تانیثیت اور اردو تانیثی ادب/پروفیسر فضل تنہا غرشین

تانیثی ادب سے مراد وہ ادب ہے جس میں خواتین کے سیاسی، معاشی، معاشرتی و دیگر جملہ حقوق کے متعلق اظہارِ خیال کیا گیا ہو۔ تانیثی ادب کا آغاز سب سے پہلے مغرب میں انقلاب فرانس اور صنعتی انقلاب کے آنے سے ہُوا۔ اٹھارہویں صدی میں Enlightenment کے دور میں خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ 1790 میں ایڈمنڈ برک نے ایک کتاب A vindication of the right of men لکھی۔ جس کے جواب میں 1792 میں میری وول اسٹون کرافٹ نے A vindication of the right of women لکھی۔ اس کے بعد اسی تناظر میں ورجینیا وولف نے A room of ones own اور سیمون دی بووار نے The second sea لکھی۔ مشرق میں اس تحریک کو بیسویں صدی میں مقبولیت حاصل ہوئی۔

تانیثی ادب عورت کی غلامی، مقامی و مذہبی رسوم، جنسی تفریق، سماجی جبر اور معاشی ناہمواری کے خلاف ایک موثر ہتھیار ہے۔ عورتوں کو بہ طور تحفہ، کنیز، لونڈی، مچلکہ یا زر ضمانت استعمال کیا جاتا تھا، مگر تانیثی ادب نے عورتوں کو عدلیہ، پارلیمنٹ، میڈیا، آرمی اور دیگر شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا قابل بنایا۔ تانیثیت کی چار لہریں ہیں:
ماقبل جدید، جدید، مابعد جدید اور معاصر دور۔
پہلا دور عورتوں کی مجموعی غلامی کے خلاف وجود میں آیا ہے۔ دوسرا دور دوسری جنگ عظیم کے بعد یعنی 1960 سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں عورتوں کی خانہ نشینی، خانگی زندگی، توالد و تناسل، گھریلو تشدد، عصمت دری، طلاق، مہر اور پدرسری نظام کے خلاف آواز ہے۔ یہ دور انفرادی آزادی کا ترجمان ہے۔ تیسرے دور کا آغاز 1990 سے ہوتا ہے، جس میں عورتوں کا لسانی، تمدنی، سماجی، مذہبی اور سیاسی تشخص پیدا کرنے کی جستجو ہے۔ جب کہ چوتھا دور 2008 سے شروع ہوتا ہے جس سے مراد معاصر دور ہے۔ اس میں عورت کا سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا ہے۔

4000 ق م آثارِ قدیمہ سے دریافت ہونے والی شاعری اور فنی نمونوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کی شاعری کا اصل محرک و ماخذ عورت ہی ہے، جس میں ایرک یعنی عراق کے جابر و عیاش بادشاہ گلگاش کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔ 5000 ق م مسیحی شاعرہ گشت اننا اس امر کا ثبوت ہے کہ ادب، شاعری اور غنائیت میں عورتوں کو کمال درجہ مہارت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ عربی شاعرہ خنساء، کشمیری شاعرہ حبہ خاتون، ہندی شاعرہ ساورا، انگریزی شاعرہ جین آسٹن، مغل شاعرہ زیب النساء اور رابعہ خضداری وغیرہ نے صدی بہ صدی تانیثی ادب میں اپنا لوہا منوایا ہے۔
اردو ادب کا دامن تانیثیت کے لیے ہمیشہ موزوں اور کھلا رہا ہے۔ پدرانہ تسلط اور مشرقیت تانیثیت کی راہ میں رکاوٹ رہی ہے۔ اردو غزل کی دنیا میں تانیثیت کی بنیاد ماہ لقا بائی چندا، سیدہ خیرالنساء، آمنہ خاتون، عصمت آراء اور بیگم عصمت لکھنوی کے ہاتھوں ڈالی گئی ہے۔ سرسید احمد خان، ڈپٹی نذیر احمد، حالی اور آزاد نے بھی اردو تانیثی ادب میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول، راشد الخیری کا رسالہ “عصمت”، حالی کی نظمیں “چپ کی داد، بیوہ کی مناجات”، رشید جہاں کا “دلی کی سیر”، عصمت کا “معصومہ” اور افسانوی مجموعہ انگارے اردو تانیثی ادب کے نقش اول ہیں۔ ترقی پسند افسانوی دور میں چوتھی کا جوڑا، ننھی کی نانی، بیٹی داماد، ایک شوہر کی خاطر اور لاجونتی مشہور تانیثی افسانے ہیں۔ جمیلہ ہاشمی، ذکیہ مشہدی، قمر جہان اور طاہرہ اقبال چند مشہور تانیثی خاتون لکھاری ہیں۔

تانیثی غزل میں ادا جعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، عذرا عباس، مسرت شاہین، شائستہ یوسف، ممتاز مرزا، شبنم شکیل، جہاں آرا تبسم، حمیرا صدف اور حمیدہ شاہین وغيرہ نے عورتوں کو مزاحمت سے آشنا کیا، عورت کی ازسرنو تشکیل کی اور عورتوں کو چاردیواری اور مجازی خدا کے چنگل سے آزادی دی۔ اردو تانیثی اسلوب میں خوداعتمادی، خود شناسی، للکار، اختلاف، تنقید، مزاحمت، زندہ رہنے کی لپک، استحصال کے خلاف آواز، اور خودی پر یقین موجود ہے۔

مشرقی مرد رُخی سماج میں عورت آدھا انسان ہے۔ تخلیقی اور فنی دنیا سے عورت غائب ہے۔ معاشرتی لحاظ سے عورت خود مکتفی نہیں، بلکہ ایک طفیلی وجود ہے۔ عورت ماحول و دنیا سازی میں شراکت نہیں رکھتی۔ عورت غزل کی جان ہے، مگر غزل گو نہیں۔ روح جشن ہے، مگر جشن کی منتظم نہیں۔ تحفہ ہے، کنیز ہے، مگر ملکہ نہیں۔ جسم و جمال کا ڈھیر ہے، مگر عقل و دانش سے عاری ہے۔ اور اختیاری ہیں، مگر خود مختار نہیں۔

اردو تانیثی ادب نے عورت کی صحیح تفہیم افسانہ نویسی کی دنیا میں تجریدیت، جنسیت، علامت نگاری اور تحلیل نفسی کے ذریعے کی۔ بانو قدسیہ، عصمت چغتائی، زاہدہ حنا، امرتا پریتم، اروندھتی رائے، الطاف فاطمہ، زیتون بانو اور طاہرہ احساس جتک و دیگر نے عورتوں کے مسائل اور ان کا حل افسانوی زبان میں پیش کیا ہے۔ یوں تو منشی پریم چند، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، منٹو اور احمد ندیم قاسمی نے بھی نانیثیت سے متعلقہ موضوعات پر لاتعداد اور لافانی تحریریں لکھی ہیں۔

اردو مثنوی، مرثیہ، گیت اور خصوصاً ڈراما نگاری عورت کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ اندرسبھا میں عورت کو مرد سے کم تر دکھایا گیا ہے۔ رستم و سہراب میں تہمینہ کو بہادری اور دانش کا پیکر دکھایا گیا ہے۔ انارکلی میں عورتوں کا استحصال دکھایا گیا ہے۔عصمت چغتائی نے دھانی بانکپن میں تقسیم سے متاثرہ لڑکیوں کا ذکر کیا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی نے “بےجان چیزیں” میں مردوں کا نشےمیں چور اور طاقت   مغرور ہونے کا عورتوں پر مہلک اثرات کا ذکر ہے۔ مرزا ادیب، امجد اسلام امجد، مستنصر حسین تارڑ، اصغر ندیم سید اور اشفاق احمد نے مردوں کا عورتوں پر ظلم اور ان کے بچوں پر پڑنے والے گہرے نفسیاتی اثرات کا تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے۔ اردو ڈراما نگاری نے تانیثی ادب میں ایک نئی روح ڈالی ہے۔ اردو تانیثی ڈراما نگاری نے عورتوں کی نفسیات، گھریلو زندگی اور گھریلو تشدد کو بےنقاب کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجموعی طور پر اردو تانیثی ادب نے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق، معاشی خوش حالی، سیاسی آزادی، سماجی خودمختاری اور اپنی انفرادی شناخت برقرار رکھنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ اردو ادب مرد اور خواتین دونوں کی ترقی، خوش حالی اور آزادی پر یک ساں یقین رکھتا ہے اور اردو ادب نے برصغیر پاک و ہند کی عورتوں کو جینے کا سلیقہ اور جرات بھی عطا کیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص عورتوں کی ترقی اور خوش حالی اردو تانیثی ادب کی مرہون منت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply