میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(25)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

گزشتہ اقساط کا لنک

میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ -گوہر تاج

25ویں قسط

میرے جانثار گزر گئے

باوجود دگرگوں ملکی حالات کے ہماری زندگیوں میں کچھ ٹھہراؤ اور بہتری پیدا ہورہی تھی ۔ والدین نے ہمارے مستقبل کے لیے جتنی محنت اور قربانیاں دی تھیں ان کے ایثارکے درخت نے پھل دینا شروع کردیا تھا۔ لیکن اب ان کو زندگی کی کڑی مسافت نے نڈھال کر دیا تھا۔

یکم جولائی  ۲۰۰۶ء کو ابّی اچانک بیمار پڑ گئے۔ہم نے ان کو کبھی بیمار ہوتے نہیں دیکھاتھا، ماسوا ذہنی  سٹریس کے، خاص کر میرٹھ کیمپ میں قید کے دوران۔ویسے دیکھا جاۓتو سٹریس ہی سو بیماریوں کی جڑ ہے۔ قید میں ابّی اس  سٹریس کو رہائی  کی امید پہ جھیل گئے تھے لیکن جب آزاد ملک میں بھی قید جیسا  سٹریس ہو تو اس تاریکی میں دم گھٹنے لگتا ہے۔ شاید ابّی اسی مایوسی سے نبرد آزما تھے ۔البتہ اتنا ضرور تھا کہ وہ موت سے ایک سال قبل الزائمر کے مرض میں مبتلا ہوکر کچھ کچھ بھولنے لگے تھے ۔گو نماز کی باقاعدگی اور روزانہ کی چہل قدمی موت سے ایک ماہ قبل تک بھی جاری تھی۔ ایک دن نماز پڑھتے ہوۓ سجدہ میں جاتے وقت جاءنماز پہ گویا گِر سے گئے ۔ پھرانہیں بستر پہ لیٹا دیا۔باوجود مختلف لیب کے ٹیسٹ کے ،انکی بیماری کی آخری دم تک کوئی  تشخیص نہ ہوسکی ۔ بالآخر 5 اگست ۲۰۰۶ء کو ابّی نے ہمیشہ کے لیےآنکھیں موند لیں۔اللہ ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس عطا فرماۓ۔آمین!

کراچی کے حالات بدستور خراب ہوتے جارہے تھے۔ ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء میں لسانی اورسیاسی جماعتوں کے بیچ سنگین نوعیت کے واقعہ کے بعد اسی سال بینظیر بھٹو کےقتل نے حالات کو خراب تر کردیا۔ ۱۴ مئی کو بیٹی کا او لیول کا امتحان تھا۔ شہرفسادات کی زد میں تھا لیکن ہم متعین سینٹر پہنچے جہاں امتحان بھی ہُوا۔

ایک دفعہ بہت شدید بارش ہورہی تھی ۔ سخت گرمی تھی اور شام سے بجلی غائب تھی ۔ سبھوں کی رات آنکھوں میں کٹ رہی تھی۔ بس اس اندھیری رات میں میری بیٹی کے ذہن میں ایک خیال کوندا۔ اس نےمجھ سے کہا،”ڈیڈی آخر ہم لوگ کسی اور ملک کیوں نہیں جا سکتے؟ “ میرے پاس اس کا کوئی  معقول جواب نہ تھا۔ لیکن پھر بھی میں نےجواب دیا ،” میری عمر پچاس سال کی ہوچکی ہے۔ اس عمر میں کوئی  نوکری تھوڑی ملے گی۔” لیکن سچ تو یہ تھا کہ شہر میں بڑھتے جرائم اور روز کی ہنگامہ آرائی  نے ہمیں یہ سوچنے پہ مجبور کردیا تھا کہ پاکستان سے نکلنے کی راہ تلاش کی جاۓ۔

اب امی بیمار رہنے لگیں تھیں۔کچھ سال قبل انکے گال میں کینسر کی تشخیص کے بعد۲۰۰۳ ء میں سرجری ہوچکی تھی۔جس کے بعد وہ ٹھیک بھی ہوگئیں تھیں لیکن ۲۰۰۷ءمیں یہ مرض دوبارہ عود آیا۔جو پریشان کُن تھا۔لیکن گھر کے باہر آۓ دن کے ہنگامے اورکلینک پہ آکے لوٹ مار کرنے والوں کی بدتمیزیاں، دھمکیاں اور بھتے کا بازار گرم کرنےوالوں نے زندگی بہت دوبھر کردی تھی۔

ایسے حالات میں ایک حادثہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے بیڈروم میں رات ساڑھے آٹھ بجے کےقریب آگ لگ گئی۔میں اس وقت کلینک میں تھا اور میری بیوی عائشہ کلینک کے لیے نکلنےکی تیاری کر رہی تھیں۔ آگ تو خیر بجھ گئی ۔ فائر بریگیڈ  اور محلے والوں نے بہت ساتھ دیا ۔ کوئی  جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن اس آگ میں میری  تمام تعلیمی اسناد ،شناختی کارڈ ، پاسپورٹ، گھر کے کاغذات سب ہی جل کے خاکستر ہوگئے تھے۔ اس طرح ہمیں ایک جگہ سے اپنی شناخت کھو کر دوبارہ پانےاور ایکبار پھر بے شناخت ہوجانےکا سامنا تھا۔ جو ہمارے لیے بہت بڑا سانحہ اور مشکل مرحلہ تھا۔ان تمام اسناد کی نقل بنوانا آسان نہ تھا گو کہیں نہ کہیں اس پریشانی میں ہمارے مریض کام آگئے ۔لیکن اسناد کی نقول نکلوانے کا کام مئی ۲۰۰۹ء میں مکمل ہو پایا ۔

امی کی بیماری دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ بہت حوصلہ مندی سے اپنے مرض سےنمٹ رہیں تھیں۔لیکن کراچی کے حالات خراب تر ہوتے جارہے تھے۔ ایک دن میری کلینک پہ بھتہ لینے والوں نے میری گردن پہ پستول رکھ دی۔ جان تو بچ گئی لیکن وہ فیصلہ کن لمحہ تھا۔ میں جو اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا اگر مار دیا جاتا تو؟ یہی سوچ کےپاکستان چھوڑنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔

سعودی عرب اور عمان جیسے ممالک میں مجھے اور عائشہ کے انٹرویو کے بعد منتخب بھی کرلیا گیا تھا لیکن امی کو اس حالت میں کیسے چھوڑا جاۓ ؟ یہ سوال ایسا تھا کہ ہم نے کسی بھی نوکری کو لینے میں تامل کیا۔ اسی دوران میں نے ایم آر سی جی پی( پارٹ ون) کا امتحان پاس کرلیا۔

ہمارے ایک دوست ڈاکٹر جمیل تھے جو ان حالات سے مایوس  ہو  کر اپنی  کوششوں سےعمان چلے گئے تھے۔ جنوری ۲۰۰۹ء کا زمانہ تھا۔ ایک دن شام کو وہ ہمارے گھر آۓ اور کہا کہ“انور شکیل بھائی  ایک خوشخبری لایا ہوں۔ کینیڈا امیگریشن کے لیے ڈاکٹروں کے لیےفاسٹ ٹریک پروگرام آیا ہے۔ہم لوگ مل کر اپلائی  کرتے ہیں۔” میں نے حامی بھر لی لیکن طےپایا کہ کوئی  امی کو نہیں بتاۓ گا۔گو جلے ہوۓ غائب دستاویزات ابھی تک نہیں بن پاۓتھے۔جو بالآخر مئی ۲۰۰۹ ء تک تیار ہوۓ تو جون میں اپلائی  کر دیا ۔ لیکن میرا اسکورکم تھا لہٰذا اب میرے بجاۓ عائشہ کینیڈا کے امیگریشن کے لیے پرائمری درخواست گزاربنی۔ اس نے امّی سے چُھپ کے امتحان کی تیاری شروع کردی ۔ اکثر امی پوچھتیں بھی کہ عائشہ اب کیا پڑھ رہی ہیں؟ تو ان کو بتایا جاتا کہ ہسپتال کے کیس کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ وہی کر رہی ہیں۔” وہ مطمئن  ہوجاتیں۔

اکیس جون ۲۰۰۹ء میں ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ تھا جو پاکستان نے جیت لیا تھا۔ہماراگھرانہ، بشمول امی یہ میچ ساتھ مل کر دیکھ رہا تھا۔

میچ ختم ہونے کے بعد امی کمرے سے باہر گئیں اور اسکے بعد اچانک ایک زوردار چیز کےگرنے کی آواز آئی  ۔ بھاگے ہوۓ گئے تو دیکھا امی گری ہوئی  تھیں۔ ہمیں اندازہ ہوگیا تھاکہ کولہے کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا ہے۔پہلے سے بیمار امی اب مکمل بستر پہ پڑ گئیں تھیں۔ انہیں اس بات کی فکر رہتی تھی کہ میں اتنی بیمار ہوں اگر اچانک طبعیت بگڑی اور تم دونوں کلینک پہ ہوۓ تو کیا ہوگا؟

خدا کو امی کی اس پریشانی کا اندازہ ہوگا۔جبھی ۱۴ اگست ۲۰۰۹ء کو جب ہم سب چھٹی کی وجہ سے گھر پہ ہی تھے، رات ساڑھے نو بجےامی کی اچانک ہی طبعیت بگڑی ۔ہم سب انکے کمرے ہی میں تھے ۔ انہوں نے عائشہ سے پوچھا”انور کہاں ہیں؟” انہوں نے بتایا۔ “ساتھ ہی کھڑے ہیں۔” امی نے ہاتھ کے اشارے سے اللہ حافظ کیا۔ آخری بار ہمیں اللہ کی حفاظت میں سونپا اور اپنے دائمی سفر پہ چل دیں۔قدم قدم پہ ہماراخیال رکھنے والے والدین اب ہمیشہ کے لیے ساتھ چھوڑ گئے تھے لیکن اتنے سال بیتنےکے بعد بھی انکی یاد نے ساتھ بھلا کب چھوڑا ہے۔

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

ایک اور ہجرت

امی کے انتقال کے بعد کینیڈا کا امیگریشن اپنے عمل میں تھا۔میں نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں الٹرا ساونڈ کا کورس جوائن کرلیا تھا جو دراصل کینیڈاجانے کی تیاری کا ایک حصہ تھا۔ اس وقت مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ میں صبح سات بجے جناح ہسپتال کے لیے نکلتا۔ بارہ بجے دوپہر ملیر کے کلینک پہنچتا، چار بجے گھرواپس آنے کے بعد شام ساڑھے چھ بجے گلستان جوہر کے کلینک اور نو بجے رات ملیر کےکلینک کے بعد واپسی میں رات کا ایک بج جاتا۔اس دوران میرے اور عائشہ دونوں ہی کےساتھ ڈکیتی کی دو وارداتیں اور ہوئیں۔

اگست ۲۰۱۰ میں پڑنے والا رمضان ہمارا پاکستان میں آخری رمضان ثابت ہوا۔اس رمضان ابھی فطرہ کی پرچی نہیں آئی  تھی کہ سات رمضان کو اچانک ہی کلینک کے دروازے پہ لات مار کر میرے کمرے میں چار افرادداخل ہوۓ۔۔ مجھے دوسو پرچیوں کی کتاب دی اور پندرہ ہزار روپے فطرہ کی رقم کامطالبہ کیا۔ اس زمانہ میں فی کس فطرہ پچھتر روپے تھا۔میں نے انکار کیا تو وہ بدتمیزی پہ اتر آۓ۔ جس پر مجھے غصہ آگیا۔ میں نے کہا”مجھے ماردو میرے پیچھے پڑےہوۓ ہو۔ میں فطرے کی وہی رقم دوں گا جو بنتی ہے۔ میں نے اپنے اسٹاف کو کہہ دیا ہےکہ جب یہ مجھے مار دیں تو میرے گھر اطلاع کردینا۔” اس وقت اللہ کو میری جان بچانی تھی سو بچ گئی ،وہ چلے گئے۔وقت آگے بڑھ گیا۔ بڑی بیٹی کی نومبر ۲۰۱۰ میں منگنی ہوگئی۔ جون کی پہلی تاریخ کو ہمارے پاسپورٹ پہ کینیڈا کا ویزہ لگ گیا تھا اور صرف گیارہ دن کے بعد اکیس جون ۲۰۱۱ ء کو ہم کینیڈا کے لیے سوار ہوچکے تھے۔اپنی اگلی ہجرت کا سفر ایک بار پھر نئی امیدوں اور شاید نئے اندیشوں کے ساتھ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply