نور جہاں کی حقیقت اور فیض کو گالی۔۔۔معاذ بن محمود

ڈاکٹر عامر نے حال ہی میں حقائق سے بھرپور ایک شاندار کالم لکھا۔ کالم کا عنوان تھا “مشت زنی کے نقصانات اور ان کی حقیقت”۔ اس سے پہلے سعدیہ کامران مابعد طبعیات اور حقائق کی مباشرت میں صفحات سیاہ کر چکی ہیں۔ ان دونوں خبروں کا بادی النظر میں کوئی تعلق نہیں بنتا لیکن دراصل یہ دونوں مسائل چند ماہ قبل پیش آنے والے اس واقعے سے متصل ہیں جس میں ایک بیوی نے بے وفائی کی بنیاد پہ شوہر کا آلۂ حرام جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ ابھی ہم اس اندوہناک واقعہ سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ معلوم ہوا کہ گوجرانوالہ کے گاؤں میں ایک گدھی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ حد ہے اور بے حد ہے۔

یہ تمام واقعات نظروں کے سامنے گزریں تو ذہن گویا سن سا ہونے لگتا ہے۔ معاشرہ کس جانب چلا جا رہا ہے۔ قبائلی رسم و روایات وٹے سٹے اور ونی سے ہوتے ہوئے وہیل مچھلی سے جنسی سکون حاصل کرنے تک پہنچ چکے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں ایسے واقعات صرف گاؤں دیہات میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں بھی تواتر سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ قضیہ یہ ہے کہ وہیل مچھلی سے جنسی سکون کا مسئلہ حقیقی مانا جائے تو ڈاکٹر عامر کا پورا کالم صفر سے ضرب دینا پڑے گا کیونکہ مچھلی پکڑنا بہرحال اتنا مشکل کام نہیں۔ گاؤں کی وہیل مچھلی سے شہر کے ایک مولانا صاحب کا قصہ یاد آتا ہے کہ جن کے سامنے ایک گناہگار بلی سے بدکاری کا اعتراف کر بیٹھا۔ اپنی حرکت پر نادم یہ خطا کا پتلا مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ تفصیل سے بیان کر بیٹھا۔ اگلے دن مولوی صاحب ہانپتے کانپتے بلی باز کو فون کر کے استفسار کرنے لگے، “باقی سب تو ٹھیک ہے یہ بتاؤ کہ بلی پکڑی کیسے تھی؟”ُ۔ خدا کی قسم میں وہ مولانا نہیں لیکن سوال بہرحال ذہن میں ہے کہ ناہنجاروں نے وہیل پکڑی کیسے تھی؟ کہیں پڑھا تھا ویسے کہ وہیل سے دور رہیں ورنہ پھلویری ہونے کا خطرہ ہے۔ آجکل اک بندے کو دیکھ کر نجانے کیوں یقین ہو چلا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انعام رانا کہتا ہے کہ “سوچتا ہوں فیض کو گالیاں دے کر مکالمے کا آغاز کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں شاعر کے مقام کا تعین ہو سکے”۔ میرا خیال ہے جیسے ہی ہم نے یہ حرکت شروع کی ہمارے “دوست” اور ریٹنگ کے بھاؤ بذریعہ “پیڈ سبسکرپشن” تازہ رکھنے والے احباب نورجہاں سے واپس ثانیہ کی چڈی اور سنی لیونی کے بریزر کے پیچھے چھپ جائیں گے۔ ایسے میں میرا مشورہ یہی ہے کہ خود ساختہ بابا دانا بننے کی بجائے انعام رانا بننے میں عافیت جانیے اور اپنے کام میں مگن رہیے کیونکہ اصل سرمایہ عزت ہے۔ ٹریفک کا کیا ہے، وہ تو ثانیہ کی چڈی، سنی لیونی کی تصویر اور نور جہاں کے نام پہ گند چھاپنے سے بھی آجاتی ہے۔ حاشر بن ارشاد کا مشورہ کسی اور کو تھا جو شاید کبھی نا مانے۔ مگر انعام رانا، آپ لازمی اسکو مانئیے اور ریڈرز ڈائجسٹ بنئیے، ہسلر یا چترالی میگزین نہیں۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply