بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی/عمران حیدر تھہیم

زیرِ نظر تصویر پاکستانی نوجوان شہروز کاشف کی ہے جس میں مذکور ہمارے قومی پرچم کو تھامے دُنیا کی دسویں بُلند ترین چوٹی Annapurna-I کی سمٹ پر کھڑا ہے۔
اس تصویر کو مینشن کرنے کی وجہ تفصیل کے ساتھ مَیں اسی تحریر میں آگے چل کر پیش کرونگا، فی الحال مَیں تمہید کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ پاکستان میں سیاحت و کوہ پیمائی میں دلچسپی رکھنے والے جتنے بھی گرانقدر قارئین مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں، مجھ سے بنفسِ نفیس مِل چُکے ہیں اور اِس موضوع پر گفتگو کر چُکے ہیں وہ یہ بات اچھّی طرح جانتے ہیں کہ میری اس موضوع پر لکھی گئی تحریروں کے اصل ہدف شخصیات نہیں بلکہ نظریات ہیں۔ اگر شخصیات کو ہی موضوع بنانا ہو تو اشرف امان سے لیکر ساجد سدپارہ تک سبھی ہمارے مُلک کا نام روشن کرنے اور ہیرو کہلوانے کے دعویدار ہیں لیکن ہماری کوہ پیمائی کی صنعت انحطاط پذیر ہے اور اس سے مُنسلک افراد بیروزگاری کا شکار ہیں۔ میری تنقیدی تحریروں کو پڑھنے کے بعد بہت سے لوگ مسائل پر ایک علمی اور عملی مباحث شروع کرنے کی بجائے اُلٹا مجھ پر ہی تنقید شروع کر دیتے ہیں حالانکہ مَیں نہ تو شعبہ سیاحت و کوہ پیمائی کا اسٹیک ہولڈر ہوں، نہ کوئی ٹور آپریٹر ہوں اور نہ ہی فنڈ بٹورنے والا کوئی نوسرباز کوہ پیما ہوں۔ مَیں پہاڑوں سے مُحبّت رکھنے والا ایک عام پاکستانی ہوں اور صرف اپنے شوق کی غرض سے کوہ پیمائی کی تاریخ کا باریک بِینی سے مطالعہ کرنے والا ایک طالبعلم ہوں۔ مجھ پر جو اعتراضات اُٹھائے جاتے ہیں اُن میں سب سے پہلی بات یہ کی جاتی ہے کہ مَیں نے تو کوئی 6000 میٹر کا پہاڑ بھی سر نہیں کر رکھا اس لیے مجھے کیا معلوم کہ 8000 میٹر بُلند پہاڑ سر کرنے والے کتنے بڑے لیجنڈز ہوتے ہیں۔ میرا اُن کےلیے جواب یہی ہے کہ اگر ہمالین ڈیٹا بیس کا ریکارڈ مُرتّب کرنے والی خاتون Elizabeth Hawley، تمام آٹھ ہزاری پہاڑوں کو سر کرنے والوں کی تصدیق کرنے والا جرمن ریسرچر Eberhard Jurgalsky اور اُسکی ریسرچ ٹیم، دُنیا بھر کے ماضی و حال کے کوہ پیماؤں کی پیدائش و اموات اور اُنکی سمٹس کا ریکارڈ مُرتّب کرنے والا Bob A Schelfhout Aubertijn اور مشہورِ زمانہ ExplorersWeb کی لکھاری خواتین Angela Benavides اور Kris Annapurna بھی کوئی 5000 میٹر کی چوٹی سر کیے بغیر بھی قابلِ تقلید ہیں اور رائے دے سکتے ہیں تو ایک ہم وطن پاکستانی کی تحریروں سے آپکو موت کیوں پڑتی ہے؟

اگر آپ نے میری رائے کو ردّ کرنا ہے تو یہ کام کردار کُشی کرکے نہیں بلکہ دلیل کے ساتھ کریں۔

دوسرا اعتراض یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ مَیں شاید ان آٹھ ہزاری چوٹیاں سر کرنے والوں سے حسد رکھتا ہوں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کیسا حسد ہے جو مجھے شہروز کاشف، ثمینہ بیگ اور نائلہ کیانی سے ہے لیکن ساجد سدپارہ، سرباز خان اور عبدل جوشی سے نہیں ہے۔ ؟مرزا علی سے ہے لیکن رحمت اللہ بیگ سے نہیں۔؟ حاسد کا حسد selective تو نہیں ہوتا۔ حاسد تو سب سے حسد کرتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جتنے بھی نام نہاد ہیروز بنے ہوئے ہیں یہ لوگ دراصل پاکستان میں کوہ پیمائی کی صنعت جو کہ پہلے ہی زوال پذیر ہے اُس کی ترقی کےلیے زہرِ قاتل ہیں۔ یاد رکھیے گا کہ جو کوئی بھی غیرتربیت یافتہ، شہرت پسند، نرگسیت کا شکار اور سپانسرز سے فنڈ بٹور کر ہیروازم کا ڈھونگ رچانے والے نوسربازوں کے خلاف آگہی و شعور کا عَلَم بُلند کرے گا یہ مافیا اُن کے خلاف ہوگا۔ ان نام نہاد ہیروز میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے جو کسی بھی آٹھ ہزاری چوٹی تو دُور کی بات سات ہزاری پر بھی independent climb کر سکے۔ کیونکہ ان لوگوں کے پاس advanced mountaineering training تو کیا ہونی basic skill بھی نہیں ہے۔

اب آتے ہیں زیرِ نظر تصویر کی طرف۔۔۔
اس تصویر کو بیان کرنے والوں نے پاکستان کا نام روشن کرنا بیان کیا ہے۔ جبکہ میری نظر میں تو اسی تصویر کے اندر کوہ پیمائی کے میدان میں پاکستان کے تاریک مُستقبل کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ یہ تصویر واضح کر رہی ہے کہ پاکستان کے مُستقبل کے کوہ پیما اگر ایسے ہی غیرتربیت یافتہ رہ کر 14 آٹھ ہزاری چوٹیوں پر نیپالیوں کے incubators کے ذریعے پہنچتے رہیں گے تو کبھی بھی اس میدان میں پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔

مَیں نے اس تصویر پر سبز رنگ کے تین دائرے لگا کر کچھ چیزوں کی نشاندہی کی ہے۔ اصل کلائمبرز اور کوہ پیمائی کی تربیت دینے والے انسٹرکٹرز تو میری اس نشاندہی کو بخوبی سمجھ گئے ہونگے تاہم عام شائقین اور قارئین کےلیے مَیں وضاحت کردیتا ہوں۔

1. اگر آپ غور فرمائیں تو جو ice-axe زمین میں گاڑا گیا ہے اُس کی دونوں سائیڈوں پر سُرخ رنگ کا cover تاحال لگا ہوا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کلائمبر نے اسے استعمال کرنے کی بجائے jumar استعمال کرکے کلائمب مُکمّل کی ہے، یعنی شرپاز کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن پر jumaring کرکے سمٹ پر پہنچنا۔

2. کوہ پیمائی کی تربیت کے انتہائی بُنیادی skills میں یہ بات سکھائی جاتی ہے کہ آپ چاہے سمٹ پر بھی پہنچ جائیں تو آپ نے safety measures کو نہیں چھوڑنا اور ہر حال میں خود کو anchor کرنا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو اس تصویر میں کلائمبر anchored نہیں ہے۔ اگر خُدانخواستہ سلپ ہو کر فال ہو تو anchor نہ ہونے کی وجہ سے فری فال ہوگی اور پھر ice-axe ہاتھ میں نہ ہونے کی وجہ سے self arrest کی تکنیک بھی استعمال نہیں ہو سکے گی۔

3. جس انداز میں jumar کو hook-up کیا گیا ہے یہ بھی غیرتربیت یافتہ ہونے کی نشانی ہے۔ کوہ پیمائی میں کبھی بھی jumar سامنے hang نہیں کی جاتی۔

4. شہروز نے سمٹ مصنوعی آکسیجن کے استعمال کے ساتھ کی لیکن تصویر کےلیے وہ سارا سسٹم اور ماسک وغیرہ چُھپا لیے تاکہ آکسیجن کے استعمال کا تاثر نہ ملے۔ کیونکہ جب آپ نیپالیوں کی mountaineering hatchery کے کسی incubator سے نکال کر پیسوں کے بل بوتے پر سمٹ پر چڑھا دیے جاتے ہیں تو گلوری اور فیک ہیروازم کےلیے یہ سب کچھ ضروری ہو جاتا ہے۔

اس سمٹ فوٹو کے بعد اگر descent کی بات کریں تو شہروز اور نائلہ کیانی کو کیمپ 4 سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے نیچے لایا گیا ہے۔ جس جگہ سے آپ کسی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے نیچے لا سکتے ہیں تو لازم بات ہے اُس جگہ تک آپ کسی کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچا بھی سکتے ہیں۔ اسی Annapurna پہاڑ پر پچھلے سال نیپالیوں نے تقریباً 7000 میٹر پر فکسڈ لائن کےلیے رسّیاں اور ایڈیشنل سامان مع شرپاز کو بھی اُتارا تھا۔ یہ کیسی کوہ پیمائی ہے کہ جہاں مُشکل پیش آئی وہاں ہیلی کاپٹر منگوا لیا اور نیچے آ کر ہیرو ہیرو کھیلنا شروع کر دیا؟

مَیں شاید یہ تحریر نہ لکھتا اگر میری نظر سے محترم Kamal Haider صاحب کی پوسٹ نہ گُزرتی جس پر صاحب موصوف نے مدح سرائی فرمائی ہوئی تھی اور شہروز کو پاکستان کے ہیرو کے طور پر پیش کیا ہوا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مَیں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ میرا اختلاف کسی شہروز، کسی نائلہ، کسی ثمینہ یا کسی کمال حیدر سے نہیں ہے، یہ تو شخصیات ہیں ان سے کیا اختلاف کرنا۔ اصل اختلاف تو اُس سوچ سے ہے جو چاپلوسی، سستی شہرت اور ڈرامے بازی سے عبارت ہے۔ جس کی بدولت پاکستان میں سیاحت اور کوہ پیمائی کو غیرتربیت یافتہ لوگوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔اس سے چُھٹکارہ  پانے کےلیے آگاہی بھی پیدا کرنا ہوگی اور آواز بھی بُلند کرنا ہوگی جس کےلیے اس شعبہ کے اسٹیک ہولڈرز کو میدانِ عمل میں کُودنا پڑے گا۔ ورنہ یہاں صرف “نام نہاد لیجنڈز” اور “فیک ہیروز” ہی پیدا ہونگے اس شُعبے کا کوئی حقیقی خدمتگار پیدا نہ ہو سکے گا (خاکم بہ دہن)
ایک ہی تو حادثہ ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply