ہر برائی کا علاج قانون نہیں ہے ۔۔ حفیظ نعمانی

مودی سرکار تین طلاق کے خلاف اس لئے قانون بنا رہی ہے کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ سپریم کورٹ کے طلاق  ثلاثہ  کو  ختم  کرنے کے بعد بھی بعض مسلمانوں نے تین طلاق دے دی اس لئے اب قانون کے ذریعہ طلاق دینے والے کو سزا اور جرمانہ لیا جائے۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس کے بعد تین طلاق کوئی نہیں دے گا۔ جہیز کی وباء ہندو سماج میں اتنی خطرناک ہے کہ اس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں جلا دی گئیں، زہر دے کر یا گلا گھونٹ کر ماردی گئیں یا خودکشی کرنے پر مجبور کردی گئیں۔
حکومت نے آخرکار جہیز مخالف قانون بنایا جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہوسکتا ہے کانگریس حکومت اور اس کے بعد مودی سرکار کو کوئی خبر ایسی ملی ہو کہ  مسلم  یا ہندو  سماج میں جہیز بند ہوگیا اور اب کوئی سسرال میں کسی دولہن  سے یہ نہیں کہتا کہ تم لائی کیا ہو؟ لیکن ہر ٹی وی اور ہر اخبار گواہ ہے کہ آج بھی وہ جہیز نہ لانے یا کم لانے کے جرم میں گلے میں ساڑھی  باندھ  کر  لٹکنے کی خبریں وہ سنا رہے اور چھاپ رہے ہیں۔ حکومت ذرا جائزہ لے کر دیکھے کہ وہ کون سا جرم ہے جس کے لئے پہلے کم سزا تھی اور بعد میں سزا سخت اور سخت کی گئی تو وہ جرم ختم ہوگیا؟ سب سے سخت سزا قتل کی ہے یعنی سزائے موت تو کیا اب قتل بند ہوگئے؟ جائزہ لے کر دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ ہر سال اس جرم میں اضافہ ہی ہورہا ہے تو پھر وہ طلاق جو ہزاروں میں کہیں ایک ہوجاتی ہے اس کے لئے شریعت میں مداخلت کرنا ایسی کیا مجبوری ہے؟
مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایک ہنگامی میٹنگ تین دن پہلے لکھنؤ میں ہوئی اس وقت کچھ ایسی خبریں تھیں کہ 26 دسمبر کو حکومت کی طرف سے بل پیش کردیا جائے گا لیکن بل نہیں پیش ہوا۔ بورڈ کی طرف سے ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی صاحب وزیراعظم سے ملیں گے لیکن ملاقات شاید اس لئے نہ ہوسکی ہو کہ وزیراعظم شری نریندر مودی اپنی گجرات کی چھینی جھپٹی خوشی کو چار چاند لگاکر بڑی کرنے میں مصروف ہیں اور جیسے اترپردیش میں آدتیہ ناتھ یوگی کی تاج پوشی میں 80 کروڑ روپئے خرچ کیے تھے ایسے ہی 85 کروڑ روپے  گجرات کے وزیر اعلیٰ کی تاج پوشی میں پھونک رہے ہوں۔
بورڈ کے صدر کا ایک خط آج اخباروں میں چھپا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تین طلاق کو تعزیری جرم نہ بنایا جائے خط میں کہا گیا ہے کہ طلاق دینے والے کو تین سال کی سزا دینا عورت اور اس کے بچوں کو نفقہ سے محروم کردینا ہے۔ اس لئے اس بل کو عورت کے مفاد میں ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ موجودہ حکومت میں جتنے بھی وزیر ہیں وہ دو کو چھوڑکر غیرمسلم ہیں اور جو دو مسلمان ہیں وہ اس ماحول کے پروردہ ہیں کہ رجسٹر میں لکھنے سے زیادہ اسلام کی باریکیوں سے واقف نہیں ہیں۔ شریعت کے مسائل کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے یا تو شریعت کی تعلیم حاصل کی ہو یا ایسے ماحول میں عمر گذاری ہو جہاں یہ بھی دیکھا جاتا ہو کہ وضو کے بعد ایڑی سوکھی تو نہیں رہ گئی اور نماز کی جماعت میں وہ جب شریک ہوا تو رکعت پوری ہوچکی تھی یا آدھی ہوئی تھی اور دین و دنیا کے دوسرے مسائل سے بھی واقف ہو۔
ملک میں لاکھوں کسان کہیں سوکھے سے کہیں سیلاب سے کہیں فصل کی اتنی قیمت بھی نہ ملنے سے خودکشی کررہے ہیں کہ وہ آلو لادکر لاتے ہیں اور سڑکوں پر پھینک کر چلے جاتے ہیں یا رو رہے ہیں کہ کھاد نہیں ملتا یا رو رہے ہیں کہ قرض سے کمر ٹوٹی جارہی ہے لاکھوں بے روزگار ہیں جو روزگار کیلئے سڑکوں پر شور مچا رہے ہیں گجرات کے الیکشن میں کپاس اور مونگ پھلی کے کسان دونوں کو شکایت تھی کہ حکومت نے وعدہ پورا نہیں کیا۔ اترپردیش میں ہزاروں وہ ٹیچر جنہیں اکھلیش نے عارضی طور پر رکھ لیا تھا وہ احتجاج کررہے ہیں وہ عورتیں جو معمولی تنخواہ پر اپنا پورا دن حکومت کا حکم بجا لانے پر خرچ کرتی ہیں وہ لکھنؤ کی سڑکیں جام کررہی ہیں۔ غرض کہ ملک میں کروڑوں بے چین ہیں لیکن حکومت کے کانوں میں روئی بھری ہوئی ہے لیکن دو لڑکیاں برقع پوش اگر کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ہمیں طلاق دے دی تو سب کام چھوڑکر حکومت سزا جرمانہ اور ضمانت پر پابندی کے بل کو ضروری سمجھتی ہے۔
ملک میں دو کروڑ یا اس سے کم یا زیادہ ایسی مسلمان عورتیں ہوں گی جو اس عمر میں ہوں جس میں عام طور پر طلاق کے واقعات ہوتے ہیں۔ اور ان میں لاکھوں وہ ہوں گی جو ایک ایک روٹی کے لئے پریشان ہیں حکومت کو آج تک توفیق نہیں ہوئی کہ ان کی روزی کا انتظام کرے لیکن وہ جو کروڑ  میں دس پندرہ ایسی ہیں جن کو طلاق دے دی وہ حکومت کی سگی اولاد ہیں اور حکومت تلوار لے کر طلاق دینے والے کی گردن مارنے پر تیار ہے۔ حکومت جہیز مخالف بل اور اس پر عمل نہ کرنے کی سزا سب کچھ بتا چکی ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج بھی جہیز نہ لانے یا کم لانے کی سزا میں لگ بھگ سات ہزار لڑکیاں موت کا شکار ہوتی ہیں اور ہزاروں مقدمے عدالتوں میں زیرسماعت ہیں جس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قانون کسی بیماری کا علاج نہیں ہے۔ اور علاج صرف دماغ میں یہ بسانا ہے کہ جہاں تک ہوسکے شادی کے بعد خوبصورت زندگی گذاری جائے۔
بشکریہ مضامین!

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply