• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ،وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ
ترجمہ:

خود فریبی کے شکار لوگ

 مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں، کتابو ں اور رسولوں صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے ، موت کے بعد جی اٹھنے ، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ فرقہ ایسے ایمان والوں کو بے وقوف قرار دیتا ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ، ربیع، انس، عبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ سفھاء سفیہ کی جمع ہے جیسے حکماء حکیم کی اور حلماء حلیم کی۔ جاہل، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو سفیہ کہتے ہیں۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت(ولا توتوا السفھاء) الخ بیوقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دے بیٹھو جو تمہارے قیام کا سبب ہیں۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں سفہاء سے مراد عورتیں اور بچے ہیں۔ ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً حصر کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی؟”

Advertisements
julia rana solicitors london

۱۴

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ
ترجمہ:
فریب زدہ لوگ
مطلب یہ ہے کہ یہ بدباطن مسلمانوں کے پاس آ کر اپنی ایمان دوستی اور خیر خواہی ظاہر کر کے انہیں دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مال و جان کا بچاؤ بھی ہوجائے، بھلائی اور غنیمت کے مال میں حصہ بھی قائم ہوجائے۔ اور جب اپنے ہم مشربوں میں ہوتے ہیں تو ان ہی کی سی کہنے لگتے ہیں۔ خلوا کے معنی یہاں ہیں انصرفوا اذھبوا خلصوا اور مضوا یعنی لوٹتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور تنہائی میں ہوتے ہیں۔ اور جاتے ہیں پس خلوا جو کہ الیٰ کے ساتھ متعدی ہے اس کے معنی لوٹ جانے کے ہیں۔ فعل مضمر اور ملفوظ دونوں پر یہ دلالت کرتا ہے۔ بعض کہتے ہیں الیٰ معنی میں مع کے مترادف ہے مگر اول ہی ٹھیک ہے، ابن جریر کے کلام کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ شیاطین سے مراد رؤسا بڑے اور سردار ہیں جیسے یہود علماء اور سرداران کفار قریش و منافقین۔
حضرت ابن عباس اور ابن مسعود اور دیگر صحابہ کا قول ہے کہ یہ شیاطین ان کے امیر امراء اور سرداران کفر تھے اور ان کے ہم عقیدہ لوگ بھی۔ شیاطین یہود بھی انہیں پیغمبری کے جھٹلانے اور قرآن کی تکذیب کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔ مجاہد کہتے ہیں شیاطین سے مراد ان کے وہ ساتھی ہیں جو یا تو مشرک تھے یا منافق۔ قتادہ فرماتے ہیں۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو برائیوں میں اور شرک میں ان کے سردار تھے۔ ابو العالیہ، سدی، ربیع بن انس بھی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ” ہر بہکانے اور سرکشی کرنے والے کو شیطان کہتے ہیں۔ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ ” قرآن میں بھی آیت (شیاطین الانس والجن) آیا ہے حدیث شریف میں ہے کہ ” ہم جنوں اور انسانوں کے شیطانوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ ” ابوذر (رض) نے پوچھا یا رسول اللہ کیا انسان کے شیطان بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں جب یہ منافق مسلمان سے ملتے تو کہتے ہیں ” ہم تمہارے ساتھ ہیں ” یعنی جیسے تم ہو ویسے ہی ہم ہیں۔ اور اپنوں سے کہتے ہیں کہ ہم تو ان کے ساتھ ہنسی کھیل کرتے ہیں۔
حضرت ابن عباس ربیع بن انس اور قتادہ کی یہی تفسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتے ہوئے ان کے اس مکروہ فعل کے مقابلہ میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ٹھٹھا کرے گا اور انہیں ان کی سرکشی میں بہکنے دے گا جیسے دوسری جگہ ہے، کہ قیامت کے روز منافق مرد و عورت ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ٹھہر جاؤ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں۔ کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور کی تلاش کرو۔ اس کے لوٹتے ہی درمیان میں ایک اونچی دیوار حائل کردی جائے گی جس میں دروازہ ہوگا، اس طرف تو رحمت ہوگی اور دوسری طرف عذاب ہوگا۔ فرمان الٰہی ہے کافر ہماری ڈھیل کو اپنے حق میں بہتر نہ جانیں۔ اس تاخیر میں وہ اپنی بدکرداریوں میں اور بڑھ جاتے ہیں پس قرآن میں جہاں استہزاء مسخریت یعنی مذاق، مکر، خدیعت یعنی دھوکہ کے الفاظ آئے ہیں وہاں یہی مراد ہے۔ ایک اور جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ صرف ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہہ کے طور پر استعمال کئے گئے ہیں ان کی بدکرداریوں اور کفر و شرک پر انہیں ملامت کی گئی ہے۔
اور مفسرین کہتے ہیں یہ الفاظ صرف جواب میں لائے گئے ہیں جیسے کوئی بھلا آدمی کسی مکار کے فریب سے بچ کر اس پر غالب آ کر کہتا ہے کہو میں نے کیسا فریب دیا حالانکہ اس کی طرف سے فریب نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ فرمان الٰہی ہے کہ آیت (وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللّٰهُ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ ) 3 ۔ آل عمران :54) اور آیت (اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَھُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :15) ورنہ اللہ کی ذات مکر اور مذاق سے پاک ہے مطلب یہ ہے کہ ان کا فن فریب انہی کو برباد کرتا ہے۔ ان الفاظ کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ان کی ہنسی، دھوکہ، تمسخر اور بھول کا ان کو بدلہ دیگا تو بدلے میں بھی وہی الفاظ استعمال کئے گئے دونوں لفظوں کے دونوں جگہ معنی جدا جدا ہیں۔ دیکھئے قرآن کریم میں ہے آیت (جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا) 10 ۔ یونس :27) یعنی برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے آیت (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو تو ظاہر ہے کہ برائی کا بدلہ لینا حقیقتاً برائی نہیں۔ زیادتی کے مقابلہ میں بدلہ لینا زیادتی نہیں۔
لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے حالانکہ پہلی برائی اور زیادتی ” ظلم ” ہے اور دوسری برائی اور زیادتی ” عدل ” ہے لیکن لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے۔ اسی طرح جہاں جہاں کلام اللہ میں ایسی عبارتیں ہیں وہاں یہی مطلب ہے۔ ایک اور مطلب بھی سنئے دنیا میں یہ منافق اپنی اس ناپاک پالیسی سے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے اللہ نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا کہ دنیا میں انہیں امن وامان مل گیا اور یہ مست ہوگئے حالانکہ یہ عارضی امن ہے، قیامت والے دن انہیں کوئی امن نہیں ملے گا گو یہاں ان کے مال اور جانیں بچ گئیں لیکن اللہ کے ہاں یہ دردناک عذاب کا شکار بنیں گے۔ امام ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور اس کی بہت تائید کی ہے اس لئے کہ مکر، دھوکہ اور مذاق جو بلاوجہ ہو اس سے تو اللہ کی ذات پاک ہے ہاں انتقام، مقابلے اور بدلے کے طور پر یہ الفاظ اللہ کی نسبت کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس بھی یہی فرماتے ہیں کہ یہ ان کا بدلہ اور سزا ہے۔ یمدھم کا مطلب ڈھیل دینا اور بڑھانا بیان کیا گیا ہے۔ جیسے فرمایا آیت (اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ ) 23 ۔ المومنون :55) یعنی کیا یہ یوں سمھ بیٹھے ہیں کہ ان کے مال اور اولاد کی کثرت ان کے لئے باعث خیر ہے نہیں ! نہیں ! نہیں ! صحیح شعور ہی نہیں اور آیت ( سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف :182) اس طرح ہم انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے غرض کہ ادھر یہ گناہ کرتے ہیں ادھر دنیوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں جن پر یہ پھولے نہیں سماتے حالانکہ وہ حقیقت میں عذاب ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ قرآن پاک نے اور جگہ فرمایا آیت (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44؀ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۭوَالْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ 45؀) 6 ۔ الانعام :45-44)
یعنی جب لوگوں نے نصیحت بھلا دی ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ وہ اپنی چیزوں پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا، اب گھبرا گئے، ظالموں کی بربادی ہوئی اور کہہ دیا گیا کہ تعریفیں رب العالمین کے لئے ہی ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ انہیں ڈھیل دینے اور انہیں اپنی سرکشی اور بغاوت میں بڑھنے کے لئے ان کو مہلت دی جاتی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت (وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهٖٓ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّنَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :110) طغیان کہتے ہیں کسی چیز میں گھس جانے کو۔ جیسے فرمایا آیت (اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ) 69 ۔ الحاقۃ :11)
ابن عباس فرماتے ہیں وہ اپنے کفر میں گرے جاتے ہیں۔ عمہ کہتے ہیں گمراہی کو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ضلالت و کفر میں ڈوب گئے اور اس ناپاکی نے انہیں گھیر لیا اب یہ اسی دلدل میں اترتے جاتے ہیں، اسی ناپاکی میں پھنسے جاتے ہیں اور اس سے نجات کی تمام راہیں ان پر بند ہوجاتی ہیں۔ بھلا ایسی دلدل میں جو ہو اور پھر اندھا بہرا اور بیوقوف ہو وہ کیسے نجات پاسکتا ہے۔ آنکھوں کے اندھے پن کے لئے عربی میں ” عمی ” کا لفظ آتا ہے اور دل کے اندھاپے کے لئے ” عمہ ” کا لیکن کبھی دل کے اندھے پن کے لئے بھی ” عمی ” کا لفظ آتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت (وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ ) 22 ۔ الحج :46)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply