تبصرہ کتاب: پاکستان۔۔پاک قوم کا آبائی وطن۔۔از:چودھری رحمت علی۔۔۔احمد رضوان

“پاکستان: پاک قوم کا آبائی وطن” یہ  چودھری رحمت علی کی انگلش کتاب “Pakistan:The Fatherland of the Pak Nation”
 کااردو ترجمہ ہے جو اقبال الدین احمد نے کیا ہے۔انگلش کتاب کو اول اول 1935ء اور پھر1939ء میں  چودھری رحمت علی نےسائیکلو اسٹائل میں شائع کیا تھا جبکہ تیسرے ایڈیشن پر15 نومبر 1946 ءکی تاریخ ہے لیکن یہ شائع 1947 ءمیں ہوئی۔  اردو ترجمہ کا پہلا ایڈیشن 2007ء میں منظرِ عام پر آیاجبکہ اشاعتِ دوم 2023ء میں ہوئی جس پر نظر ثانی اور اشاعت کااہتمام زید بن عمر نے کیا۔ اس کے ناشر مکتبہ جمال لاہور ہیں جبکہ اسے زیورِ طبع سے آراستہ عمیر عثمانی شفیق پرنٹرز نے کیا ہے۔
چودھری رحمت علی کی کتاب اور اس کا  اردوترجمہ بہت سے حوالوں کی وجہ سے تاریخ میں یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔کتاب تاریخی اہمیت کی حامل  اس لیے نہیں کہ اس میں تاریخ، جغرافیہ، عمرانیات، سماجیات، تحریک آزادی کے متعلق معلومات اکٹھا کی گئی ہیں، بلکہ اس لیے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ ا سے تحریک آزادی کے ایک اہم رکن چودھری رحمت علی نے لکھا ہے۔
سب سے پہلے تو کتاب کے نام میں ہی آبائی وطن کا حوالہ جسے  چودھری رحمت علی نے” فادرلینڈ” کہا ہے اس عمومی تعریف جسے “مدر لینڈ “کہا جاتا ہے ،سے اسے ممیز و ممتاز کرتا ہے۔ اس باریک فرق کو یوں سمجھیں کہ فادر لینڈ کسی قوم کے آباؤ اجداد کی زمین کو کہا جاتا ہے اور یہ ایک قومی نظریے کی بالعموم ترجمانی ہوتی ہے،جبکہ مادر بھومی ،مدر لینڈ یا جیسے بھارت میں رین بسیرا کرنے والے” بھارت ماتا” کی بات کرتے ہیں جو  ایک مخصوص مذہبی گروہ یا ہجرت کر کے بسانے والے لوگوں کے بابت بات کرتے ہیں۔ کتاب کے نام سے ہی چودھری رحمت علی نے ملت، قوم اور مذہبی بنیاد پر تقسیم کا فرق صاف صاف واضح کر کے ہمیں ایک نظریہ کو سمجھنے اور سمجھانے کا صحیح راستہ سجھا دیا ہے ۔بالعموم عربی میں بھی “ارض الابا ء”یعنی اباؤ اجداد کی زمین کی اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کتاب کو ہم واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ فہرستِ مضامین اور ابواب کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں جغرافیہ اور تاریخ دونوں کی مشترکہ کتاب کا تاثر ملتا ہے۔ پاکستان کے نام محل ِوقوع، طول و عرض، طبعی خصوصیات، پہاڑ ،دریا، چشمے ،جھیلیں، وادیاں، موسم، آب و ہوا سب کا مختصر تعارف موجود ہے۔ کتاب کا معتد بہ حصہ یعنی حصہ اول، بابِ اول سے باب 10 تک کم و بیش 150 صفحات انہی تفاصیل سے مزین ہے۔ جغرافیہ کا اگر مختصر تعارف آپ نے پڑھنا ہے تو یہ صفحات آپ کے لیے مفید ہیں۔کتاب کا جغرافیائی حصہ اول و دوم حقائق کا بیانیہ ہے اس پر کسی انسائیکلوپیڈیا کا گمان ہوتا ہے جس میں درج معلومات سے آپ اس خطے کی عمومی صورتحال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال سکتے ہیں۔کتاب چونکہ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے اس لیے فاضل مترجم اور صاحبِ نظر ثانی نے اصل متن کو من و عن ترجمہ کرنے کی سعی کی ہے۔ آج کے دورِ جدید میں جب سب کچھ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے تو یہ تفاصیل کچھ زائد محسوس ہوتی ہیں اور کتاب کی ضخامت میں اضافہ کرتی ہیں۔
حصہ سوم میں قومی کہانی کا آغاز صفحہ 180 سے ہوتا ہے۔ اس میں بھی پاکستان قومی تحریک کا آغاز صفحہ 200 سے جا کر ہوتا ہے۔اردو ترجمے کے  پہلے ایڈیشن میں باب 14 سے باب 22 تک کا ہی  اردو ترجمہ کیا گیا تھا جبکہ دوسرے ایڈیشن میں باب اول سے باب 13 تک کا ترجمہ بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ یہ کتاب مطالعہء پاکستان کو مغالطہء پاکستان کی شکل میں پڑھانے والوں کے لیے ایک چشم کشا تفصیل فراہم کرتی ہے ۔ہم کتاب کےقومی کہانی والے  حصے پر اپنا فوکس رکھیں گے کیونکہ آج کی اس دنیا میں ان کا نقطہء نظر اتنا ہی زیادہ   Relevant محسوس ہوتاہے۔

کسی قومی کاز کے لیے اپنی ساری زندگی وقف کر دینا ہمہ شما کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینے کے لیے جگر سوزی کرنی پڑتی ہے۔کم و بیش 35 سال تک اپنی زندگی کو ایک مقصد کے حصول کے لیے وقف کیے رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی جس میں کوئی مالی منفعت یا ذاتی مفاد نہ ہو،فقط قومی کاز اور سارےاخراجات خود برداشت کئے جانا۔چودھری رحمت علی کو “پاکستان” کا نام تجویز کرنے پر تحریکِ پاکستان میں ان کا ناقابل فراموش کردار کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اندازہ کیجئے کہ ایک نحیف و نزار شخص دسمبر کی برفیلی راتوں میں جاگ جاگ کر ٹائپ رائٹر پر پمفلٹ ٹائپ کر کےعلی ا لصبح برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کے نام سپرد ڈاک کرنے موسم کی سختیوں کی پرواہ کیے بغیرجاتا ہے۔  یقینا ََکسی دیوانے کا کام ہی لگتا ہے۔ ہم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ چوہدری رحمت علی نے تن تنہا ایک انجمن جتنا کام  سر انجام دیا ۔بقول کے کے عزیز” قیام ِپاکستان رحمت علی کے تخیل اور دور اندیشی کا اتنا ہی مرہونِ منت ہے جتنا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد کا۔”چودھری رحمت علی پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ انہوں نے اس  تحریک سے کون سا ذاتی مفاد حاصل کیا؟ کون سی مالی منفعت کمائی جس کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی تج دی۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش

والا معاملہ ہے۔1947ء میں مکمل پنجاب اور کشمیر کے بغیر نامکمل پاکستان ملنے پر شدید غم و غصہ کے زیر اثر ایک بہت سخت پمفلٹ “عظیم دھوکہ” کے نام سے انہوں نے شائع کیا اس میں سخت الفاظ میں مسلم لیگ اور قائد اعظم پر تنقید کی تھی مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس تنقید کا مقصد صرف اور صرف نظریاتی  اختلاف تھا۔جہاں تک ان کا پاکستان اور حضرت قائد اعظم کے بارے میں کہی گئی یا لکھی گئی باتیں     ہیں وہ شخصی یا ذاتی نہیں تھیں۔ انہیں ملت اسلامیہ کے تمام مسلمانوں کے لیے آزادی اور علیحدہ وطن کے مطالبوں پر عمل پیرا نہ ہونے کا دکھ تھا ۔ہماری کمزور یادداشت والی قوم تاریخ کو گدلا کرنےوالے نام نہاد مورخین کے پراپیگنڈہ کے زیرِ اثر  الزام اور دشنام تراشی کو سچ جان کر اس پر ایمان لے آتی ہے۔  میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اکثریت نے ان کی کتب کا مطالعہ تو کجا ان کا ٹائٹل بھی نہیں کبھی دیکھا ہوگا مگر سنی سنائی پر یقین کرکے وہ انہیں موردِ الزام ٹھہرانے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔ ہم نے چوہدری رحمت علی کی خدمات کا اعتراف تودور کی بات، ان پر ملک و ملت دشمن اور نہ جانے کون کون سا الزام عائد کردیا۔وہ تو شکر ہے  کہ کے۔ کے ۔عزیز نےچو دھری رحمت علی کی سوانح عمری لکھ کر ان کے کردار کو گہنانے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔

انڈیا کبھی بھی ایک ملک نہیں تھا یہ ایک برِ اعظم تھا جہاں ہندو ازم اور ہندو ذات کے لوگوں کا بلا شرکت غیر اقتدار کا علاقہ کبھی بھی نہیں تھا۔
کیا انڈیا ابتدائی دور میں” دراوڑیا “نہیں تھا جہاں ہندوؤں نے آ کر ان کی انفرادی حیثیت ختم کر دی اور ان کے مذہب کو تبدیل کر کے انہیں ہندوازم میں شامل کرلیا۔ یہاں پر ہندوستانیت کا فرضی قصہ بھی پاک کرنا بہت ضروری ہے۔
انڈیا کی تاریخ کو اگر غور سے پڑھیں تو یہ تاریخ ایک ملک کی نہیں بلکہ ایک براعظم کی تاریخ ہے جس میں ہمیشہ سے ہی مذہبی، نظریاتی ،لسانی ،تہذیبی ،علاقائی اور قومی طور پر بہت زیادہ تقسیم تھی اور ہے۔ لفظ انڈیا کو ہی دیکھ لیں سنسکرت  کے لفظ سندھو سے نکلنے کے بعد اور پھر آہستہ آہستہ انڈس میں تبدیل ہونے کے باوجود یہ جن علاقوں میں استعمال ہوا اس کا مطلب ہمیشہ ہندو ازم اور ذات پات پر یقین رکھنے والے ہندوؤں کے علاقے ہی رہا ہے جبکہ 3500 قبل مسیح سے لے کر 1500 قبل مسیح تک قریبا 2 ہزار سال تک یہ علاقہ “دراوڑیا “کہلاتا رہا۔
 712  عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد سے تخلیقِِ پاکستان1947 ءتک بر صغیر پر   مسلمان   صرف 90 سال ہی پوری طرح غیر ملکی تسلط سے مغلوب ہوئے ورنہ کسی نہ کسی شکل میں ان کی حکومت  بر صغیر   میں جاری و ساری رہی اور یہ کم و بیش 1235 سال بنتے ہیں۔
یہاں یہ سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ اگر اتنے لمبے عرصے تک خوئےِ حکمرانی آپ کے خون میں شامل رہی ہو تو کیا 90 سال کا مختصر عرصہ آپ کو آپ کا تابناک ماضی بھلا دینے کے لیے کافی ہے؟ آپ کی قومی حمیت و غیرت اور پچھلے 75 سال سے کسی ایک خاص نقطہء عروج کی طرف واپسی ابھی تک کیوں نہیں ہوئی؟ کیا دو یا تین نسلوں پر ہونے والی غلامی کے اثرات اتنے لمبے عرصے تک برقرار رہتے ہیں؟ ہمیں بحیثیت ایک خود مختار قوم اس بابت ضرور سوچنا ہوگا۔
بر صغیر میں مسلمانوں نے  مکمل طور پر حکومت  کھونے کے بعدسیاسی سرگرمیاں 1857ء کی جنگ آزادی کےکچھ عرصہ بعدہی محدود پیمانے پر شروع کر دی تھیں۔ 1862 سے 1932 تک سینٹرل محمڈن ایسوسی ایشن، انڈین مسلم فیڈریشن، آل انڈیا مسلم لیگ، آل انڈیا مسلم کانفرنس نمایاں تھیں۔ چوہدری رحمت علی نے 1915 میں” بزم شبلی “کی بنیاد رکھتے وقت مسلم علاقے پر مشتمل مسلم مملکت کا خیال پیش کیا۔ حسرت موہانی اور لالہ لجپت رائے بھی تقسیم کی کچھ کم و بیش اسی طرح کی تجاویز رکھتے تھے۔ 1930ء میں اقبال نے انڈین فیڈریشن کے اندر اسلامی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی جبکہ چوہدری رحمت علی انڈین فیڈریشن کی مخالفت اور اسلامک فیڈریشن کی تجویز پیش کرنے میں نمایاں تھے۔
چودھری رحمت علی مسلمانوں کی تاریخ میں سقوطِ غرناطہ، ہلاکو خان کے ہاتھوں عراق کی تباہی، نواب سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی شکست اور 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کو شکست کو امت مسلمہ کا نقصان سمجھتے تھے اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ ایک ہندو اکثریت والے ملک میں اپنی شناخت بچانے کے لیے ایک علیحدہ وطن کا قیام از حد ضروری ہے اور وہ اس خطے میں صرف ایک ملک ہی نہیں چاہتے تھے بلکہ انہوں نے 10 ممالک کے نام تجویز کیے تھے۔یہی وجہ تھی کہ پٹیل جیسا شاطر سیاست دان بھی چلا اٹھا تھا کہ اگر ہم نے یہ تقسیم قبول نہ کی تو ایک پاکستان نہیں بلکہ کئی پاکستان بن جائیں گے۔
1931ء سے 1933ء کی گول میز کانفرنسوں میں شرکت کرنے والے مندوبین سے مل کر چودھری رحمت علی نے اپنا نقطہ نظر ان کے سامنے رکھا اور جب 28 جنوری 1933 کو اپنا مشہور عالم  مقالہ “Now or Never”  یا ” اب یا کبھی نہیں” جس میں انہوں نے پہلی بار” پاکستان”کے نام کا ایک خطہ جہاں مسلمان اکثریت والے لوگ ہوں کا تصور پیش کیا تو مسلمان مندوبین نے بھی اسے جذباتی طالب علموں کا پیش کردہ خیالی منصوبہ قرار دیا ۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ محض سات برس بعد اسی نظریہ کوسامنے رکھ  کر  قراردادِ لاہور پیش کی گئی جسے اب قرارداد پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ مزید سات برس بعد گویا 14 برس اس پمفلٹ کے لکھے جانے کے بعد اسی نام سے ایک مملکتِ خداداد معرض وجود میں آجاتی ہے۔ہے نا ایک ناقابلِ یقین اچیومنٹ۔
جو لوگ تقسیم ہند کے مخالف تھے اور مسلم شناخت کو انڈینائزیشن کاچورن بیچ کر اسکو مٹا دینا چاہتے تھے وہ تو چوہدری رحمت علی کے مخالف تھے ہی اور ان کا مخالف ہونا بعید از قیاس نہیں تھا مگر ہمارے اپنے لوگ انہیں سامراج کا نمائندہ سمجھتے تھے اور اہل جاہ و حشم یعنی سامراج بھی انہیں اپنے لیے خطرہ گردانتا تھا۔ گویا چاروں سمت سے ان کی مخالفت کی جا رہی تھی ۔مسلمان رہنما اسے طالب علم کی خیالی اور ناقابل عمل سکیم سمجھتے تھے ہندو اسے بدترین فرقہ واریت کی صورت سمجھتے تھے اور برطانوی سامراجیت بھی اس کے مخالف تھی۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس آزادی سے قبل کیا چوائس تھی؟ یا تو ایشیا کے اندر ایک باعزت اقتدار اعلیٰ کی حامل آزاد حیثیت کا انتخاب کر لیں یا پھر انڈیا کے اندر بدترین غلامی کی زندگی پر مہر ثبت کر لیں۔ چودھری صاحب کی دور اندیشی کو سلام پیش کرنے کو دل کرتا ہے کہ 76 سال بعد بھی انڈیا میں بسنے والے مسلمان کس حالت میں ہیں ،ان کی بات 100 فیصد درست ثابت ہو رہی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمان انڈین ازم کے سنہری جال میں پھنس گئے تو اس کا انجام برا ہوگا اور اس سے وہ کبھی نکل نہ سکیں گے اور اگر ہم نے اسے ایک دفعہ قبول کر لیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انڈین ازم کی غلامی میں سڑتے رہیں گے۔ چودھری صاحب کی “پاکستان نیشنل موومنٹ “کے بنیادی خیال کا پہلا نصف دو قومی نظریہ تھا جبکہ دوسرا نصف حصہ ملت کے علاقوں کو ہندوستانی حیثیت کو ختم  یعنی ڈی انڈینائزیشن کرنا تھا۔ کے۔ کے۔ عزیز کے مطابق چودھری صاحب پہلے آدمی ہیں جنہوں نے” جنوبی ایشیا” کی اصطلاح  بر صغیر  کے لیے استعمال کی ۔بقول چودھری رحمت علی “ہمیں اپنے لوگوں کو انڈین ازم کا مزارع بننے سے بچنے کے لیے اور اپنے علاقوں کو اس ہندوستانیت کی صوبائی زنجیروں سے نکال کر دنیا میں وہ پوزیشن حاصل کرنی ہے جو ہم نے وقت گزرنے کے ساتھ گنوا دی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندو اور سکھ اقلیتیں کبھی بھی ہماری بن کر نہیں رہ سکتی اس لیے ہمیں کسی صورت انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہیے۔

ہندوستان کو وہ ایک ملک کبھی نہیں مانتے تھے بلکہ اسے براعظم سمجھتے تھے اور اس میں رہنے والے تمام مذاہب کے لیے وہ اسے انڈیا(India) کی بجائے دینیا(Dinia) کہہ کر مخاطب کرتے تھے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے آزادانہ زندگی بسر کر سکیں۔” اچھوتوں” کے لیے انہوں نے کیسا خوبصورت اسلامی نام” اخُوتوں” سے بدل کر مساوات کا پیغام دیا ۔ اسی لیے چوہدری رحمت علی نے انڈین فیڈریشن کی بجائے پاکستان فیڈریشن کا نعرہ دیا ۔اس کتاب کا اصل مقصد تحریک پاکستان کے حقائق کو محفوظ کرنا اور انہیں ائندہ نسلوں تک پہنچانا ہے ۔1933 میں چوہدری رحمت علی نے پاکستان نیشنل موومنٹ کی بنیاد رکھی جس میں انہوں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم شائع کیا جس پر چاند اور پانچ ستارے دکھائے گئے تھے ۔انہوں نے قومی زبان اردو کو پاک زبان قرار دیا اور وہ بہت اچھی طرح اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انڈین ازم کا عفریت جو کئی تہذیبوں اور مذاہب کو ہڑپ کر چکا تھا اگر وہ اپنے قلم سے اس ہندوستانیت کے نام نہاد بت پر کاری ضربات نہیں لگائیں گے تو مسلمانوں کے لیے ہمیشہ خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک دلچسپ بحث جو اس کتاب کی کہ قراءت سے شروع ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین کا دعوے دار موجودہ رہائشی ہے یا تاریخی طور پر وہاں رہنے بسنے والے لوگ؟ کس کا دعویٰ مستحکم ہوگا؟ اگر ہم مشرق وسطیٰ کے حوالے سے دیکھیں تو ہمیں موجودہ جا رحیت ہر لحاظ سے غلط دکھائی دیتی ہے۔ چودھری رحمت علی کا جو نقطہ نظر تھا اس کے حساب سے پاک لوگ کون ہیں؟ اس کی ابتدا کا تعلق اس نسل سے ہے جس نے زمانہ ما قبل تاریخ میں ایسے خداداد قابلیت کے مالک قبائل کو جنم دیا جو وادی ءمہران کی قدیم ترین تہذیب کے موجد بنے اور اسے ترقی دی۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد یہاں کے لوگوں سے ان کے نسلی اختلاط کا اس قدر زیادہ اثر ہوا کہ یہ اب انسانی خاندان کا ِنمایاں طور پر ایک ایسا منفرد خاندان بن گیا ہے جسے صرف پاک کے نام سے ہی موسوم کیا جا سکتا ہے۔

 

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply