زندگی کا بھی اِک عجب فلسفہ ہے/عاصمہ حسن

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
کہا جاتا ہے کہ زندگی کا سفر انتہائی مختصر ہے لیکن گزارنے لگو تو یہ سفر خاصا طویل ہو جاتا ہے ـ جس میں ہم کئی مراحل سے گزرتے ہیں ـ روز نئے چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں ـ۔اگر ارتقاء کے مراحل کا جائزہ لیں تو آنکھ کھولتے ہی ہمارے سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے جو زندگی کا سورج غروب ہونے تک جاری رہتا ہے ـ بچہ جب ہوش میں آتا ہے اورجیسے ہی اس کے سوچنے’ سمجھنے کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے تو زندگی کے امتحانات شروع ہو جاتے ہیں، ـ پہلے والدین گھر میں سکھاتے ‘پڑھاتے ہیں پھر اسکول کے دن شروع ہوجاتے ہیں، ظاہر ہے بچوں کو وہ زندگی بہت کٹھن لگتی ہے کیونکہ صبح اٹھنا ‘ روز اسکول جانا’ پڑھنا ‘ لکھنا پڑتا ہے ‘ پھر کئی مراحل سے گزرتا ہوا نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھنا سیکھتا ہے، ـ زندگی کے پہلے پانچ سے چھ سال انتہائی کٹھن ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایام اس کی شخصیت کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن اگر بچوں سے پوچھیں تو ان کو اپنے دن  اور  رات بہت اکتاہٹ بھرے لگتے ہیں۔ ـ مزے کی بات یہ ہے کہ جب کالج کی زندگی شروع ہوتی ہے تو ان کو اسکول کا وقت بہت اچھا لگتا ہے اور بچپن کے بے فکری کے دن یاد آتے ہیں۔

اب وہی بچہ کالج جاتا ہے تو اسے یہ وقت مشکل لگتا ہے کیونکہ مقابلہ سخت ہو جاتا ہے’ میرٹ کی دوڑ لگ جاتی ہے ‘ نمبروں کا کھیل شروع ہو جاتا ہے اور والدین کی امیدیں بھی بڑھ جاتی ہیں ـ طلباء کو بھی پریشانی لگ جاتی ہے کہ اگر محنت نہ کی تو ان کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا ـ یہی عمر جو ٹین ایج بھی کہلاتی ہے بچوں اور والدین دونوں کے لیے انتہائی مشکل ہوتی ہے ‘ بچوں کی تربیت کرنا’ ضروریات پوری کرنا’ تعلیم دلوانا’ غلط صحیح میں فرق سمجھانا ‘ پھر دوست بن کر وقت گزارنا کبھی کبھی انتہائی مشکل میں ڈال دیتا ہے ـ اس دور میں بچہ جو اب بڑا ہو گیا ہے آزادی چاہتا ہے اور والدین کی پابندیاں’ نصیحتیں ان کو بے جا لگتی ہیں ـ وہ خود کو ‘ اپنے دوستوں کو صحیح اور باقی سب جو اس کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو غلط سمجھتا ہے ـ۔

اب بچہ بھی بہتر مستقبل کے لیے تگ و دو اور جدوجہد کرتا ہے کیونکہ یہ وہ عمر ہے جس میں والدین کی طرف سے بھی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں ـ اب وہی بچہ جو بڑا ہو گیا ہے ترقی کے منازل طے کرتا ہوا کالج سے یونیورسٹی کی حدود میں داخل ہوتا ہے ‘ اس کی امیدیں کچھ اور ہوتی ہیں لیکن یہاں بھی پڑھنا پڑتا ہے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں جو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے کندھے پر ڈال دی جاتی ہیں ان کو نبھانا پڑتا ہے ـ عمر کے اِس دور میں وہ جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اسے اسکول’ کالج کا زمانہ بہت حسین لگتا ہے ـ وہ سوچتا ہے کہ پھر سے وہی بچپن کے دن لوٹ آئیں جب کوئی فکر ‘ فاقہ نہ تھا ـ کیونکہ اب اسے حالات کی سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں ـ اکژیت عملی زندگی میں قدم رکھ دیتے ہیں ‘ معاش کی تلاش میں نکلتے ہیں اور کچھ ابھی پرواز بھرنے کے لیے پَر تول رہے ہوتے ہیں ـ۔

عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی تلخیوں’ ذمہ داریوں’ معاش کی پریشانی دیگر کئی تھپیڑے ان کا استقبال کرتے ہیں ـ وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے ـ کئی تبدیلیاں آتی ہیں ‘ بہت سارے اچھے اور برے تجربات سے گزرتے ہوئے وہی چھوٹا سا بچہ جو ہوش میں آتے ساتھ ہی سیکھنا شروع کر دیتا ہے’ بڑا ہوتا ہے’ جوان ہوتا ہے اور پھر جوانی سے سیدھا بڑھاپے میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر جیسے ہی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے کئی بیماریاں اُسے گھیر لیتی ہیں ـ۔

وہ وقت جو زندگی کی بہاروں سے لطف اندوز ہونے کا ہوتا ہے وہ بھاگ دوڑ’ روزی روٹی’ بچوں کی تربیت’ ان کے مستقبل کی دوڑ دھوپ’ اپنے بوڑھے والدین کو سنبھالتے ‘ ان کو خود سے جدا کرنے کے غم سے لے کر دیگر کئی محاذوں پر تن تنہا لڑتا نظر آتا ہے ـ احساس اس وقت ہوتا ہے جب کئی بیماریاں گھیر لیتی ہیں اور ریٹائیرمنٹ کا دور شروع ہو جاتا ہے ـ اب محتاجگی بھی آڑے ہاتھوں لیتی ہے ـ اب ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بچوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے حتٰی کہ ان کے وقت کے بھی منتظر رہتے ہیں ـ اب وقت پلٹا کھا جاتا ہے ـ پہلے اپنے لئے وقت نہیں ہوتا اب وقت تو ہے لیکن کچھ کرنے کو نہیں ہوتا ـ طویل دن و رات ہیں کریں تو کریں کیا ـ چڑچڑا پن’ اکتاہٹ گھیر لیتی ہے ـ۔
لیکن کچھ لوگ وقت کی رمز کو پا لیتے ہیں اور اس کا مفہوم سمجھ جاتے ہیں ـ زندگی کے ہر دور کو لطف اندوز ہوتے ہوئے اسے بھرپور انداز میں گزارتے ہیں ـ تاکہ پچھتاوا نہ رہے ـ۔

کہتے ہیں کہ جیا جائے تو انتہائی مختصر اور اگر کاٹا جائے تو بہت طویل ہے ‘ اس جملے کی گہرائی کو جو سمجھ جاتے ہیں وہ زندگی کو جی لیتے ہیں ـ مسائل کا سامنا تو سب کو ہوتا ہے لیکن اب ان کو حل کیسے کیا جائے ‘ اُن مسائل سے خندہ پیشانی سے کیسے نمٹا جائے ‘ اُن ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے کیسے اپنے لیے’ اپنی خوشی کے لیے’ اپنے خوابوں کے لیے وقت نکالا جائے یہ ایک فن ہے ـ جو اس راز کو جان لیتا ہے وہ بھرپور انداز سے زندگی کی رونقوں سے ‘ اس کے رنگوں سے لطف اندوز ہو جاتا ہے اور جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو انھیں خوبصورت یادیں تو ملتی ہیں لیکن پچھتاوے کی پرچھائیں نہیں ملتی ـ بس یہی زندگی کا فلسفہ ہے ـ۔

اہم بات یہ ہے زندگی میں توازن کیسے رکھا جائے ـ اپنے رشتوں ‘ ذمہ داریوں ‘ دفتر ‘ گھر’ بچوں ہر مرحلے پر اعتدال کا دامن پکڑ کر رکھنے سے ہم خود کو ڈپریشن’ لڑائی ‘ جھگڑوں اور دیگر پریشانیوں سے بچا سکتے ہیں ـ ہمیں کبھی بھی اپنی خواہشات کو اتنا نہیں بڑھانا چاہئیے کہ چادر چھوٹی پڑنے لگے’ اپنے دل کو اتنا تنگ نہ کریں کہ دوسروں کی مدد کرتے ہوئے دل پر گراں گزرے ـ کبھی حسد نہ پالیں کیونکہ یہ ہماری خوشیوں کو کھا جاتا ہے ـ بانٹنے والے بن جائیں’ رشتوں میں پیار’ قدر’ عزت و احترام’ احساس پیدا کر لیں دیکھیں پھر زندگی کیسے خوبصورت اور بھرپور محسوس ہو گی ـ لوگوں سے اپنی توقعات کم کر دیں اور اُن کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کریں ـ صلہ رب پر چھوڑ دیں ـ اپنے اعصاب کو مضبوط کریں ـ مسائل کا کھلے دل سے سامنا کریں ان کو چیلنج سمجھیں ـ لوگوں کی منفی باتوں پر توجہ نہ دیں بلکہ وہ کریں جو آپ بہتر سمجھتے ہیں ـ۔

خود پر اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں ـ جب ہمیں خود پر ‘ اپنی توانائیوں ‘ زورِ بازو پر قوی یقین ہوتا ہے تو ہم بخوبی ہر طوفان کا سامنا کر لیتے ہیں ـ حالات جیسے بھی ہوں ہمیں دوسروں کی طرف نہیں دیکھنا کہ وہ ہماری مدد کریں بلکہ ہم نے اپنے لیے خود راستے تلاش کرنے اور بنانے ہیں ‘ محنت ‘ مسلسل محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ نہ صرف ہر طوفان کا سامنا کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کا رُخ بھی بدلا جا سکتا ہےـ بس ربِ کائنات سے دعا کریں اس کے سامنے ہاتھ و دامن پھیلائیں ‘ گڑگڑا کر مانگیں ـ ہم انسانوں کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے وہی ذات جو مالک اورخالق ہے وہی نوازنے والا ہے بس جب یہ یقین اور ایمان پختہ ہو تو ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں پڑتی ـ وہی بند دروازے کھولنے والا اور آسانیاں پیدا کرنے والا ہے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی کا فلسفہ بہت آسان ہے لیکن ہمیں سمجھ بہت دیر سے آتی ہے اور جب سمجھ آتی ہے تو اکثر بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ـ زندگی ایک بار ملتی ہے اس کو بھرپور گزارنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے ـ یاد رکھیں کہ ہماری ہر خوشی ہماری اپنی سوچ میں پنہا ہے ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply