بلتستان کی قدیم نسوانی شاعری/سلمیٰ اعوان

ہمالیہ اور قراقرم کے عظیم سلسلہ ہائے کوہ کے علاقے جو کل کے بلورستان اور آج کے بلتستان کے نام سے جانے جاتے ہیں۔اِن دلکش وادیوں میں سفر کرتے ہوئے حیرت زدہ تھی کہ اِن پر ہیبت، دشوار گزار راستوں اور جدید علم اور روشنی سے محرومی کے باوجود علاقے کے لوگ کتنے مہذب، پُر امن اور فنکار ہیں۔ ان کے محلات اور قلعوں کے تعمیری انداز، موسیقی، شاعری اور معاشرتی آداب حیران کن تھے۔یہ علاقہ تبت ، لداخ ، کشمیر اور ایران کے تہذیبی اثرات کا مرہون منت ہے۔ سب سے زیادہ تعجب خیز بات میرے لئے اُن قدیم بلتی عورتوں کی شاعری تھی جو میں نے اپنے اسفار کے دوران جناب غلام وزیر مہدی مرحوم، جناب عباس کاظمی اور بہت سے دیگر لوگوں سے سنی اورمختلف کتابوں سے پڑھی۔ یہ لوک شاعری اُن کے اپنے ماحول ، اپنے جذبات، اپنے معاشرتی رویوں کے تحت ہوئی جوشاید شاعری کے مروجہ قاعدے کلیوں کے معیار پر پوری نہ اترتی ہو۔ مگر ان میں اُس فطری سوچ، دکھ ، احساس اور جمالیاتی لطافت کی جھلک ضرورنمایاں ہے۔ جو یہ بتاتی ہے کہ ذہانت اور فن خدا کی دین ہے اور اس کی یہ بانٹ ہر جگہ ہوتی ہے۔صر ف نارسائی درمیان میں حائل ہو کراُسے محدود کر دیتی ہے۔ بہت بار جی چاہا تھا کہ اپنے ملک کے اِس دور افتادہ حصے کی اُن گمنام عورتوں سے اُردو ادب کے عام قاری کو روشناس کراؤں کہ وہ جانیں کہ تاریخ ، فنون لطیفہ، اساطیری ولوک کہانیاں اور لوک شاعری کیسے کسی قوم اور کسی علاقے کی وسیبی پہچان بننے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

تو لیجیے لداخ کے راجہ کی بیٹی کے جذبات سے آگاہ ہوں کہ جسے بلتستان کا نامور حکمران علی شیر خان انچن لداخ کو فتح کر کے بیاہ کر اپنے ساتھ سکردو لایا۔ کچھ عرصہ بعد کسی تلخی پر کسی ناراضگی پر بادشاہ نے لداخی ملکہ کو طلاق دے دی۔ سکردو سے جاتے ہوئے اُس نے اپنے جذبات کو جو زبان دی۔ وہ دیکھیے۔
سینکڑوں انسانوں اور گھوڑوں کے جلو میں
میری ڈولی سکردو میں اُتری تھی
اب واپس بھیج رہے ہیں
کوئی گھوڑا بھی نہیں اور کوئی بندہ بھی نہیں
تب میرے قدموں کے نیچے فیروزے کی سلیں بچھی تھیں
اور اب مجھے ننگے پاؤں بھیج رہے ہیں

بروشال کے علاقے کا ایک جنگی قیدی کسی فتح کے نتیجے میں سکردو لایا گیا۔ اس نے بلتی خاتون سے شادی کی۔ بہت سالوں بعد کہیں اُسے اپنے آبائی جگہ جانے کی ہڑک اٹھی۔ اس نے اظہار کیا۔ بیوی نے اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ اپنے جذبات کو شعروں میں بھی ڈھالا۔
بروشال کے پہاڑی بیروں کے پھول تو ابھی کھِلے نہیں
تم بروشال کیسے جاؤ گے؟
تمہارے سونے سے بھرے تھیلے کو میں کیا کروں گی؟
وہ میری راتوں کا ساتھی تو نہیں بن سکتا
تمہارے چاندی کے سکوں کا میں کیا کروں گی؟
وہ میرے دنوں کا ساتھی تو نہیں بن سکتا

وادی خپلو کی ایک خاتون کو کسی دوسری وادی میں جاکررہنا پڑا وہ اپنے محبوب تراب نقپو کی یاد میں جو اظہار کرتی ہے۔ اِسے ملاحظہ کریں۔
مجھے گھر کی چھت سے ابھرتاسورج نظر آتا ہے
یہ سورج نہیں میرے تراب نقپو کا دمکتا بدن ہے
چٹانوں سے گزر کر آنے والے مار خور
تراب نقپو کی کوئی خبر ہو تو مجھے بتا
اگر تو اس کی کوئی خبر مجھے سنائے
تو تو ایک سے ہزار ہو جائے

ایک دور افتادہ وادی کی ایک بہت خوبصورت اور نیک عورت جس کا شوہر دوسری عورتوں کے پیچھے بھاگتا رہتاتھا۔اپنے دل کے درد کوشعروں کی زبان دیتی ۔ ذرا اُس کی فکر کی گہرائی دیکھیں۔
جب پھول کھِلتے ہیں تو نیچے سے اوپر کھِلتے چلے جاتے ہیں
جب پھول مرجھاتے ہیں تو اوپر سے نیچے مرجھاتے چلے جاتے ہیں
ہر مرد کا شباب تین ادوار تک ہوتا ہے
ہر عورت کا شباب تین بچے جننے تک ہوتا ہے
خوبصورت پھول بھی تین صبح تک کھِلتے ہیں
طاقتور گھوڑے بھی تین گیم کھیل سکتے ہیں
گھر بار نہ ہونے کا احساس شام کو ہوتا ہے
اولاد نہ ہونے کا احساس بڑھاپے میں ہوتا ہے

کرگل اور کشمیر کے درمیانی علاقے کے ایک راجہ خاندان کی خاتو ن کی شادی کسی دور دراز علاقے میں ہوئی۔ اُسے اپنے میکے کی یاد آتی تو اپنے جذبات کا اظہار اپنی دوست سے کرتی۔
اے میری سہیلی میں پیدا تو کرگل میں ہوئی
لیکن زانسکر کا محل میرا مقدر کر دیا گیا
اونچا ، بہت ہی اونچا، خوبصورت بہت ہی خوبصورت
میں اِس بلندی اور خوبصورتی کا کیا کروں؟
جہاں سے مجھے کچھ نظر نہ آئے۔

کہتے ہیں سرمیک کے ایک گاؤں کی ایک خوبصورت لڑکی کی ماں اس کے بچپن میں مر گئی۔ سوتیلی ماں اُس سے بہت برا سلوک کر تی تھی۔لڑکی جوان ہوئی تو شادی کے پیغام آنے لگے۔ماں رکاوٹیں کھڑی کرنے لگی۔ شادی نہ ہوئی۔ جوانی بڑھاپے میں ڈھلنے لگی تو اس نے اپنے جذبات کو اشعار کا رنگ دیا۔
میری سرخ ڈوروں والی آنکھیں
باپ کی اس گھٹیا بستی میں بے نور ہوتی جا رہی ہیں
میری یہ گھنی اور لمبی زلفیں جھڑتی جار ہی ہیں
میرے موتیوں کی لڑی جیسے دانت نیلے ہوتے جا رہے ہیں
میرا سفیدے اور چیڑ کی طرح کا جسم گھلتا جا رہا ہے
میری جوانی کو رولنے والی میری ماں
خدا تجھے عبرت ناک سزا دے

بلتستان کے مقپون خاندان کا ایک راجہ اپنے ایک مصاحب کاظم سے ناراض ہوگیا۔ راجہ نے اُسے روندو کی جیل میں ڈال دیا۔ کاظم کی خوبصورت بیوی کو شوہر سے بہت محبت تھی۔ وہ شوہر سے ملنے روندو چل پڑی۔ طویل سفر میں اب جو گریا زاری شاعر ی کی صورت ہوئی۔ ذرا نمونہ دیکھیں۔
طویل راتیں،جدائی کی یہ طویل راتیں
میں پگلی اس رات کے تین حصے کرتی ہوں
رات کا پہلا حصہ تو پیدا کرنے والے کی عبادت کے لئے
دوسرا حصہ چودہ معصومین کی یاد میں وقف کرتی ہوں
تیسرے حصے میں کاظم شیر کے ساتھ بغل گیری میں گزارتی ہوں
پر صبح کو دیکھتی ہوں کہ یہ کاظم تو نہیں تھا
میرے گھٹنے تھے جو میرے سینے سے لگے ہوئے تھے

شیلے سوک سکردو کی ایک دوشیزہ تھی جسے ایک نوجوان سے محبت ہوگئی۔ محبت کا راز فاش ہوگیا ۔ والدین اور رشتہ داروں نے تادیبی کاروائی کرنے کاپروگرام بنایا۔ شیلے سوک کو
خبر ہوگئی ۔ اس کے اشعار ذرا دیکھئے۔
میں افواہیں سن رہی ہوں ، میرے باپ بھائی میری پیٹائی کرنے و الے ہیں
اے میری جان یہ لڑکی کسی مارپیٹ سے نہیں ڈرتی
اسے اگر ڈر ہے تو صرف تیر ی جدائی کا
اے میری جان تو جان لے
کہ میں تیری پیٹائی سے قبل ہی
تجھے ساتھ لے کر برگے گھاٹی کے پار بھاگ جاؤں گی
واضح رہے کہ برگے سکردو اور دیوسائی کے درمیان ایک گھاٹی ہے جسے برگے کہتے ہیں۔

دور افتادہ کسی وادی میں بیاہ کر آنے والی ایک لڑکی ایک طویل عرصے تک میکے نہ جاسکنے کے کرب کو کیسے لفظوں کا پیرہن پہناتی ہے ۔ کیسے شوہر کو واسطے دیتی ہے۔
اے میرے عالی مرتبت راجہ
مجھے میرے میکے بھیج کہ میں اُداس ہوں
اگر آپ ایسا کریں گے
تویہ مسلمانوں کی مسجد میں چراغ جلانے جیسا عمل ہوگا

Advertisements
julia rana solicitors

مزے کی بات کہ وہ اس عمل کو کہیں بدھوں کی مذہبی رسم ‘‘ مانے کی دیوار’’ بنانے سے جوڑتی ہے۔ کہیں وہ اُن ہواؤں ، اُن کبوتروں اور اُن مسافروں کو خوش قسمت سمجھتی ہے۔ جو اس کے میکے کے محل کی کھڑکیوں سے ٹکراتے، جھروکوں پر اُترتے اور محل کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ ایک بے حد خوبصورت اثر انگیز اور احساسات سے بھرا ہوا جذباتی اظہاریہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply