گولڈن ایج (26) ۔ تھیوری کی طاقت/وہاراامباکر

آئن سٹائن کی تھیوری آف سپیشل ریلیٹیویٹی بتاتی ہے کہ دو آبزرور جو ایک دوسرے کے مقابلے میں حرکت میں ہیں، اس بات پر اتفاق نہیں رکھیں گے کہ دو واقعات کے درمیان وقت اور فاصلہ کتنا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے مقابلے میں زیادہ درست نہیں ہے۔ ایبسولیوٹ لمبائی اور وقت کے تصورات اس سے ختم ہو جاتے ہیں۔ اسے سپیس اور ٹائم کو یکجا کر کے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اور اس کی ریاضی کی مساوات کے لئے ہمیں Lorentz transformations کی مدد لینا پڑتی ہے جنہوں نے یہ مساوات آئن سٹائن کے کام سے ایک سال پہلے لکھیں۔ تھیوری آف ریلیٹویٹی کا بہت سا گراؤنڈ ورک آئن سٹائن سے پہلے ہو چکا تھا۔ 1890 کی دہائی میں جارج فٹزجیرالڈ نے مشہور تجربے میں روشنی کے سفر کی وضاحت کی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

لوریٹز اور فٹزجیرالڈ کے پاس درست مساوات تھیں اور درست جواب تھے لیکن ایک مسئلہ تھا۔ وہ ایتھر کے تصور کو ترک نہیں کر سکے تھے۔ ان کے خیال کے مطابق روشنی کی لہریں خلا میں ایتھر پر سفر کرتی ہیں۔ آئن سٹائن کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سادہ postulate دیا تھا جس نے فزکس کی درست تعبیر کر دی تھی۔ “جس طرح پانی کی لہروں کو سفر کرنے کیلئے پانی، بطور میڈیم، درکار ہے، ویسے روشنی کو سفر کرنے کے لئے میڈیم درکار ہے”۔ آئن سٹائن نے اس کو غیرضروری قرار دیا تھا۔ اور اس دلیرانہ تصور کے بعد چیزوں کی وضاحت کی جا سکتی تھی۔ نہ صرف روشنی خلا میں سفر کر سکتی تھی بلکہ یہ بھی کہ اس کی رفتار ہر ایک کو ایک ہی جتنی نظر آئے گی، خواہ وہ کسی بھی فریم آف ریفرنس میں ہو۔
اس اہم تصور اور بعد میں آنے والے خیالات نے سپیس اور ٹائم کو یکجا کر دیا اور ہمیں دنیا کی گہری سمجھ دی۔ لورینٹز اور فٹزجیرالڈ کی ریاضی درست نکلی، لیکن آئن سٹائن کی تشریح درست تھی۔
اور یہ ہمیں اچھی تشریح کی اہمیت کا بتاتا ہے۔ محض ریاضی اور اس کا درستگی کا ہونا کافی نہیں۔ سائنسی تھیوری کی تشریح ہمیں سچ سے قریب لے جاتی ہے۔ اس کے بغیر ہم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار سکتے ہیں، خواہ تھیوری مشاہدات اور تجربات سے جتنی بھی مطابقت رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی ہم کوپرنیکس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ مراغہ مکتب کی ریاضی درست تھی لیکن کاپرنیکس نے درست تشریح فراہم کی۔ اس سے پہلے سورج کی مرکزیت کی کاسمولوجی کی ریاضی ناکافی تھی یا ریاضی کی تھیوری کو غلط فزیکل سسٹم پر استعمال کیا گیا تھا۔ کاپرنیکس نے انہیں اکٹھا کیا تھا۔ اور سورج کی مرکزیت کے فلسفانہ ماڈل کو ریاضی کی تھیوری سے ہم آہنگ کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کہانی کو ختم سے پہلے ایک آخری تبصرہ۔ کاپرنیکس نے باقاعدہ سائنسی تھیوری نہیں دی تھی۔ یہ ایک مفروضاتی تصور پر بنا ریاضیاتی ماڈل تھا۔ ان کے پاس گریویٹی کا قانون نہیں تھا۔ ان کے پاس وہ تصورات اور آلات کے ہتھیار موجود نہیں تھے جس کی بنا پر اسے درست کہا جا سکتا۔
اور ان کی کائنات کی تصویر بھی درست نہیں تھی۔ ان کے ماڈل میں سورج کائنات کر مرکز تھا اور ستارے بھی اس کے گرد گردش کرتے تھے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ ہمارا سورج کائنات کا مرکز نہیں۔ لیکن بھلا کوپرنیکس کیسے اس کا پتا لگا سکتے تھے؟ آئن سٹائن کی تھیوری کی بنیاد پر بنی کاسمولوجی کے لئے آلات اور خیالات کے سفر میں صدیاں درکار تھیں۔
اور یہ وجہ تھی کہ کاپرنیکس بجا طور پر اپنا ماڈل دینے سے جھجک رہے تھے۔
کاپرنیکس نے جس چیز کی درست وضاحت کی تھی، وہ صرف نظامِ شمسی کے اندر سورج کی پوزیشن تھی۔ ٹیلی سکوپ کے بغیر اس سے زیادہ آگے بڑھنا ممکن ہی نہ تھا۔
اس لئے کوپرنیکس کو مراغہ مکتب کا آخری آسٹرونومر کہنا زیادہ درست ہے۔ مراغہ انقلاب کے بعد اگلا انقلاب شروع کرنے کیلئے ٹیلی سکوپ اور پھر اس کے درست استعمال اور پھر درست تشریح کی ضرورت تھی۔
گلیلیو کے مشاہدات اور ان سے نکالے گئے نتائج وہ مقام تھا جب بالآخر کاپرنیکس کا ماڈل (اور ارسٹارکس کا بھی) درست ثابت ہوا تھا۔ اور اس نے اس سے اگلے انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply