تین کہانیاں ۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

کہانی نمبر 1
1982 کی بات ہے جب میں ایران کے شمال میں فیروز کوہ کے ایک خوبصورت پہاڑی قصبہ زیراب کی میڈیکل ایمرجنسی کا سربراہ تعینات تھا۔ ہم میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا۔ خاتون اپنے رویوں میں بہت ” دھو بلوچا ” تھی۔
ایک روز کی اس توتکار سے میں اس قدر بد دل ہوا کہ سوچا جان سے ہی چلا جاتا ہوں۔
اپنے گھر سے جو پہاڑی پہ تھا نیچے جاتی سڑک پہ اترا۔ بل کھاتی بھرے پرے بازار سے مزین یہ سڑک شاہراہ سے ملتی تھی۔ اسے عبور کرکے ایک پہاڑی ندی پر بنے عریض پل سے گذر کے پھر بازار تھا جس کی چڑھائی چڑھنے کے بعد کچھ ویرانہ تھا اور پھر بلند پہاڑی کے دامن میں راہ آہن یعنی ریل کی پٹڑی جس پر میں اندر کی طرف پاوں کرکے بیٹھ گیا اور ریل گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔
کٹ مرنے کا ارادہ مضبوط تھا مگر جب دور سے ریل کو آتے دیکھا تو انجن کے سامنے نیچے لوہے کا چھجہ دیکھ کے گھبرا گیا کہ یہ تو بیچ سے کاٹنے سے پہلے کچھ دور تک رگیدتا چلا جائے گا اور بہت اذیت ہوگی۔ چنانچہ اس سے پہلے کہ ڈرائیور ہارن دے ، میں پٹڑی سے اٹھ کھڑا ہوا اور گھر کی جانب لوٹنے لگا۔
سبق: خود کشی بزدل لوگ نہیں کیا کرتے
کہانی نمبر 2
ماسکو کے جس علاقے میں میں گذشتہ دو سال سے مقیم رہا تو وہاں باہر نکل کر اکثر سفید لمبی داڑھیوں اور لمبے سفید بہت اچھی طرح کنگھی کیے گئے بالوں والے دو بوڑھے دکھائی دیتے۔ مہذب دکھائی دینے والے یہ خوش لباس کم گو بوڑھے سلام ضرور کرتے۔
چودہ برس سے وہاں مقیم میرے چھوٹے بچوں کی ماں نے بتایا کہ یہ دو بھائی ہیں۔ ہوگا کرتے ہیں اور سردیاں آنے تک سینڈل، برمودا اور ٹی شرٹ پہنے رہتے ہیں۔ کبھی ان کی بیویاں نہیں رہیں۔ والدہ کے گذر جانے کے بعد اکٹھے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں ان دونوں نے یوگا سے سرطان کو شکست بھی دی ہے۔
اس بار میں نے دیکھا کہ بڑا بھائی نہیں تھا مگر تنہا رہ جانے والے معمر شخص سے جو برمودا اور ٹی شرٹ میں بیک پیک کے ساتھ باقاعدگی سے اسی پارک میں سیر کرتا جہاں میں بھی کرتا تھا، ماسوائے سلام کرنے کے کبھی پوچھ نہ پایا کہ ساتھی بھائی گذر گیا یا کیا ہوا؟ البتہ اب اس کے چہرے پر اداسی دیکھی جا سکتی تھی۔
سبق: ہمیشہ کا ساتھ شاید ممکن نہ ہوتا ہو
کہانی نمبر3
دوسری، تیسری بیویاں بولتی نہیں۔ دوسری کو طلاق دی اور تیسری چوتھی کے افشاء ہونے پر دل برداشتہ ہو کے علیحدگی اختیار کر چکی۔
چوتھی نے بارہ برس تیسری کے ساتھ رہنے کا بغض ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف مسلسل طلاق دینے کا تقاضا جاری رکھا بلکہ بلند آواز سے بیسیوں بار کہا کہ وہ شدید نفرت کرتی ہے۔ یاد رہے محبت کرنے کی بڑی دعویدار بھی وہی رہی۔ اب اول تو وہ بات نہیں کرتی۔ کرتی ہے تو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے۔
پہلی اب تک دوستانہ تعلق قائم رکھے ہوئے ہے۔ روز فون پہ بات بھی ہوتی ہے اور تبادلہ خیال و معاملات بھی مگر ماضی کی ڈائری جب کھول لے تو توبہ بھلی، سارے دوش ہمارے نہیں محض میرے اگرچہ جو آخری تنکا ثابت ہوا تھا اس سے اس نے نکاح بھی کیا اور اولاد بھی پیدا کی۔
سبق: کئی نکاح شاطر اور چالاک لوگوں کو کرنے چاہییں، صاف گو اور سادہ لوگوں کو نہیں

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply