اور زبان کی سلیقہ مندی کے ساتھ روا رکھی گئی تھیں، نوٹس لینے پر بھی وہ کچھ نہ کر سکے اور پھر، بوجوہ دیگر بھی، یہ تحریک ایک شوریدہ سر دریا سے کم ہوتے ہوتے ایک مضمحل گدلے نالے کی طرح بہنے لگی!!!
ما بعد جدیدیت
اب ”پوسٹ ماڈرن ازم“ کی طرف آئیں۔
بیکٹؔ کی بات پہلے ہو چکی ہے۔ اس نے موضوع سے زیادہ ’فارم‘ اور اسلوب کی طرف توجہ مبذول کی۔ جب 1969 ء میں اسے نوبل پرائز سے نوازا گیا تو وہ Meta-literary تجربات کے لیے تیار تھا۔ انہی تجربات سے مملو اس کی زندگی کی آخری تحریر Stirringsسے نوازا گیا تو وہ Meta-literary تجربات کے لیے تیار تھا۔ انہی تجربات سے مملو اس کی زندگی کی آخری تحریر Stirrings Still تھی۔ اس میں دیگر امور کے علاوہ بیکٹؔ نے ڈرامہ، فکشن اور شاعری کے درمیان حدود ِ فاصل کو ملیا میٹ کرتے ہوئے (اپنی دانست میں) ایک نئی صنف ِ ادب ایجاد کرنے کی سعی کی۔لیکن نتیجہ جو برآمد ہوا وہ خاطر خواہ نہیں تھا۔ یہ تحریر اس کی پرانی تحریروں کی صدائے باز گشت بن کر رہ گئی اور نقادوں نے اسے substance کی جگہ پر shadow کہا۔ پھر بھی یہ بات مسلّم ہے کہ بیکٹ ”پوسٹ ماڈرنزم“ کا جنم داتا ہے۔ فکشن کے بارے میں Jean-Francois Lyotard (یاں فرنسائے لیوتارد) کی دو نئی اصطلاحیں معرض وجود میں آئیں۔ انہیںMeta-narrative اور Little Narrative کہا گیا۔ Beat Generation ایک امریکی اصطلاح ہے اور اسے جیک کیروایک Jack Kerouacنے رواج دیا۔ یہ اس دور کی امریکی جوان نسل کے لا سمت سفر ِ زندگی کو موسیقی کی اصطلاح beat یعنی رقص کی ’دما دم دم‘ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اس کی لا یعنی صوتی تکرار کا استعارہ ہے۔ میں جب بھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے یہ شعر یا د آ جاتا ہے۔
بیا جاناں، تماشہ کن، کہ در انبوہ ِ جانبازاں
بصد سامان ِ رسوائی، سر ِ بازار می رقصم
جن شخصیات یا واقعات نے تاریخ وار اس منظر نامے کو ترتیب دیا، اس میں 1953ء کے دوران Waiting for Godot کی اسٹیج پر پروڈکشن ہے، 1956 ء میں Howl کی اشاعت، 1959 ء میں Naked Lunch کی اشاعت اور پھر بیسیوں صدی کی ساٹھ کی دہائی میں، یعنی 1966 میں دریداؔ Jacques Derrida کا تاریخ ساز لیکچر ہے، جو اس وقت کی تنقیدی تھیوریوں کو چیلنج کرتا ہے۔ اس لیکچر کا عنوان ہی اپنے آپ میں معنی خیز تھا۔ Structure, Sign and Play عنوان سے اس لیکچر کے سینکڑوں ڈرافٹ تیار ہوئے اور اس پر رائے زنی میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور اخبارات کے تبصرہ نگاروں نے حصہ لیا۔ تب میں پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ (انڈیا) کے شعبہ انگریزی ادبیات میں لیکچرار تھا۔ اسٹاف روم میں اس پر روزانہ بحث مباحثہ ہوتا تھا۔ برطانیہ نژاد پروفیسر پال لَو Paul Love اور میں اکثر دریدا ؔؔکے اس لیکچر کے مندرجات پر الجھتے تھے۔ پال لَوہم عصر یورپی منظر نامے کی جڑیں تلاش کرتے ہوئے اطالوی اور یونانی کلاسیکی ادوار تک پہنچتے تھے اور میں فارسی اور سنسکرت سے قدیم مفکروں اور لسانیات کے ماہروں کی مثالیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لاتا تھا۔ البتہ آخر میں ہم ایک بات پر متفق ہو جاتے تھے کہ دریداؔ کے فرمودات سے مکمل انحراف ممکن نہیں ہے۔
اردو میں پوسٹ ماڈرنزم کا صحیح متبادل کب منصہ شہود پر آتا ہے، ا س کے لیے شاید سالہا سال تک انتظار کرنے کی ضرورت نہ پڑے، کیوں کہ جدیدیت کی تحریک میں وہ عناصر بھی شرکت فرما چکے ہیں، جو غزل جیسی سکّہ بند صنف میں بھی اس قسم کے مصارع یا اشعار کہتے ہیں اور اپنی دانست میں ”جدید“ سے بھی ایک قدم آگے چل کر ”جدید تر“ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں!۔(درج ِ ذیل اشعار میں شعرا کے اسمائے گرامی بوجوہ حذف کر دیے گئے ہیں۔)
۔ سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
۔ بکرا مَیں مَیں کرتا ہے
۔بکری منمناتی ہے
۔ کچھوی کے پیٹ میں تھا بہت درد ِ زہ، جناب
مرغے کی بانگ سنتے ہی انڈے نکل پڑے
۔ اے درد ِ بے لباس، چلو اسپتال میں
شاید کہ کوئی نرس ہی تجھ پر پھسل پڑے
۔ ایڑی اٹھی تو چوٹی تک اٹھتی چلی گئی
ہم سر پہ پاؤں رکھ کے جو بھاگے تو دم لیا
۔ میری بھّدی ناک پر نقشہ توہے، مکھّی نہیں ہے
خود اُڑوں؟ نقشہ بناؤں، کیا کروں میں؟ تم بتاؤ
۔ بند ہی رہتا تو خوشبو کا کوئی ا مکاں نہ تھا
گانٹھ سا غنچہ تھا، چاقو سے جو کاٹا، کھِل گیا
”بلب جلا کر انگلی کاٹی، نیلے خون سے نظمیں لکھیں“ ایک ”جدید“ نظم کی ابتدائی سطریں تھیں، یہ نظم شاید باقر مہدی کی تھی جنہیں میں قریب سے نہیں جانتا تھا، لیکن اس نظم پر ایک ادبی نشست میں کیا بحث ہوئی اس کی رپورٹ ایک روزانہ اخبار کے ادبی کالم میں یہ چھپی کہ شاعر نے اس کی تفصیل یہ دی کہ بلب جلانے کا مطلب صریحاً یہ ہے کہ رات کا وقت تھا اور بلب بجھانے کے وقت کمرے میں اندھیرا تھا اور یہ کہ شاعر کو اگر نیند نہ آئے تو وہ کیا کرے گا؟ نظمیں ہی تو لکھے گا۔ انگلی کاٹنے کا استعار ہمہ جہت ہے۔ سیاہی نہ ہو تو خون سے ہی لکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ترقی پسند شاعر یہ کہہ سکتا ہے، ’کہ خون ِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے!“ تو ایک ”جدیدیت پسند‘‘ شاعر یہ کیوں نہیں کہہ سکتا، کہ نیلی سیاہی میسّر نہیں تھی، اس لیے اپنی انگلی کاٹی اور نیلا خون وافر مقدار میں اکٹھا کر لیا جس سے کہ نظم لکھی جا سکے۔یعنی دوات سوکھی پڑی تھی، اسے نیلے خون سے بھر لیا۔ یہ بھی استعارے کا ایک پہلو ہے کہ فاؤٹین پَین خریدنے کی مالی پوزیشن میں شاعر نہیں تھا۔ انگلی کاٹنے کی جہت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترقی پسند شاعروں کے پاس(اگر ان کی متاع ِ لوح و قلم چھِن گئی تو…) انگلیاں تو بہر حال تھیں.ہمارے پاس تو ما سوا انگلی کاٹنے کے لکھنے کا اور کوئی وسیلہ بھی نہیں ہے۔
پڑھ کر کچھ ہنسی بھی آئی اور کچھ افسوس بھی ہوا۔ ادبی نامہ نگار کی اپنی رگ ِ ظرافت پھڑکی تھی یااسے موصوف سے کوئی بدلہ چکانا تھا کیوں کہ اس نے مزے لے لے کر، دم دے دے کر، ایک ایک مصرعے پر رائے زنی کی تھی، میں تو اس تماشے کا خاموش تماشائی تھا….
باقر مہدی سے میری جو تین چار ملاقاتیں رہیں، بے حد مایوس کن تھیں۔ موصوف ایک خود ساختہ جنّت الاحمقان
Fool’s Paradise میں رہتے تھے، جہاں وہ خود تخت نشین، تاجپوش تھے اور ان کے ارد گرد بکھرے ہوئے سب لوگ ان کے خوشامدی درباری۔ یورپ کے اور ان کے ارد گرد بکھرے ہوئے سب لوگ ان کے خوشامدی درباری۔ یورپ کے فلسفیوں اور مصنفین کی باتیں کرتے تو ان کے نام کا تلفظ غلط ادا کرتے، سنی سنائی باتیں ایسے کرتے جیسے یہ ان کی آزمودہ ہوں۔ انہیں یہ خیال کبھی نہیں آیا، کہ سننے والا یعنی ستیہ پال آنند یورپ میں جامعاتی سطح پر کورسز کی تشکیل کرتا رہا ہے اور برسوں تک پڑھا بھی چکا ہے۔ بہر حال اب تو وہ ایک جنت سے دوسری میں انتقال فرما گئے ہیں اس لیے کچھ اور لکھنا مناسب نہیں لگتا۔
اوپر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے، وہ ہندوستان کے حوالے سے تو امر ِ واقعی ہے، صد فی صد درست ہے، لیکن پڑوسی ملک پاکستان پر اس کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد چونکہ دونوں ملکوں کے مابین ڈاک کے ٹکٹوں کی پرانی دروں پر رسالوں اور کتابوں کا آناجانا بند ہو گیا تھا اور لفافہ بند خطوط کو بھی اب سینسر کی چھلنیوں سے گذارا جانے لگا تھا، (فون ویسے ہی دستیاب نہیں تھا!)
اس لیے گذشتہ تیئس سالوں میں اردو ادب پر جو کچھ وہاں بیتی،عسکری آمرانہ دوران ِ حکومت کے دو یا تین دورانیوں میں جو کچھ اہل ِ قلم پر گذرا، کون کون کال کوٹھری میں بند ہوئے، کن کن کے خلاف مقدمے چلائے گئے، کون کون کھُلی منڈی میں آمروں کے ہاتھوں بِک گئے اور سرکاری عہدوں، انعاموں اور ایوارڈوں کو اپنے سینوں پر سجا کر بیٹھ گئے، اس کا پتہ مجھ جیسے foot loose آوارہ گرد کو تو(جسے اس کی اپنی یونیورسٹی میں ہی ایئر پورٹ پروفیسر کے cognomen سے پکارا جانے لگا تھا، اپنے لندن کے دوروں میں ہی پتہ چلتا رہا کہ اصلیت کیا ہے لیکن انڈیا کے اردو ادیبوں، شاعروں اور قارئین کی اکثریت اس سے بے بہرہ ہی رہی۔بہر حال مجھے آج یعنی ان واقعات اور حادثات کے تیس برس بعد اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے کچھ پیچھے جانا ہو گا۔ میں چونکہ اردو نظم کے حوالے سے یہ اوراق لکھ رہا ہوں، اس لیے اب فکشن اور صنف غزل سے بالکل ہٹ کر صرف نظم کی بات کروں گا۔
میرا ؔ جی کتاب”اس نظم میں“ بہت پہلے چھپ گئی تھی اور عملی تنقید کے کچھ معمولی نمونوں پر مشتمل تھی لیکن اس نے بہر حال ایک نئی راہ دریافت کی اور اپنے پیچھے آنے والوں کی رہنمائی کی۔ وزیر آغا تب تک فعال تھے اور ’اوراق‘ کے علاوہ ہر برس ان کی کوئی نہ کوئی نئی کتاب چھپ جاتی تھی۔ ان کی ”نظم جدید کی کروٹیں“ لنڈن میں کہیں سے میں اچک لایا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ جدید تنقیدی ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے اپنی کی کتاب ”جدید اردو نظم او ر یورپی اثرات“ 1968 ء میں شائع کی۔ یہ تینوں کتابیں جس طرح جدید نظم کے کچھ گنتی کے شعرا کا جائزہ لیتی ہیں، ان سے معاصر پاکستانی اردو ادب پر ہندوستان کی زیر بحث ”جدیدیت“ کی تحریک کے مثبت یا منفی اثرات کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ پاکستانی ادب پر اس کے اثرات سرے سے مرتب ہی نہیں ہوئے۔ انڈیا کی اپنی حدود میں ہی مقید ہو کر رہ گئے۔ اگر bits & pieces کی شکل میں (انیس سو ساٹھ سے آج تک، یعنی اٹھایئس برس”زمان“ کی سطح پر) اور (کراچی، لاہور، پنڈی۔اسلام آباد، یعنی تینmetropoltan ادبی مرکزوں کی ”مکان“ کی سطح پر) یہ اثرات وارد بھی ہوئے تو دب کر رہ گئے اگر اس قصے کو طولانی بنانا ہو تو اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لیکن قصہ کوتاہ یہ کہ by and large پاکستان اس بدعت سے کچھ نہ کچھ تو بچ گیا جو انڈیا میں بوجوہ (وجوہات بے شمار تھیں لیکن ان میں سب سے بڑی وجہ گروپ بندی تھی) ایک عرصے تک اردو ادب کی فضا کو مکدر کرتی رہیں۔
پاکستان کی صورت حال کے بارے میں یہ لکھ کر میں عہدہ برا توہو گیا ہوں لیکن میرے پاس اس وقت اس امر کے ثبوت کے لیے کوئی بھی سند نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ بہر حال historical hindsight کے طفیل مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی دو یا تین وجوہ صریحاً دیکھی جا سکتی ہیں۔ایک تو عسکری (یا سِویلین بھی!) آمرانہ ادوار میں شاعر کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ ترسیل کی سطح پر اگر صاف صاف نہ بھی لکھا جا سکے تو غزل کے پرانے، بارہا آزمودہ، استعاروں سے کام چلا کر جبر و تحدید و اکراہ کی مذمت کی جائے۔ جیل کی اسیری تو صرف چند اہل ِ قلم کو ہی میسّر ہوئی لیکن ایک یا دو پوری نسلیں زنداں،حبس، قفس، زنجیر، ہتھکڑی، بیڑی، قدغن، وغیرہ کے باصری استعاروں سے کام چلا کر غزلیہ یا نظمیہ ادب تخلیق کرتی رہیں۔ انہیں وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اس ذہنی عیاشی کو، اور نہ سہی، تو ’وقت کٹی‘ کا مشغلہ سمجھ کر ہی انڈیا کی’جدیدیت‘کی ہی کسی حد تک تقلیدکریں۔پاکستان میں اسProtest Literature کو کئی نام دیے گئے۔ لیکن سب سے زیادہ موزوں نام شاید ”مزاحمتی ادب“ تھا۔ پرانے ترقی پسندوں میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر لکھا ان میں فیض تو تھے ہی، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، جوش، جون ایلیا، جوہر میر، خاطر غزنوی، تاج سعید،ظہیر کاشمیری (بہت سے نام بھول گیا ہوں) وغیرہ بھی شامل تھے اور کچھ دیگر اہم نام بھی تھے۔
ساقی ؔ فاروقی جیسے غیر سیاسی شاعر بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔انہوں نے بھی اس میں اپنا تعاون ایک مختصر، مگر بھرپور نظم ”سوگ نگر ۸۳ء“ کے عنوان سے لکھ کر دیا۔ یہ نظم اس نے لندن میں مجھے سنائی بھی تھی اور آج تک مجھے زبانی یاد ہے۔ ”چوک چوک خامشی کھڑی ہوئی / جس کے بند کان میں / ایک سبز خوف کے / سرخ زہر میں بجھی / زر د زرد بالیاں پڑی ہوئیں / خون پوش راستے / راستوں میں سولیاں گڑی ہوئیں / رات کے طلسم سے / لوگ اداس بھی نہ تھے / روشنی خیال کے آس پاس بھی نہ تھی۔“
یہ تو ٓ پہلی وجہ تھی، لیکن ایک دوسری سطح پر کچھ اور امور نے بھی شعرا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اس لیے وہ ہندوستانی برانڈ کی اس جدیدیت کی طرف راغب نہ ہو سکے۔ 1970ء کی دہائی میں کچھ ایسے ہوا کہ کراچی سے کچھ شاعرات کی آوازیں اٹھیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ سارے اردو یونیورس کو یہ آوازیں سننے پر مجبور کر دیاتھا۔ ان آوازوں میں محبوباؤں کی لہجے کی سی شیرینی نہیں تھی۔ اثبات و انکار کا زیر و بم نہیں تھا۔ غمزے اور عشوے نہیں تھے۔ ان میں احتجاج تھا۔ یہ ۱حتجاج کی شاعری تھی۔اس میں ”مرد سماج“ کے تئیں رمیدگی تھی، اس کے خلاف نا فرمانی اور سرکشی تھی، غزل کے اکاّ دکاّ اشعار کی روشنی میں تو شاید اس کو ایک تحریک کے طور پر نہ تسلیم کیا جاتا، لیکن نظموں میں صاف اور سیدھی طرح یہ بغاوت کا اعلامیہ تھا۔ا یسے لگتا تھا جیسے ’گھر کی عورت‘ جوکل تک ’دال برابر‘ تھی، اب گلہ، شکوہ اور شکایت سے آگے بڑھ کر ردّ و قدح پر اتر آئی ہے۔منت و سماجت تو کل کا قصہ تھا یہ منفی التماس کی شکل بھی نہیں تھی۔
اس وقت کے ادبی مورخین نے کچھ عرصہ تک تواس سیناریو کو ایک جذباتی، ہنگامی اور عارضی phenomenon سمجھ کر در گذر کیا، لیکن بہت سی نظمیں جو ”من و تو“ سلسلے کی تھیں، اظہار نا پسندیدگی سے چل کر، حیل و حجّت اور اعتراض تک پہنچتی تھیں۔ کہیں ان میں الحاداور عدم تقلید تھی، کہیں تکرار اور نکتہ چینی، کہیں تفرقہ یا عزلت گزینی تھی، تو کہیں بغاوت کا علم لہراتے ہوئے غیض و غضب کے نعرے۔پھر یوں ہوا کہ شاعرات کا یہ ایک غیر منظم قافلہ ایک مخصوص سمت کی طرف چل پڑا اور اس نے سندھ اور پنجاب کی شاعرات کو بھی اپنے جلو میں لے لیا۔اس تحریک کو ”نسائی شاعری“ (انٹرنیشنل سیاق و سباق میں ایک فضول اصطلاح) کا نام دیا گیا۔ ان آوازوں میں محبوباؤں کی سی نرمی یا شوخی نہیں تھی۔ زہر میں بجھے ہوئے تیر تھے۔ غمزے اور شکوے نہیں تھے، بے حد درُشت لہجے میں پدر ی سماج کے خلاف جنگ کا اعلان تھا۔ادبی مورخ تقریباً سبھی مرد تھے۔ انہوں نے جیسے زیر لب مسکرا کر، اسے ایک وقتی اور لمحاتی ہیجان سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ لیکن کچھ آوازیں اتنی جھلّاہٹ، پیچ و تاب اور درشت تھیں اور شورہ پشتی کے سامنے کے الفاظ کے علاوہ امیجری، تشبیہہ، استعارہ میں بھی عدم مطابقت کا اونچا لہجہ اختیار کیے ہوئے تھیں کہ آخرش ان کو بھی اسے ایک تحریک کی صورت میں دیکھنا پڑا۔ ابویت کو ہمیشہ ربویت کے برابر سمجھا گیا ہے۔ رب البیت اور سر براہ خاندان میں فرق صرف اس دنیا اور اُس دنیا کا ہے۔ ابو البشر، آدم، پدر، بابا، بابل، جد امجد وغیرہ سب الفاظ پدری سماج کے ہی سمبل ہیں۔
مجھے علم نہیں ہے کہ یہ سب شاعرات تاریخ کی سطح پر اس سچ سے ایسے ہی آگاہ تھیں جیسے کہ میں یہاں تحریرکر رہا ہوں لیکن ان کی شاعری میں جو موضوعات اور مضامین تھے اور جس طرز تخاطب میں مردوں کو مخاطب کیا گیا تھا اور جس قسم کے عنوانات وہ اپنی نظموں کو دے رہی تھیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس حقیقت کا انہیں احساس تھا کہ جس سماج میں وہ پل رہی ہیں وہاں مرد کی فوقیت مسّلم ہے، عورت ذیلی ہے، نا برابر ہے، آدھی ہے، کمزور ہے، مادر علمی ہے، مادرِ رضاعی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ پاؤں کی جوتی بھی ہے، جسے Honour Killing کے پدری ضابطے کے تحت قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ انڈیا میں یہ تحریک بہت پہلے ہندی میں ”دلِت کاویہ“ کی ایک شاخ کے طور پر ”پُرُش پردھان“ یعنی male dominated سماج کے خلاف آ چکی تھی۔پاکستان میں اس نے ایک اور نوعیت اختیار کی، جسے ”آدھی گواہی“ اور ”طلاق طلاق طلاق“ کے پر معنی الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ یعنی جو موضوعات منتخب کیے جا رہے تھے سب مسلم معاشرے کے حوالے سے پدر ی سماج کو ہدف بنا رہے تھے۔…..یہ تحریک کبھی تنظیم کی شکل نہ لے سکی، لیکن آج 1988 میں بھی یہ اتنی ہی طاقتور ہے،جتنی شروع میں تھی، میں سمجھتا ہوں کہ ان دو اجتماعی pre-occupations کی وجہ سے ہی ”بھارتی جدیدیت“ بھارت میں ہی سمٹ کر رہ گئی اور پاکستان میں اپنے قدم نہ جما سکی۔
۰۰۰
(ٖضروری نوٹ۔یہ اقتباسات میری ڈائری کی نقول ہیں۔ میری ڈائری کے اس اندراج کے آخر میں درج ہے۔” شروع کے یورپی منظر نامے کے لیے میں نے اپنے کلاس رُوم لیکچر نوٹس سے خاطر خواہ مدد لی۔“ دیر نوشت کے طور پر یہاں یہ لکھنا ضروری ہے کہ کلاس روم لیکچر نوٹس کے لیے میں کئی Source Books، سے جن میں انسائکلوپیڈیا بھی شامل تھے، میں ہو بہو اقتباسات لکھ لیتا تھا تا کہ اپنی پوسٹ گریجوایٹ کلاسز کے طلبہ کو حوالہ جات اور کتابیات سے آگاہ کر سکوں۔ عین ممکن ہے کہ اس”رائٹ اپ“ میں کچھ تاریخی حوالہ جات من وعن کسی Source Book سے لیے گئے ہوں اور انجانے میں ہی مجھے سرقہ کا ملزم نہ گردانا جائے۔اتنے برسوں کے بعد ا ب ان کی نشان دہی میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ س۔پ۔آ)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں