اللہ کاعذاب یا تیسری عالمی جنگ۔۔راؤ شاہد محمود

دسمبر 2019میں چائنہ کے شہر ووہان مین ظاہر ہونے والا اپنی نوعیت کا انوکھا وائرس، جس نے چائنہ سمیت دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں متاثرین اور ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ آسٹریلیا سے امریکہ تک سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کی پوری زمین اس وائرس کے حملوں کا شکار ہو چکی ہے۔ آج 23 مارچ 2020 تک 192 ممالک کرونا کی زد میں ہیں۔ ایک نہ نظر آنے والا حملہ آورجومنہ ناک کان اور آنکھ کے ذریعے ایکدوسرے میں منتقل ہو رہا ہے۔ اب تک کی ریسرچ کے مطابق بچاؤ کا واحد حل صرف احتیاط اور گوشہ نشینی ہے۔

دنیا نے بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین ہونے میں صدیاں لگا دیں اور رنگین ہوتے ہی ایسے رنگ دکھائےکہ گرگٹ کی طرح رنگ ہی بدلنے لگی۔ سگے سوتیلے ، اپنے پرائے، دوست رشتہ دار سب ہی حیران رہ گئے۔5جی سے زیادہ سپیڈ پر چلنے والی دنیا اس تیز پنکھے کی طرح چلنے لگی کہ اسکی تیزی کے باعث پروں کو کاؤنٹ کرنا نا ممکن ہوتا ہے۔ اس تیزی نے جہاں دوسرے براعظم میں بیٹھے انسان کو ہمارے سامنے لاکھڑا کیا وہیں ہمارے اپنے بہت دور چلے گئے۔ ساتھ رہنے والے مہینوں ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھتے۔ اتنی مصروف زندگی جس میں دن کے 24گھنٹے کم لگتے ہیں۔ ایسے میں ہم سب کچھ بھول گئے اور ایسے بھولے کہ احساس نام کی چیز ہی دنیا سے کہیں گم ہو گئی۔ اس موذی کرونا نے جیسے ہی دنیا کو جھنجھوڑا سب جیسے صبح کے بھولے شام کو گھر لوٹ آنے کےمحاورے کی طرح اپنے اپنے گھروں اور پرانی روٹین پر لوٹنے لگے۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک رک گئے۔ زندگی تھم گئی وہ جو کہتے تھے کہ ہماری تیز زندگی میں کہ ایک سیکنڈ بھی لیٹ ہونا ناممکن ہے گھروں میں جا کر لیٹ گئے۔ چالیس گھروں تک دور والے ہمسائے سمٹ کر صرف ہم دیوار اور سامنے والے گھر تک محدود ہو گئے اور پھر ہمسائے تو کیا گھر والے بھی پرائے ہو گئے۔ایک وقت تھا جب کڑی،ساگ ،بریانی جیسے سالن گھر میں بنتے تو ہمسایوں کو کھانے میں شامل کیے بغیر کھانا ناممکن تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب کسی کی میز پرپر 10-10 ڈشز تھیں اور کئی ہمسائے بھوکے سو رہے تھے۔

کرونا کے بارے میں مختلف حلقے مختلف نظریات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یہ بیماری جانوروں سےانسانوں میں منتقل ہوئی یا اسے کسی بم کی طرح اسے لیبارٹری میں بنایا گیا۔ اسی طرح مختلف لوگ اس کے مختلف علاج بتا رہے ہیں۔ کوئی ٹوٹکے بتا رہا ہے تو کوئی دعا اور آیت پڑھنے کا کہہ رہا ہے۔ ایک سورت جو   مجھے وٹس ایپ کے ذریعے موصول ہوئی۔ بھیجنے والے کا موقف تھا کہ اس کے بابا جی کو نبی پاک ﷺ نے خواب میں عنایت کی ہے اور فرمایا ہے کہ کرونا کی وبا سے بچنے کیلئے اس کو کثرت سے پڑھیں ۔ جب میں نے اس سورت کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا میرے رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہو گئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کیونکہ نبی پاکﷺ اس سورت کو کرونا کے علاج کے علاوہ اس کا مفہوم سمجھ کر عمل کرنے کیلئے بھی کہہ رہے ہوں گے۔ پوری دنیا کی نفسا نفسی دیکھ کر  شاید ہمارا رب ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ اور اس نے ہمیں ہلکا سا جھنجھوڑا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور ہم نے اپنی خود ساختہ مصروف زندگی میں خدا کےکنبے کو پس پشت ڈال دیا اور وہ فاقوں اور بیماریوں سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر رہا ہے۔

بابا جی نے جو سورت خواب میں بتائی وہ سورہ ماعون ہے۔ آپ بھی ذرا ترجمے پر غور کیجیے۔
پہلی آیت : بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے۔
دوسری آیت : یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے
تیسری آیت : اور فقیر کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا
چوتھی آیت :ان نمازیوں کیلئے افسوس
پانچویں آیت :جو اپنی نماز سے غافل ہیں
چھٹی آیت :جو ریا کاری کرتے ہیں
ساتویں آیت : اور عام استعمال کی چیزیں ادھار نہیں دیتے
اس ترجمے کو غور سے پڑھنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ بابا جی کو خواب میں نبی پاک ﷺکی زیارت کے دوران یہ سورت اس لیے بتائی گئی کہ اب بھی سنبھل جاؤ۔

ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ اگر یہ وبا قیامت کا آغاز ہو اور چند مہینوں یا سالوں میں پوری دنیا کو یہ بیماری اپنی لپیٹ میں لے کر مار دے ۔ تو کس کام کی ہماری دولت اور کہاں کا ہمارا سٹیٹس۔ کام آئے گا توصرف غریب کو کھلایا ہوا ایک نوالہ اور خدا کے آگے کیا گیا سجدہ اورنماز، روز جزا کوجھٹلانے والے غیرمسلم ممالک ہوں یا نماز اور یتیم کے حقوق ادا نہ کرنے والے مسلمان ممالک کے باشندے۔ خدا اپنی مخلوق کو دھتکارنے ریاکاری کرنے اور عام استعمال کی چیزوں کو اپنی مخلوق سے دور کرنے پر ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔ قادر مطلق اشارہ دے رہا ہے کہ اب بھی واپس آجاؤ۔ آج کل کے حالات میں پوری دنیا کے ہر انسان کو تنہائی میں بیٹھنے اور بہت سا وقت صرف اپنے ساتھ گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ خدا نے ہمیں کیوں تخلیق کیا ہماری پیدائش کا مقصد کیا تھا۔ کیوں خدا نے مخلوق کو اپنا کنبہ کہا اور پوری دنیا کو ایک وائرس سے کیوں جھنھوڑ رہا ہے۔ کرونا ایک ایسی بیماری ہے جو امیروں سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ جن کے پاس مال زیادہ ہے ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے اور ان سے حساب بھی زیادہ لیا جائے گا۔ حلال اور حرام کے فرق کو واضح طور پر سمجھنا ہو گا۔ اس عارضی دنیا نے سیکس فری سوسائٹی بنانے کی کوشش میں ایڈز پیدا کیا اور حلال اور حرام میں فرق ختم کر کے مہلک کرونا کو جنم دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امیر اپنا مال غریبوں پر خرچ کریں اور غریب اپنی ضروریات پوری کر کے مال کو آگے بڑھا دیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق بھوک اور افلاس سے روزانہ 8ہزار بچے موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگوں کے پاس اپنی دولت کا حساب رکھنے کا بھی وقت نہیں۔ اور وہ اللہ کے دیے ہوئے مال پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ لیکن کرونا کی وجہ سے آج مصروف ترین آدمی اور روزگار کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے والے گھر میں چھپ کر بیٹھنے کو مجبور ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے تھوڑے عذاب کو بڑا سمجھیں خدا کے دیے ہوئے مال کو اسکی امانت سمجھیں اور امانت کو اس کے حق دار تک پہنچا دیں۔ اگر آپکو دیا ہوا اللہ کا مال غریبوں تک نہیں پہنچ رہا تو خیانت ہےاور وہ بھی خدا کے ساتھ۔ ۔ خدا کے عذاب سے بچنا ہے تو اس کے احکامات کی عملداری کرنا ہوگی۔ ورنہ آخرت کی اس کھیتی دنیا میں ہم جو بو رہے ہیں روز محشر آخر کاٹنا تو پڑے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply