ایک وکٹ گِر گئی۔۔۔ایم اے صبور ملک

قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکراور پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے دیرینہ راہنمااور عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے قاسم سوری کے خلاف 2018کے قومی انتخابات میں کامیابی کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے نوبزادہ لشکری رئیسانی کی جانب سے کیے گئے چیلنج پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن ٹربیونل نے حلقے میں انتخاب کالعدم قرار دے دیا ہے،جس کے بعد ڈپٹی سپیکر اب اسمبلی کے ممبر نہیں رہے اور ساتھ ہی ڈپٹی سپیکر کی نشست بھی خالی ہو گئی ہے،الیکشن ٹربیونل میں حلقہ این اے265میں ہارنے والے امیدوا ر بلوچستان نیشنل پارٹی کے لشکری رئیسانی کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حلقے میں مجموعی طور پر ایک لاکھ چودہ ہزار ووٹ ڈالے گئے تھے،جس میں سے 65ہزار ووٹ جعلی یا غلط تھے،جن کی تصدیق نہیں ہو سکی،اس درخواست پر جسٹس عبداللہ بلوچ کی سربراہی میں قائم الیکشن ٹربیونل نے سماعت کی اور 14ستمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ جمعہ 27ستمبر کو سنایا گیا،جس میں حلقہ این اے 265کوئٹہ 2سے کامیاب اُمیدوار پاکستان تحریک انصاف کے قاسم سوری جو کہ کامیابی کے بعد قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے تھے کی کامیابی کا نوٹیفکیشن حلقہ میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم جاری کردیا،یوں یہ جمعہ اس بار اپوزیشن خصوصاً پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بجائے حکومت پر بھاری پڑ گیا جس کا اپنا صرف ایم این اے ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر ہی دھاندلی زدہ نکلا۔

شاید اسی لئے جب گزشتہ انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کا شور مچایا گیا اور حلقہ کھولنے کی بات ہوئی تو عمران خان نے سپریم کورٹ کاسہارا لیتے ہوئے حلقے کھولنے کا عمل بند کروادیا تھا کیونکہ موجودہ حکومت جس دھاندلی کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی اسکے پول کھلنے شروع ہوگئے تھے،اور پاکستان تحریک انصاف کو حکومت ساز ی کے لئے گنتی پوری کرنا   مشکل  نظر آرہا تھا،اگر اُس وقت سپریم کورٹ عمران خان کی درخواست پر حلقے کھولنے سے متعلق حکم امتناعی نہ جار ی کرتی تو موجودہ حکومتی سیٹ اپ کچھ اور ہوتا،الیکشن ٹربیونل کے موجودہ فیصلے کے بعد ا لیکشن 2018کی شفافیت کے حوالے سے اپوزیشن کا یہ موقف درست ثابت ہوا کہ سال گزشتہ میں ہونے والے قومی انتخابات دھاندلی زدہ تھے،فوج کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے خود عسکری ادارے اور تما م قوتوں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے جو ان انتخابا ت کے حوالے سے تمام اُمور کی نگرانی کے ذمہ  دار تھے،خود الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ناکامی بھی اس فیصلے سے ظاہر ہو رہی ہے جو شفاف الیکشن کا انعقاد کروانے میں ناکام رہا۔

اگر دیکھا جائے تو انتخابات کے شفاف انعقاد کی سب سے بڑی ذمہ داری الیکشن کمیشن آ ف پاکستان پر عائد ہوتی ہے،فوج یا دیگر سول ادارے تو الیکشن کمیشن کی مدد کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں،ایک ایسا شخص جس کی کامیابی شروع دن سے مشکوک تھی جس پر الیکشن ٹربیونل نے آج مہرثبت کردی ہے کو پاکستان کے ایک آئین ساز ادارے کے ڈپٹی سپیکر کا منصب دے دینا ،پی ٹی آئی کی ناقص کارکرگی اور بڑبولے عمران خان کی ناکامی بھی ہے،یہ فیصلہ ایک ایسے  وقت آیا ہے جب کہ حکومت پہلے ہی کئی محاذوں پر مشکلات کا شکار ہے،بے ہنگم اور بڑھتی ہوئی مہنگائی،ناکام خارجہ پالیسی،امن وامان کی ناگفتہ بہ  حالت،اندرون خانہ تبدیلی کی باتیں،ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ڈینگی کی وجہ سے وسیم اکرم پلس کی ناکامی اوربعض وفاقی وزراء کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اور بیانات نے پہلے ہی عمران خان کا بولو رام کردیا ہے ایسے میں وزیر اعظم کے قریبی ساتھی اور ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی کی دھاندلی کے الزامات سچ ثابت ہونے پرڈی سیٹ ہوجانا حکومت کے لئے نئی مصیبت کھڑی کر دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جبکہ دوسری طرف جے یو آئی کا آزای مارچ بھی کسی بھی وقت چل نکلنے کو تیار ہے جس کے روح رواں فضل الرحمن پہلے دن سے ہی انتخابات کو دھاندلی زدہ کہہ رہے ہیں،اُدھر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے حکومتی اتحادی بی این پی کے اختر جان مینگل نے ایک بار پھر حکومت کویاددہانی کرواتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو ہمارے 6مطالبات تسلیم کرنے ہی ہوں گئے ورنہ پی ٹی آئی اور بی این پی کے تعلقات جو اس فیصلے سے تو شاید نہ خراب ہوں لیکن 6مطالبات تسلیم نہ ہونے پر ضرور کشیدہ ہوسکتے ہیں،آنے والے دنوں میں سیاسی محاذ گرم ہونے کا پوار امکان ہے،فی الحال تو حکومت کے لئے بڑا چیلنج قومی اسمبلی کے نئے ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہے،جس میں یقینا ً ایوان میں موجود اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہیں،وزیر اعظم کی امریکہ سے واپسی پر وفاقی کابینہ میں بھی ردوبدل سننے میں آرہا ہے،ایسے میں اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اسکا انتظار کریں،حکومت کی ایک وکٹ بہرحال گر گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply