مری بائیکاٹ ،سب سوات مالم جبہ چلو۔۔۔۔اے وسیم خٹک

بہت عرصہ کے بعد سوات دوستوں کے پرزور اصرار اور بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال کر سوات کا رخ کیا ـ. کہ برف دیکھنی ہے اور دوستوں کا اصرار تھا کہ مری کا بائیکاٹ کرکے سوات کے علاقوں میں سیاحت کرنی ہے اور یوں ہم نے سوات کی راہ لی وہاں جا کر احساس ہوا کہ پرا ئی جنگ نے اس علاقے کو پچاس ساٹھ سال پیچھے دھکیل دیا ہے ـ لوگوں کے چہروں پر اب وہ خوف کے سائے تو نہیں مگر جن حالات سے وہ دوچار ہوئے تھے وہی تھکن اب بھی اُن کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے ـ سوات نے کچھ ترقی کی تھی مگر طالبان اور آرمی کے آپریشنوں کے باعث یہ علاقہ خون آلود رہاـ۔ لوگوں نے رخت سفر باندھا ، متاثرین بنے، تو کاروبار بھی ٹھپ ہوکر اور شہروں میں منتقل ہواـ جس میں کچھ کاروبار تو واپس اپنی نہج پر  آچکا ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے ابھی تک کاروبار کو وہیں  رکھا ہے ـ جہاں انہوں نے منتقل کیا ہے اب وہ لوگ صرف اپنے گھروں میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں

ـ وہاں کے مقامی لوگوں کے مطابق نہ ہم آرمی کے ساتھ تھے نہ طالبان کے ساتھ، پھر بھی ہم نے کافی نقصان اُٹھایا ہے ـ جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی ـ جس طرح اور کاروبار تباہ ہوئے ہیں اُس میں ہوٹلنگ کا کاروبار نمایاں ہے تو ساتھ میں سیاحت کا کاروبار بھی تباہی سے دوچار ہوچکا ہے جس میں اگر طالبان کا ہاتھ ہے تو دوسری جانب یہاں کے سیاسی زعماء بھی اس میں مکمل طور پر شامل ہیں ـ عوامی نیشنل پارٹی کے واجد علی خان یہاں سے کامیاب ہوئے تھے تو انہوں نے پورے محکمہ جنگلات کو اپنے خزانے کے اندر ڈال دیاـ انہوں نے عوام کے فلاحی منصوبے پس پشت رکھے تھے حتی کہ عوامی نیشنل پارٹی کے اور لیڈران کی طرح موصوف نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور مقامی لوگوں یعنی اپنے ووٹروں سے ملازمتوں کی مد میں ایزی لوڈ وصول کیا ـ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو مراد سعید سمیت ڈاکٹر حیدر علی نے بھی خالی منصوبوں کے افتتاحوں پر اکتفا کیا اور سوات کے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھاـ جب آپ مالم جبہ کی سڑک پر روانہ ہوجاتے ہیں تو فضاگٹ میں امیرمقام کا بہترین ہوٹل سامنے آتا ہے اور پھر ایک دوسری جگہ پر دوسرا ہوٹل بھی مالم جبہ کے قریب امیر مقام  کے ہی سامنے آتاہے جس کے قریب موصوف کا اپنا گھر بھی ہےـ ہوٹل اور گھر دیکھ کر عام عوام اور سیاسی زعماء میں فرق سامنے آجاتا ہے ـ

سڑک کا حال دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ آپس کی سیاسی چپقلش کس طرح علاقے کے عوام کو نقصان پہنچاتی ہے ـ منگلور سے مالم جبہ تک کا فاصلہ 35کلومیٹر ہے اور اس سڑک کی تعمیر کے لئے پاکستان تحریک انصاف کی پارٹی کے پہلے دور میں 61کروڑ روپے منظور ہوئے تھے ـ جس پر کام تیزی سے شروع بھی ہوگیا مگر پھر درمیان میں کام بند کردیا گیاـ جس کی بنیادی وجہ مذکورہ سڑک کا ٹھیکہ امیر مقام کی کنسٹرکشن کمپنی کا تھاـ جو تحریک انصاف والوں کوکھٹک گیاـ اُس وقت کے وزیر اور موجودہ دور کے وزیراعلی کے مطابق جس کمپنی کے ذمہ سڑک کی تعمیر تھی وہ اس کے لئے مشہور ہے کہ وہ کام کو زیادہ کرکے درمیان میں چھوڑدیتی ہے ـ یعنی کہ مذکورہ سڑک کے لئے کمپنی نے حد سے زیادہ کٹائی کی ہے ـ اس لئے تاحال ان 61کروڑ  کا کام نظر نہیں آرہا ہے ـ جبکہ نئی حکومت بھی آگئی ہے اور اب وزیر اعلی بھی سوات کا ہے ـ جس سے امید تو کی جاسکتی ہے کہ وہ اس روڈ سمیت دیگر ترقیاتی کاموں کا جال بچھائے مگر وہاں کے لوگ وزیراعلی سے کچھ خاص امید نہیں رکھتے ـ جس کی وجہ پچھلی حکومت میں محمود خان کا ایک محکمے کا وزیر ہونا تھاـ جس کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر رہی ـ مالم جبہ چونکہ ہماری منزل مقصود تھی لہذا مالم جبہ کے لئے گاڑی سوات سے بک کی اور ڈرائیور جاتے ہوئے ہر گاڑی کے بارے میں کہتا کہ یہ نان کسٹم پیڈ گاڑی ہےـ میں حیران تھا کہ ڈرائیور کیسے پہچان لیتا ہے شاید یہ کسٹم اور ایکسائز میں رہ چکا ہو مگر ایسی کوئی بات نہیں تھی وہ سعودی عرب میں سترہ سال گزار چکے تھےـ جب بہت سوچ بچار کے بعد کچھ معلوم نہ ہوسکاـ تو پوچھا  آپ کو ہر گاڑی کا کس طرح پتہ ہے کہ یہ نان کسٹم پیڈ گاڑی ہے ـ وہ ہنسے اور گویا ہوئے کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ پر ncpلکھا ہوتا ہےـ تب تجسس ختم ہواـ اور مجھے نان کسٹم پیڈ گاڑی کی پہچان ہوگئی کیونکہ سوات میں زیادہ گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہیں ـ یہاں ہر بندے کے پاس گاڑی ہے جس کووہ اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے ـ اُن کو یہ پتہ ہے کہ کہاں تک ان کی حد ہے وہ وہاں سے آگے نہیں جاتے

ـ مالم جبہ جاتے ہوئے ساری گاڑیاں نان کسٹم پیڈ تھیں حتی کی جس میں ہم سفر کر رہے تھے وہ بھی نان کسٹم پیڈ تھی ـ جس کو کئی دفعہ قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ مل سکی ـ اس پر سارے ناظمین اکھٹے ہوئے اور لائحہ عمل طے کیا کہ ان گاڑیوں سے جو ریونیو آئے گا وہ سوات کے لوگوں پر خرچ ہوگا مگر ایسا نہ ہوسکاـ اب حکومت نے ایک دفعہ پھر انہیں ٹیکس کے دائرے میں لانے کا سوچا ہے مگر یہ کام مشکل لگتا ہے کیونکہ علاقے میں اکثریتی گاڑیاں نان کسٹم پیٍڈ ہیں جس میں ایک گاڑی بابو جی بھی ہے ـ جو زیادہ تر لوگوں کے پاس ہے ـ جس کو روزمرہ کے کاموں کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے ـ انہی سوچوں میں غلطاں گاڑی مالم جبہ کی ٹوٹی پھوٹی سڑک پر رواں تھی حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوا جا رہا تھا کیونکہ مالم جبہ صرف فطرت کے حسین مناظر سے ہی مالامال خطہ نہیں ہے یہاں 2 ہزار سال کے پرانے تاریخی آثار بھی ملے ہیں ان میں بدھا کے مجسمے اور دیگر تاریخی آثار بھی موجود ہیں۔ یہاں سے ملنے والے بدھ مت کی تہذیب کے آثار سکندر اعظم سے بھی پرانے ہیں۔ مالم جبہ سے ملنے والے تاریخی آثار اور ٹیکسلا سے ملنے والے تاریخی آثار میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی تہذیب سے ہے۔ وہاں پر بہت خوبصورت ٹریکنگ ٹریک بھی ہیں ان میں سے ایک ٹریک گھوربند سے شانگلہ وادی کو جاتا ہے۔ یہ بل کھاتا ہوا راستہ 18 کلومیٹر تک طویل ہے، دوسرا راستہ وادی سابونی کو جاتا ہے جس کے ساتھ ساتھ سیب، آڑو اور چیڑ کے باغات ہیں۔
اگر کہا جائے کہ وادی سوات میں مالم جبہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ مالم جبہ سے کھڑے ہو کر پوری وادی اور اس کے خوبصوت مناظر کا نظارہ کیاجا سکتا ہے جہاں پر وادی کا حسن سیاحوں کیلئے طلسماتی کشش رکھتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

مالم جبّہ میں سیاح زیادہ تر تر موسم سرما میں آتے ہیں جہاں وہ برف کے گولے بنا کر ان سے کھیلتے ہیں اور برف کے مجسمے بناتے ہیں
مالم جبّہ کی ایک اور خصوصیت وہاں کے لوگ ہیں جو بہت زیادہ مہمان نواز ہوتے ہیں۔ وہ سیاحوں کی ہر طریقے سے مدد کرتے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی کا کوئی جواب نہیں، وہ سیاحوں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں ـ اگر تاریخی نقطہ نظر سے دیکھیں تو مالم جبہ قراقرم ہائی وے سے ذرا ہٹ کر ہے۔ یہ پشاور سے صرف 2 گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ پشاور سے مالم جبہ کو جائیں تو راستے میں عظیم سلسلہ کوہ ہندوکش اور قراقرم کے سیاہ پہاڑ استقبال کرتے ہیں۔ راستے میں بل کھاتی ندیاں، سرسبز وادیاں اور چیڑ کے درخت ہمیں ایک عجیب دنیا میں لے جاتے ہیں۔ سوات جنت نظیر ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر اس جنت کے راستے کوٹھیک کرنے کی اب حکومت کی ذمہ داری ہے اگر حکومتی زعماء ذرا سا کشت کر لیں تو کشمیر کا چکر لگائیں اور دیکھیں کہ وہاں حکومت نے سیاحوں کے لئے کس طرح انتظامات کئے ہیں ـ تب ویسے انتظامات یہاں بھی کئے جائیں کیونکہ سوات کی سیاحت اور ہوٹلنگ سے بہت زیادہ ریونیو آسکتا ہے ـ خالی ایک جگہ مالم جبہ روزانہ ایک ہزار سے زیادہ لوگ سیاحت کے لئے آتے ہیں ـ اس طرح دیگر سیاحتی مقامات بھی ہیں جہاں بھی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد خوبصورتی سے محذوذ ہوتے ہیں اور علاقے کی خوبصورتی اپنی آنکھوں میں بسا کر واپس دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہوجاتے ہیں ـ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply