ان ڈرائیو، ینگو اور میری ویل چیئر/ثاقب لقمان قریشی

مجھے باقاعدگی سے لکھتے ہوئے چار سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، لیکن لگتا ہے ابھی کل کی بات ہے۔ 2019ء تک مجھے اُردو ٹائپنگ نہیں آتی تھی۔ لیکن کچھ کرنے کا جذبہ ہر وقت دل میں موجود رہتا تھا۔ 2018ء میں کریم کا کام عروج پر تھا۔ لوگ بنکوں سے لون لے لے کر گاڑیاں خرید رہے تھے۔ دوست مجھے بھی مشورہ دیتے تھے کہ ایک گاڑی خرید کر ڈرائیور کو دے لاکھ روپیہ مہینے کا کما لو گے۔ لیکن میں کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس کی مجھے سمجھ نہ ہو۔

کریم اس وقت ایک ارب ڈالر تک کی کمپنی بن چکی تھی۔ اس وقت جنید پاکستان میں اسکے سی-ای-او تھے۔ میں نے جنید کو خط لکھا جس میں اس سے درخواست کی  کہ معذور طالبعلموں کیلئے کوئی رعائتی پیکج  متعارف کروائیں۔ ویسے تو رعائتی نرخوں کا حقدار ہر خصوصی فرد ہوتا ہے۔ لیکن اگر صرف طالبعلموں کو ہی رعائیت مل جائے تو والدین کا بوجھ کچھ کم ہوسکتا ہے۔ بہت سے خصوصی بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاسکتا ہے۔ کریم کی طرف سے جواب آیا کہ ہمارے ریٹ پہلے ہی بہت کم ہیں۔ مزید کمی کی گنجائش ممکن نہیں۔

روز صبح ویل چیئر گاڑی میں رکھنے، پھر شام کو واپس لانے کی دقت سے بچنے کیلئے میں نے گھر اور دفتر میں الگ ویل چیئر رکھی ہوئی ہیں۔ لیکن اگر دفتر سے ہٹ کر کہیں جانا ہو تو ویل چیئر کیسے لے کر جاؤں؟

میرا ٹیکسی ڈرائیور مجھ سے کافی بڑی رقم ادھار لے کر اپنا نمبر بند کرکے بیٹھا ہے۔ آجکل میں انڈرائیو اور ینگو کی سواریاں استعمال کر رہا ہوں۔ دونوں سروسز پر لوگ اپنی گاڑیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ان سروسز کی کسی گاڑی پر سامان رکھنے والا جنگلہ نہیں لگا۔ میں نے ایک بار کہیں جانے کیلئے بڑی گاڑی منگوائی لیکن ڈرائیور نے ویل چیئر رکھنے سے صاف انکار کر دیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی ویل چیئر استعمال کرنے والے شخص نے کہیں جانا ہو تو وہ کیسے جائے گا؟ سکول، کالج، دفتر، خوشی، غمی اور زندگی کے دیگر امور کیسے سر انجام دے گا؟

گاڑی میں ویل چیئر رکھنے کی مصیبت کی وجہ سے میں دفتر کے علاوہ اور کہیں نہیں جاتا۔ عیدین پر میرے بھائی بہنیں بلاتے رہ جاتے ہیں۔ بھائی کہتے ہیں کہ آپ آ جاؤ ہم آپکو اٹھا کر اندر لے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تقریب کے دوران اگر واش روم جانا پڑ جائے تو کیا کریں گے۔ اس مسئلے نے مجھے ہر چیز سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں کے سوشل ورکرز کا اسلام آباد آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بہت سے لوگ ملنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن کیسے ملیں۔

میں نے اپنے جن مسائل کا ذکر کیا ہے ویل چیئر پر بیٹھے ہر شخص کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں اچھی نوکری کی وجہ سے ٹیکسی کا کرایہ ادا سکتا ہوں۔ جن لوگوں کے پاس وسائل کی کمی ہے انکی مشکلات تو کہیں  زیادہ ہوں گی ۔ میں اگر اپنی جگہ پر کسی خصوصی لڑکی کو رکھ کر دیکھوں تو اسکی مشکلات کہیں  زیادہ ہوں گی۔

میرا گلہ کریم، اوبر، انڈرائیو یا ینگو سے نہیں۔ میں اس بات پر حیران ہونکہ جب کسی سروس کو کام کی اجازت دی جاتی ہے تو ہماری حکومت یہ نہیں سوچتی کہ ان سروسز کو ویل چیئر والوں نے بھی استعمال کرنا ہے۔

کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ان سروسز کو جب آپریشن کی اجازت دی جا رہی تھی تو کہا جاتا کہ جنگلے والی گاڑیوں کو فلیٹ کا حصہ بنایا جائے، کوئی ویل چیئر استعمال کرنے والی سواری اگر کہیں جانے کا کہے تو اسے انکار نہیں کرنا، ویل چیئر نہ رکھنے والے ڈرائیورز کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا، معذور سواری کو گاڑی میں بٹھانے سے مطلوبہ مقام تک باحفاظت اتارنا ڈرائیور کی ذمہ داری ہے۔ کیا ایپ میں معذور افراد کیلئے الگ باکس نہیں بنایا جاسکتا تھا جس سے ڈرائیور کو پتہ چل جاتا کہ جانے والا مسافر معذور ہے۔ کیا حکومت معذور سواری کیلئے سلیز ٹیکس اور انکم ٹیکس معاف کرکے رعائیت نہیں دے سکتی وغیرہ۔

کریم کی طرف سے ملنے والا جواب میرے لیے حیران کن نہیں تھا۔ میں انڈرائیو اور ینگو کو بھی اگر لکھونگا تو اسی قسم کا جواب ملے گا اور ملنا بھی چاہیئے۔ کیونکہ یہ لوگ بزنس کی غرض سے پاکستان آئے ہیں۔ دوسرا میں اور میرے جیسے لاکھوں ویل چیئر استعمال کرنے والے انکی ذمہ داری تو نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

معذور افراد ملک کی معیشت پر اربوں ڈالر کا بوجھ ہیں۔ بوجھ بننے کی وجہ آگہی اور سہولیات کی کمی ہے۔ میں ایک پڑھا لکھا معذور شخص ہوں۔ نوکری کرتا ہوں، عام لوگوں کی طرح سارے ٹیکسز دیتا ہوں، لوگوں کی مدد کرتا ہوں، انسانی حقوق کیلئے لکھتا ہوں۔ میرے کام کرنے سے مجھے اور ملک دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر میری طرح ہر معذور شخص کے پاس نوکری ہوگی تو اس سے ملک اور معاشرے کو کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ہم بھی اگر ان معاشروں کی فہرست کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو معذور افراد کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply