راگنی کی کھوج میں ۔۔نجیبہ عارف/تبصرہ:۔۔عاصم کلیار

وہی خواب معتبر تھے کہ جو خیال تک نہ پہنچے
ڈھولی تارو
ڈھول باجے
ڈھول کہ ڈھم ڈھم ڈھول
راگنی کی کھوج میں
ایک بے قرار روح
متلاشی متلاشی
شاید ازل سے ہی روح کے سفر میں منزلیں  سیراب اور راستے گرد ہوۓ جاتے ہیں چشم بینا سے دیکھنے پر باطن کی عریانی اور کمینگی سے خود شرمندگی محسوس ہوتی ہے مگر بلند حوصلہ اور ثابت قدم ان دیکھی منزلوں کی جستجو میں پیروں کو لہو لہان کر کے دامن کو کسی طور بچاتے ہوۓ سفر کی سب صعوبتوں کو برداشت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں، اس سفر کے کٹھن راستہ پر چلنے والے ہی باطن کی کمینگی اور روح پر لگے داغوں سے نجات پانے کی سبیل کرتے ہیں۔

نجیبہ آپا تو قسمت کی دھنی تھیں ان کے والد سخت گیر درویش مزاج اور والدہ مہر و محبت اور صبر کی مجسم تصویر تھیں، بچپن ہی سے دو بھاری پاٹوں کے درمیان پسنے کی وجہ سے نجیبہ آپا کی روحانی تربیت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔

عمر بھر مال و زر کو بچا کر رکھنے والے اور کنجوسی کو وصف خاص سمجھنے والے نجیبہ آپا کے والد نے بعد از مرگ بذریعہ خواب ایک سندیسہ بھیجا کہ تم جو صدقہ و خیرات کرتے ہو اس کا اجر مجھے حساب سے کچھ زیادہ ہی ملتا ہے۔۔مگر عقل و دانش رکھنے والے جانے بغیر مانتے نہیں اور مل جانے پر راضی نہیں ہوتے نجیبہ بھی اک زمانے میں بڑبولی ہونے کے ساتھ ساتھ عقل کے محدود سمندر کی پیراک تھی سو”مفتو مفتی” مل جانے پر بھی چین نہ آیا تو”راگنی کی کھوج میں”دھندلکے راستوں پر انجانی منزلوں کی راہی ہوئی، ایک بات کا مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ راگنی کی کھوج سے پہلے نجیبہ آپا سرگم کے پلٹے لگانا سیکھ چکی تھیں۔
انکار و اقرار
تسلیم و رضا
اور لا محدود سوال ہی شاید ان کی منزل کا تعین کرنے میں مدد گار ثابت ہوۓ مگر راستے میں پڑنے والے پُر پیچ خموں سے بھی تو ان کا واسطہ پڑنا تھا اور ابھی تو سفر ایف۔سکس کے گھر میں اصغری کی مرغیوں کے پاس لوہے کی کرسی پر بیٹھے ہوۓ ایک بابے کی”تلاش”کی دھجیاں جوڑنے سے شروع ہوا تھا۔

اور یاد رکھو کہ حقیقت افسانے سے عجیب ہوتی ہے سلسلہ روز و شب میں لامتناہی اتفاقات سے صرف خدا کے منتخب لوگوں کو ہی واسطہ پڑتا ہے ،اتفاقات جب انجام سے دو چار کرتے ہیں اور انسان گزرے ہوۓ برسوں کے بارے سوچتا ہے تو سواۓ حیرانی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا مگر خدا وند کریم کے لطف و کرم پر یقین کچھ اس منزل پر حد سے سَوا ہوتا ہے۔

نجیبہ کی زندگی عارف صاحب کے سنگ بسر ہونی تھی بسلسلہ ملازمت اسلام آباد منتقل ہونا پڑا اور جس عورت نے نجیبہ کو گھٹی پلائی تھی اتفاق سے اس کے مکان میں بطور کرایہ دار مقیم ہوئیں، کئی  ماہ بعد مالک مکان کو معلوم ہوا کہ نجیبہ آپا نہ صرف ممتاز مفتی کو جانتی ہیں بلکہ مفتی جی کو ہر وقت سوالوں کی زد میں رکھ کر اپنے لیے کسی اور منزل کی کھوج میں مگن راستے کا تعین کرنے میں گُم ہیں ،ممتاز مفتی جلد ملک عدم روانہ ہوۓ اور نجیبہ براستہ پیر کاکی تاڑ مجازی وجود کو یکسر فراموش کر کے حقیقت کے طلسم ہوشربا میں کھو جانا چاہتی تھی۔

مگر مجاز کی پُرفریب غلام گردشوں سے نکلنے کے لیے  تو کئی  کشٹ اٹھانا پڑتے ہیں۔ نفی ذات کے وظیفے کا قدم قدم پر رات دن ورد کرنا پڑتا ہے اور”میں”کے سبز طوطے کو انکار کے آہنی پنجرے میں قید کر کے چابی اس کنویں میں پھینکنی پڑتی ہے جہاں سے نہ اپنا عکس نظر آۓ اور نہ ہی پلٹ کر اپنی آواز کی بازگشت سنائی دے ،اتفاق سے نجیبہ آپا کو ان تمام باتوں کا گیان عارف صاحب کی پُر تاثیر خاموشی سے اس وقت حاصل ہوا جب وہ عارف سے پوچھے بغیر جہلم کے پروفیسر کی بیعت ہو گئیں ۔
سننے والوں کو خاموشی کی آواز کئی  رازوں سے ہمکنار کر دیتی ہے۔
خاموشی کی  گونج جان لیوا بھی ثابت ہوتی اور وہ زمین و آسمان کی طنابیں بھی کھینچ سکتی ہے۔
مفتی صاحب کی گھاٹ سے نجیبہ آپا نے پانی دن دیہاڑے پیا تھا ،سو قلم اور ہومیوپیتھی سے لگاؤ نے تشنگی کو اور بڑھایا ،دیا رِ وحانیت اور ہومیوپیتھی کا آپس میں کچھ تعلق خاص محسوس ہوتا ہے
ایک حادثے سے اتفاقات کے سلسلے کی کڑی ٹوٹنے کی بجاۓ مزید مضبوط ہو جاتی ہے، جب عارف صاحب کے دفتر کی گاڑی اسلام آباد میں قاضی احمد سعید کی گاڑی سے جاٹکراتی ہے گاڑیوں کو پڑنے والےچِب(ڈینٹ)کون شمار کرے، مگر نجیبہ کے سارے بل آنے والے برسوں میں قاضی صاحب کے مطب میں دواؤں کی پڑیاں باندھنے کے بہانے نکلنے تھے۔ موجود سے زیادہ کی طلب ہو تو اندر اٹھنے والا  طلاطم سمندر سے بھی زیادہ وسیع ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس مطب کے کرتا دھرتا سمیت تمام مددگار ہومیوپیتھی کے علاج کے علاوہ درد دل کی دوا بھی رکھتے تھے، جس کا درس انہیں مرشد درانی صاحب نے خدمت خلق کی صورت دیا ،نجیبہ کے علاوہ اس مطب کے سب خدمتگار درانی صاحب کے حلقہ بگوش اور آپس میں پیر بھائی تھے وہ ہر وقت سرکار قبلہ درانی صاحب کی باتیں کرتے دور بہت دور کسی پہاڑ کی چوٹی پر اپنی بسائی ہوئی قادر آباد نامی بستی میں وہ ابدی نیند سو رہے تھے، مگر نجیبہ آپا  ادھر جا نے  والے ہر قافلے کے ہاتھ صاحب مزار کو رقعہ بھیجنا نہ بھولتی، ماننے اور جاننے کے حصار سے نکالنے کے لیے  صاحب مزار بھی جواب سے نوازنے لگے ،اب ماننے کے علاوہ نجیبہ آپا کے پاس کوئی اور راستہ ہی نہ تھا، منطق و عقل کے سب لال و گہر بے قیمت ہوۓ ،سوال کرنے سے پہلے جواب ملنے لگے”حیات قادر آباد” نامی کتاب سے رجوع اور کسی اور سمت سے اٹھتی ہوئی خوشبو قادر آباد کا حاصل سفر تھا ،سکوت میں راگنی آلاپنے والے نے پہلے دل چھلکایا پھر نجیبہ کی آنکھیں بھر آئیں، پرندوں نے مست ہو کر شور مچانا شروع کیا راگ کی کیفیت سے درخت جھومنے لگے ،ایک کچا گولر نجیبہ آپا کی جھولی میں آن گرا ،یہ اشارہ تھا کہ حاضری قبول ہوئی ،نجیبہ کی بے چین روح کو قرار آیا ،نجیبہ نے اب تک وہ گولر سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply