رویوں کی گانٹھیں/ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

اچھے دنوں میں واہ واہ کرنے والے بُرے دنوں میں تذلیل کیوں شروع کر دیتے ہیں؟
ہمارے رویے دوسروں کے لیے اتنے کڑوے اور زہریلے کیوں ہیں کہ کسی کی ذرا سی ناکامی پہ ہم اس کو ذلیل کرنے میں خوشی محسوس کرنے لگتے ہیں۔

ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو اکثر لوگوں کے رویے ایسے ہی ہیں کہ وہ گندی مکھی کی طرح دوسروں کی خامیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کا ذکر کر کے دوسروں کے لیے شرمندگی کا سامان پیدا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ دوسروں کے کارنامے پہ ان کی تعریف نہیں کرتے ، ان کی اچھائیوں کو تسلیم نہیں کرتے لیکن ان کی ناکامیوں پہ نشتر برسانے کو تیار رہتے ہیں۔

بابر اعظم بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ ہم نے اپنے ہوش میں جو کرکٹ دیکھی ہے، اس میں بابر اعظم پہلا پاکستانی بیٹسمین ہے جو دنیا کے بہترین بلے بازوں کی فہرست میں شامل ہو رہا ہے۔ پہلا پاکستانی بلے باز ہے جو تسلسل سے سکور کر رہا ہے، طرح طرح کے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ جو ہر فارمیٹ کی رینکنگ میں ٹاپ کی پوزیشن حاصل کر رہا ہے۔ لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر میچ میں سنچری کرے، ہر گیند پہ چھکا لگائے۔ پاکستان کو ہر میچ میں کامیابی دلوائے۔ یہ خواہش تو اچھی ہے لیکن کیا یہ غیر انسانی توقعات نہیں ہیں؟

ہم اسے انسانی مارجن دے کر اس کی ناکامی کو تسلیم کرنے پہ تیار ہی نہیں۔ ہمیں اس کے بنائے گئے ریکارڈز بھول جاتے ہیں لیکن ہم اس کی کمزوریوں پہ اس کی تذلیل کرنا یاد رکھتے ہیں۔ اس کی ناکامیوں پہ اس کا مذاق اڑانا جاری رکھتے ہیں۔

بابر اعظم ویرات کوہلی نہیں ہے نہ ہی وہ کبھی ویرات کوہلی بنے گا۔ بابر کی اپنی کامیابیاں اور ناکامیاں ہوں گی، کوہلی کی اپنی کامیابیاں اور ناکامیاں ہوں گی۔ ہم دونوں کا موازنہ کرتے وقت جہاں جہاں بابر کا پلڑا بھاری ہوتا ہے، وہاں اس کی تعریف نہیں کرتے لیکن جہاں کوہلی کا پلڑا بھاری ہوتا ہے وہاں بابر کی تذلیل ضرور کرتے ہیں۔ حالانکہ بابر اعظم نے خود کو کبھی کوہلی سے بہتر نہیں کہا۔ ہم نے خود ایسی امیدیں لگائیں کہ وہ کوہلی سے بڑا کھلاڑی بنے گا اور جب وہ امیدیں نہیں پوری ہو رہیں تو ہم نے خود ہی بابر کو قصوروار قرار دے کر اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔

اس ورلڈکپ میں ان دونوں کو موازنہ کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ اس ورلڈکپ سے پہلے کوہلی کتنے ون ڈے ورلڈکپ کپ کھیل چکا ہے اور ان میں اس کی پرفارمنس کیسی رہی ہے۔ اس ورلڈ کپ سے پہلے کوہلی ون ڈے ورلڈکپس میں چیز کرتے ہوئے کتنی سنچریاں بنا چکا ہے یہ تو کسی کو نہیں معلوم لیکن سب کو بابر کی ناکامی ضرور معلوم ہے۔

کوہلی موجودہ دور کا عظیم ترین بلے باز ہے ، بطورِ کھلاڑی اسے کرکٹ میں ہمیشہ لیجنڈ کا درجہ ہی ملے گا۔ ہم بطورِ کرکٹ شائقین اس کا کھیل انجوائے کرتے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن ہم بابر کو کوہلی نہیں بنا سکتے، ہمیں بابر کو بابر ہی رہنے دینا چاہیے۔ وہ کوہلی سے اچھا کھیلے یا برا، اس کی تعریف یا اس پہ تنقید بطورِ بابر کرنی چاہیے، کوہلی کے موازنے میں نہیں۔

بابر ہمارے دور کا پاکستان کا عظیم ترین بلے باز ہے۔ وہ جتنی شاندار پرفارمنس دے چکا ہے، جتنے ریکارڈز بنا چکا ہے وہ اب مزید (خدانخواستہ) کچھ نہ بھی کرے تو پاکستانی کرکٹ میں لیجنڈ بلے باز کے طور پہ ہی مانا جائے گا۔ کوئی بھی کرکٹ شائق اس کی عظمت سے انکار نہیں کر سکتا۔

اور ابھی وقت باقی ہے، ابھی بابر مزید بہت سارے ریکارڈز بنا سکتا ہے۔ ابھی اپنے اندر مزید بہتری لا سکتا ہے۔ اپنی عظمت میں بہت اضافہ کر سکتا ہے۔ لیکن خدانخواستہ وہ ناکام بھی ہو تو اس کی کامیابیوں کو بھول کر اس کی تذلیل کرنا نہ شروع کر دیا کریں۔ وہ انسان ہے، اس نے ناکام بھی ہونا ہے اور کامیاب بھی، اس سے غیر انسانی توقعات مت لگائیں۔

امید ہے بابر دوبارہ سے تسلسل کے ساتھ بہترین پرفارمنس دینا شروع کر دے گا اور کم از کم پاکستانی بلے بازوں کے تمام ریکارڈ توڑے گا۔ ویسے بھی اس کی ناکامیوں کے باوجود وہ آؤٹ آف فارم نہیں لگ رہا، وہ بڑی اچھی شاٹس کھیلتے ہوئے وکٹ گنوا رہا ہے۔ تو امید ہے وہ ان ناکامیوں سے جلدی جان چھڑا کر پاکستان کا نام روشن کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے کھلاڑیوں کو اپنانا شروع کریں۔ دوسروں کو ہر حال میں برتر سمجھنا احساسِ کمتری کی نشانی ہے ، اس سے نکل کر اپنے کھلاڑیوں کی اچھی پرفارمنس پہ تعریف کیا کریں۔ بری پرفارمنس پہ تنقید کیا کریں لیکن ان کی بلاوجہ تذلیل مت کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply