سلام استاد۔۔۔علینا ظفر

شعبہ تدریس سے وابستہ لوگ قابلِ احترام ہیں کیونکہ تدریس پیغمبری پیشہ ہے۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو بہترین معلم بنا کر بھیجا۔ رسول اللہ ﷺ قرآن کی عملی تفسیر ہیں۔قرآن تعلیم ہے اور رسول اللہﷺ تربیت ہیں۔ اس لیے تعلیم کے ساتھ تربیت بھی توجہ طلب نکتہ ہے۔ تعلیمی شعبے سے منسلک افراد اور اداروں کو چاہیے کہ بچوں کو دینی و دنیاوی کے علاوہ اخلاق کی تعلیم بھی دیا کریں ۔ ہمارے ہاں ایک ایسا طبقہ ہے جو یہ سوچ رکھتا ہے کہ پڑھ لکھ کے اچھی نوکری ملے گی۔اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علم نوکری کے مقابلے میں بہت عظیم چیز ہے۔ تعلیمی اداروں کا مقصد اچھی تعلیم دے کر اچھی نوکری ، اچھا کاروبار یا پیسے کمانے کے لائق بنانانہیں ہے۔ اساتذہ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بچوں کوتعلیم دیں اور تربیت کریں کہ انہوں نے ان کو بہترین انسان ، بہترین امت ، بہترین مومن اور بہترین پاکستانی بنانا ہے۔

ہمارے استادِ محترم والدین اور اساتذہ کے لیے بچوں کی تربیت پر فرماتے ہیں کہ آپ نے صرف کورس کے پیچھے نہیں پڑ جانا، کورس آف لائف کے پیچھے پڑنا ہے۔ استاد اور والدین اپنے بچے کے رویے، نالج، کردار اور اس کی حکمت سے پہچانے جاتے ہیں۔سب چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ سچا ہو ،مگرجب بچے کے سامنے جھوٹ بولیں گے تو کیا وہ بچہ سچا ہو جائے گا؟ والدین اور اساتذہ اپنے آپ کا احتساب کریں اور اپنے رویوں کا جائزہ لیں۔جب وہ لوگ اپنا رویہ بدل لیں گے بچوں کے سامنے بد کلامی اور فحش کلامی نہیں کریں گے، غصے کا اظہار، گالی گلوچ کریں گےنہ جھوٹ بولیں گے، کسی کی غیبت اورکسی کو برا بھلا نہیں گے تو آپ کا بچہ بہتر ہو جائے گا۔تعلیمی اداروں کے سربراہان اساتذہ کے کردارکوجانچیں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں ، وہی کرتے ہیں۔ معاشرے کے سدھار کے لیے فرد کا سدھار ضروری ہے اور جو اچھے اسکول و ادارے ہوتے ہیں وہ انسان کو اس کی سوچ میں بالغ بناتے ہیں۔ سوچ کا عادی بناتے ہیں ۔ وہ بات کرنے اور قدم اٹھانےسے پہلے سوچتا ہے۔ کوئی کتنا بڑا افسر بن گیا ہے ،یہ شناخت نہیں ہے بلکہ وہ کتنا بڑا انسان بن گیا ہے یہ شناخت ہے جو والدین اور اساتذہ اسے دیتے ہیں ۔یہ دونوں کی ذمہ داری ہے اس پہ پالیسی بنانا ،پلان کرنا، ترتیب دیناکہ بچوں کے اندر اعتماد ، جرات ، قوت اورسچائی پیدا ہو۔

آج اساتذہ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے تو آج کے دن کی مناسبت سے اپنے اساتذہ کا ذکر بھی کرنا چاہوں گی۔والدہ کے بعد ہاتھ میں پینسل پکڑ کے لکھنا ہمیں مسز شہلا نے سکھایا۔میں نے کبھی کسی شاگرد سے انہیں امتیازی سلوک کرتے نہیں پایا۔ ان کے بچے ہمارے ساتھ بیٹھ کر ایک ہی سکول اور ایک ہی کلاس میں پڑھتے رہے ہیں۔میں نے انہیں اپنے بچوں کو ہو بہو ویسے ہی پڑھاتے دیکھا ہے جیسے وہ ہمیں پڑھاتی تھیں۔جونیئر کلاسز میں ہمیں مسز نیلوفر امتیاز صاحبہ میتھ پڑھاتی تھیں۔مجھے آج تک اپنی والدہ اور مسز نیلو فر کے علاوہ کوئی بہترین میتھمیٹکس سمجھانے والا نہیں ملا۔سینئر  کلاسز میں پروموشن ہو گئی لیکن میٹرک تک مسز نیلوفر امتیاز کے بعد میتھ  کبھی سمجھ نہیں آیا۔سکول کے زمانے میں انگریزی کے مضمون میں میری جتنی بھی تھوڑی بہت دلچسپی و رجحان رہا اس سہرے کی مستحق مسز شوکت ہیں۔ غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے چنتے وقت پہلی مرتبہ مجھے انہوں نے میری ان ساری خوبیوں کا احساس دلایا جن سے میں نا آشنا رہی۔میں سمجھتی ہوں کہ اگر وہ مجھے نہ ملی ہوتیں تو میں زندگی کے تقریباًہر شعبے سے ہی دلبرداشتہ ہو چکی ہوتی۔اسکول چھوڑنے سے پہلے ہمیں آگاہ کرنے کے بعد وہ کلاس روم سے باہر نکلیں تو میری دھندلی آنکھوں نے ان کےنظروں سے اوجھل ہو جانا دیکھا تھا۔ مجھے اب بھی وہ منظر یاد ہے میں بہت بوجھل دل لیے اسکول سے واپس آئی تھی۔مجھے دوبارہ وہ کبھی نہیں ملیں۔جنابِ محترم ضیاء اللہ قریشی صاحب کسی فیملی ڈاکٹر کی طرح ہمارے فیملی ٹیچر ہیں مگر مجھے ان کی بطور بھتیجی اپنا تعارف کرانا زیادہ مناسب لگتا ہے۔ ضیاء انکل، ان کی بیگم یعنی ہماری عابدہ آنٹی اور ان کی صاحبزادیوں زنیرہ اور علیزہ سے جس محبت اور احترام کا رشتہ ہے میں انہیں یہاں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔یہ میرے وہ لوگ ہیں جو میری زندگی کے اس رخ سے بھی واقف ہیں جو مجھ سے بہت قریبی ہونے کے دعویدار لوگ بھی نہیں ہیں۔

مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ میری لکھائی کبھی اتنی صاف نہیں رہی سو بچپن سے آج تک خوشخطی کے حوالے سے مجھ پر بہت زیادہ تنقید ہوتی رہی ہے جو بالکل بجا ہے۔لیکن سوائے ایک شخصیت کے نقادوں نے کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ میں اپنی ہینڈ رائٹنگ کو بہتر کیسے بنا سکتی ہوں یا ایسی کیا کوتاہی ہے جس کے باعث میرا لکھا واضح طور پہ نہیں پڑھا جاتا۔گریجوایشن میں پنجابی کی قابلِ احترام استانی صاحبہ مسزصدف ملک وہ واحد ہستی ہیں جنہوں نے لکھنے میں میری غلطیوں کی نشاندہی کرنے بعد باقاعدہ وہ طریقہ بھی بتایا جس سے لکھائی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ہر استاد قابلِ احترام ہوتا ہے اور شاگرد پہ تمام اساتذہ کی عزت کرنا لازم ہے۔میم صدف بھی میرے لیے قابلِ احترام تو شروع سے ہی ہیں لیکن اس کے بعد وہ پسندیدہ ترین ٹیچرز میں شامل ہو گئیں۔ بی اے کی انگلش میں فیل ہونےسے ہمیں ہمیشہ ڈرایا جاتا تھالیکن مسز فرزانہ سہیل کی ممنون ہوں جنہوں نے انگریزی کا مضمون پڑھایا اور ہمیں ریگولز کلاسز کے علاوہ بھی کالج میں بریک کےدوران بہت سی رہنمائی بھی فراہم کرتی رہیں۔

ہمارے اسکول کے پرنسپل جناب عبد الرؤف صاحب سے ہم نے بہت سیکھا۔ وہ یوں تو بہت شفقت کرنے والی مہربان شخصیت رہے لیکن ہمیں کورس کی پڑھائی پر ان سے کبھی اتنی ڈانٹ نہیں پڑی جتنی جنرل نالج نہ ہونے پہ پڑی۔بچپن کا دور چونکہ لاپروائی اور کچھ نادانی کا دور بھی ہوتا ہے تو ہمیں عبدالرؤف صاحب کی یہ بات اس وقت اتنی سمجھ نہیں آتی تھی۔ مگر اب حقیقی معنوں میں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے ہمیں وہ تمام باتیں نہ بتائی اور سکھائی ہوتیں توآج جو کچھ ہم ہیں اور جتنی بھی تھوڑی بہت جنرل نالج ہے وہ بھی نہ ہوتی۔ ہر جمعہ وہ بزمِ ادب کا ایک پیریڈ لازمی منعقد کیا کرتے جس میں ہم سب طالبعلم حصہ لیتے تھے۔ وہ اخبار کا مطالعہ کرنے پر بہت زور دیتے تھے۔ان کی بدولت ہی مجھ میں مختلف اخبارات کے مطالعہ میں دلچسپی پیدا ہوئی جو بعد میں صحافت کو بطور مضمون چننے کی وجہ بھی بن گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

صحافت کی بات ہوئی تو صحافت سکھانے والے اساتذہ کا ذکر کرنا بھی بہت زیادہ ضروری ہے۔جامعہ پنجاب کے شعبہ ادارہ علومِ ابلاغیات کے استاد و ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹراحسن اختر ناز صاحب مرحوم اور کو آرڈینیٹر و پروفیسرجناب شفیق احمد کمبوہ صاحب کی سربراہی میں ہم نے اپنی صحافت کی ڈگری کا آغاز کیا۔ محترم وقار ملک صاحب نے خبر بنانے کے طریقے سکھائے۔ وہ ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد بھی مجھے ایم فل کی تیاری کی تاکید کرتے رہے۔ ڈگری کے آخر میں ہماری پروجیکٹ سپر وائزر ثنا نوید خان صاحبہ نے پروجیکٹ میں بہت مدد کی۔ میم ثنا ہمارے پروجیکٹ میں ایک ایسی شخصیت کا کردار رہی ہیں کہ جہاں ہمیں فل اسٹاپ لگتا اس کے آگے ان کے پاس اس فل اسٹاپ کو مٹانے کے سو سے زائد تجاویز ہوتیں جن پہ عمل کر کے ہم اپنے پروجیکٹ کو آگے بڑھاتے۔جامعہ پنجاب میں ہمیں دیگر قابل اساتذہ کرام کی رہنمائی بھی حاصل رہی اگر میں سب کا ذکر کرنے لگوں تو میری یہ تحریر طوالت اختیار کر جائے گی۔اپنے سب محترم اساتذہ کرام کے بارے ایک ہی تحریر میں فرداً فرداً لکھنا میرے لیے ممکن نہیں ہے، جس کے لیے ان سے پیشگی معذرت ۔لیکن میری کوشش ہے کہ کسی اور تحریر میں اس خلا کو پُر کر سکوں ۔میرے ان تمام اساتذہ کا دلی شکریہ جنہوں نے ہر قدم پر میری رہنمائی فرمائی ، میری صلاحیتوں کو پہچانا، مجھے بتایا سکھایااور آج جس مقام پر ہوں وہاں تک پہنچنے کےقابل بنایا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply