محرم ہی پہلا اسلامی مہینہ کیوں ؟۔۔سلمان اسلم

آج ہم میں سے  اکثریت اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ غیر مسلم یا مغربی کلینڈر جس کو قمر ی مہینے بھی کہتے ہیں کے نام   کیسے رکھے گئے ۔ مثلا جنور ی، فرور ی وغیرہ وغیر۔۔لیکن آج  ہم میں سے شاید ہی   کسی کو اسلامی مہینوں کے   نام بھی ترتیب وار یاد ہوں ،انکی تاریخ        جاننا تو     دو ر کی بات ہے۔بحیثیت مسلمان ہمیں یہ سب معلوم ہونا چاہیے۔

بات  کرتے ہیں  ” اسلامی مہینہ ،محرم” کی۔” محرم ” اسلامی ہجری سال یا سال “جو” بھی کہلاتا ہے میں پہلا مہینہ کیسے  قرار پایا              ؟          آج ” محرم” کے پیچھے موجود فلسفہ پہ اک نظر ڈالتے ہیں۔ مسجد الحرام کے نام مبارکہ سے ہر مسلمان واقف ہے۔ مسجد الحرام کعبتہ اللہ کو کہتے ہیں۔ جب بھی مسلمان کعبتہ اللہ کے حدود مسجد الحرام میں داخل ہو تے ہیں تو وہاں بہت سار ی پابندیاں لا گو ہو جاتی ہیں۔ الگ مخصوص قسم کا لباس، کسی کی  گر ی پڑ ی چیز کو اٹھانا نہیں ، کسی کو تکلیف یا ایذاء نہیں دینا، کسی سے فحش کلامی نہیں کرنی ، کسی سے غصے میں بات نہیں کرنی۔ یہ سار ی چیزیں حرام  کردی جاتی ہیں۔ فقط اسکے تقدس او ر احترام کے سبب۔ اسی طرح ہمارے گھروں کو بھی حرم کہا جاتا ہے۔ یعنی وہاں بھی ہر کسی کے داخلے پہ پابندی ہوگی۔ کوئی ہماری  اجازت کے بغیر ہمارے حرم میں داخل نہیں ہو سکتا۔ بالکل اسی طرح محرم کامہینہ ہے جس میں کچھ چیزیں حرام کر دی جاتی ہیں، محترم کر دی جاتی ہیں۔ اسی حرام کر نے کی وجہ سے ہی اسکا نام ” محرم” پڑ گیا ہے۔ اب وہ کونسی چیزیں  ہیں جو چاند کے طلوع ہوتے  ہی حرام و محترم کر دی جاتی ہیں۔

جان: دوسروں کی جان، مال اور ناموس ہم پر حرام ہو کر محترم کردی جاتی ہیں۔ اسلام ہمیں اس چیز کا درس دیتا ہے  کہ شروع ہی سے آپ کے پروگرام میں یہ تین چیزیں حرام ا و ر کتنی محترم ہونی چاہئیں،  پورا سال صرف اک مہینے کے چند مخصوص دنوں کے لیے نہیں۔ او ر یہ حرمت صرف مسلمان کے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے حوالے سے کر دی گئی ہے۔ کیونکہ اسلام آفاقیت کا پیغام لیے ہوا ہے۔ کیونکہ ا سی ہی دن خالق کائنات پور ی دنیا کو اکٹھا کرے گا او ر حساب کتاب کا معاملہ طے کرے گا۔ اب یہ جو دوسروں کی جان آپ پر حرام کر دی گئی ہے اسکے حوالے سے قرآن کا پیغام سنیں۔ اللہ فرماتا ہے قرآن میں ” جس نے اک انسان کو بچایا اس نے سار ی انسانیت کو بچایا اور جس نے اک جان لی تو اس نے سار ی انسانیت کی جان لی۔ ” محبوب پاک علیہ والسلام کی زندگی پہ نظر ڈالیں، آپ علیہ الصلوات والسلام نے کتنے  غزوات لڑے، لیکن دونوں طرف سے ملا کے 1064 سے زیادہ شہادتیں یا ہلا کتیں نہیں ہوئیں۔ او ر اسکے علاوہ مستورات، بچوں، بوڑھوں، بیمار او ر معذوروں کے جانوں کی حفاظت کی ذمہ دا ری بھی لی گئی تھی۔ کیونکہ اسکی باقاعدہ مجاہدین کو وعظ فرمائی تھیں کہ ان کے جان کی حفاظت رکھنی ہے انکو کچھ نہیں کہنا۔اور پھر اس سے اندازہ لگائیں ” کہ اک جنگ میں اسامہ زید بن حارث رضی اللہ عنہ آپ علیہ الصلوات والسلام کے پو تے بنتے ہیں یعنی منہ بو لے بیٹے زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔ اس نے اک شخص کو قتل کیا باوجود اسکے کہ اس شخص نے کلمہ پڑھ لیا۔ تو آپ علیہ الصلوات والسلام نے اسکی دیعت بھی دلوائی او ر اسامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھااسامہ تم نے اسے قتل کیوں کیا جبکہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا۔ ا سامہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس نے ڈر کے مارے پڑھ لیا۔ تو محبوب پا ک گویا ہو ئے اے اسامہ اب آپ نے دلوں کا حال بھی پڑھناشرو ع کردیا ۔ آ پ کو اسکی نیت کا بھی پتہ لگ گیا۔ اللہ کے لیے تو جان لینے کی اجازت دی گئی ہے مگر اس میں تمہارا اگر کوئی اپنا مفاد شامل ہو تو پھر قاتل کہلایا جائے گا او ر اسی ہی سزا کا حقدار بھی ٹھہرایاجائے گا جو سب کے لیے مقررکی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اگر اک طرف کعبہ کو ڈھایا جا رہا ہواور
دوسری طرف انسانی جان پہ بنی ہو تو فرمایا میں انسانی جان کو بچانے کے لیے بڑھوں گا۔ اس سے دوسر ی جان کے احترام وتقدس کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے۔

مال: دوسری چیز محرم کا یہ مہینہ مال کے تخفظ کادرس دیتا ہے۔ کہ ہم کسی دوسر ے کے مال میں بغیر اجازت کے مداخلت نہ کریں۔ اسکے مرضی کے بغیر اسکا مال استعمال نہ کریں۔کیونکہ مال انسان کو بہت پریشان اور بے چین رکھتاہے۔ جب کوئی اس مال کو چھینتا ہے، کھاتا ہے، ضائع کرتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے تو یہ انتہائی کرب کا احساس انسان کے اندر پیدا کرتا ہے۔ اس لیے قرآن نے اسکے لیے لفظ “حرام ” کا استعمال فرمایا ہے۔ کہ کسی دوسرے کا مال اسکے مرضی، کسی معاہدے کے بغیر آپ پہ حرام قرار دیا۔ او ر پھر خاص کر قرآں یتیموں کے مال کے بارے میں بے جا تصرف، بے جا ضائع کر نے سے منع فرمایا ہے۔

ناموس: تیسری چیز اس مہینے میں حرام “ناموس” کی جاتی ہے۔ او ر کسی بھی انسان کی ناموس سب سے پہلے اسکی عزت نفس ہے۔ یعنی کسی کی عیب جوئی نہیں کرنی، تمسخر نہ اڑنا، تنقید نہیں کرنی، معترض نہیں ہونا، احترام دینا ہے دوسرے کو تا کہ اسکی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ اسکی پہچان، اسکی شہرت، اسکے نظر یے کی مخالفت، ان سب کو داغ دار نہیں کرنا ہے۔ یہ سب ناموس میں آتا ہے۔کیونکہ ھر انسان عقائد، مسلک،نظریات،مذہب کواپنی ناموس گردانتاہے۔
ذات، نسل، علاقے، وطن، مذہب اور سماجی ومعاشی معیار سے ہو سب کے سب برابر ہیں۔ اور محرم کے شروع ہو تے ہی ہم سب پہ اک دوسرے کی یہ تینوں چیزیں حرام قرار دی جاتی ہیں۔۔

اب اسکو اک اور جہت سے بھی سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں۔محرم اسلامی مہینوں میں پہلا مہینہ ہے او ر آخری مہینہ ذی الحج ہے۔ جس طرح ہم عصری نظام میں سال کے اختتام پہ   سارے حساب و کتاب کھاتے چیک کرتے   ہیں۔ اسی طر ح ذی الحج کے مہینہ میں جب ہم حرم پاک میں جاتے ہیں بیت اللہ کا طواف کر تے ہیں تو صدا بلند کر تے ہیں”لبیک اللھم لبیک” کہ اے پروردگار حاضر ہیں ہم حاضر ہیں۔ تو یہ دراصل ہم سال کے اس آخر میں اپنے پیچھے پورے سال میں کیے جانے والے اعمال کے حساب و کتاب کی فائل جمع کرواتے ہیں۔

ذرا غو ر توفرمائیں۔۔۔۔خطبہ حجتہ الودآع میں مسجد نمرہ دیوار پہ محبوب پاک علیہ الصلواة والسلام تشریف فرما تھے او ر اصحاب رسول آرہے ہیں ۔ اس سے پہلے مکہ و حرم نے انسانوں کا اتنا رش کبھی نہیں دیکھا تھا کم و بیش ایک لا کھ چوبیس ہزار لوگوں نے حج اداکیا۔ سب لوگ اک اک کرکے آرہے ہیں اور اپنے مسئلے بیان کر رہے ہیں۔ اے اللہ کے رسول میرا یہ رکن رہ گیا ، فرمایا ترا حج قبول ہے۔ دوسرا آیا اے اللہ کے حبیب مرایہ رکن چھوٹ گیا فرمایا ترا بھی حج قبول ہوگیا۔ اس طرح تمام وہ لوگ جوخامیاں بیان فرمارہے تھے تو بہت سے لوگوں کے بہت سارے ارکان رہ گئے تھے۔ تو محبوب پاک نے فرمایا تم سب کا حج قبول ہوا ماسوآ اسکے جسکے ہاتھ اور زبان سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو۔ یعنی اگر ارکان دین میں کوئی کمی و کجی رہ بھی جائے مگر تم سے مخلوق خدا امان میں رہے تو باری تعالی آپکی وہ کمی و کجی پور ی فرما لیتا ہے۔تو دین میں ایمانیات، عبادآت آو ر عقائد کیبعد دوسرآ آہم جز دوسروں کا تقدس و احترام ہے۔ اگر ہم اسکو اختیار نہیں کرینگے او ر محرم کی مکمل طو ر پر پاسدار ی نہیں کرینگے تو کیا ہم مومن بن سکتے ہیں ؟ متقی بن سکتے ہیں ؟ کیا ہم اللہ کے فرمانبرداروں میں شمار ہو سکتے ہیں ؟ او ر آج اپنی معاشرتی زندگی میں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کیا ہم اک دوسرے کا تقدس و احترام کر تے ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اک بات آسان الفاظ اور آسان فہم انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم راستے سے گز ر رہے ہوں او ر راستے میں پڑا کاغذ ملے اس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہو تو یقینا ہم ا ک دم سے نیچے جھک کر اٹھائیں گے آحترا م بجا لا ئیں گے ا و ر کسی اونچی جگہ صاف ستھری یا پھر جیب میں رکھ لیں گے۔ مگر عجیب تعجب بھرآاہمارارویہ او ر یہ دورخی دیکھو کہ اک مسلمان بھائی کے جسکے دل پہ کلمہ طیبہ لکھا جا چکا ہے اور ہم اسکے جان و مال و ناموس کے در پے ہیں۔ یہ کتنا شرمناک او ر گھٹیارویہ ہے کہ ہم اپنے دوسر ے مسلمان بھائی کے جان و مال وناموس کی درپے اس لیے ہیں کہ فقط اسکے نظریات، مسلک،عقیدہ، نقط نظر ہم سے امتزاج نہیں رکھتے، اختلاف کا پہلو نکلتا ہے۔ یا پھر فقط دو فٹ زمین پر، چند رو پے سکوں کی خاطر یا معاشر ے میں اپنی دھاک بٹھانے و ناک بچانے کی آڑ میں غیرت و مردانگی کی دکھلاوے کی خاطر اسکے درپے رہتے ہیں۔ کیاایسے میں ہم کبھی سکھی رہ سکتے ہیں ؟ کیا ہم اللہ کے امتحان میں سرخر و ہو سکتے ہیں۔؟ یاد رکھیں اگر ہم اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے جان و مال و ناموس کی حفاظت و احترام نہیں کریں گے تو اللہ ہمار ی عبادتیں و دعائیں ہر گز قبول نہیں فرمائے گا۔ جب تک ہم محرم کی قید سے نکل کر سارا سال اللہ او ر رسول پاک مبارک علیہ الصلوا ت والسلام کے مقر ر کردہ حر م و محترم کے حدود و قیود کا خیال نہیں رکھیں گے تو نہ انفرادی طو ر پر اور نہ اجتماعی طو ر پر حتی کہ پورے معاشرے میں کبھی سکون و خوشحالی پیدا نہیں ہوسکتی۔
اللہ کرے کہ یہ باتیں ہماری سمجھ و عمل میں آجائے ۔۔۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply