وہ جو سجدے میں تھے اور پھر سر نہ اٹھا سکے۔۔۔۔عارف انیس

یہ ہو بہو فورٹ نائٹ والی وڈیو گیم کا منظر تھا جو اس وقت دنیا میں سب سے بڑا کریز ہے اور کروڑوں بچے دن رات کھیل رہے ہیں۔ فرسٹ پرسن ویو، جس میں گن کی نالی نظر آتی ہے، شست باندھنے والا آلا، لبلبی پر انگلی دبتی ہے اور بس چھپاک چھپاک۔موت بے آواز اپنے شکار کی جانب لپکتی ہے. دو ماہ پہلے ہی میں نے ایک گورے ماہر نفسیات کو سر پر دو ہتڑ مار کر بڑبڑاتے سنا تھا ‘ہم اپنے بچوں کو ان وڈیو گیمز کے ذریعے قاتل بنا رہے ہیں۔ وہ اسی طرح لوگوں کو شوٹ کرتے کسی دن کسی گھر یا سکول میں گھس جائیں گے اور لاشیں بچھا دیں گے’. امریکہ میں تو ہر دو چار ہفتے میں کوئی ایسی انہونی ہوجاتی ہے۔ اس کی بات آج نیوزی لینڈ میں درست نکلی۔ تاہم آج وہ مسجد میں گھسے اور پچاس سے زائد نمازیوں کو شہید کردیا، بالکل اسی گیم کی طرح، پچاک پچاک، بے آواز موت. جو براہ راست دنیا بھر میں نشر کی جارہی تھی۔

میرے ایک دوست نے جو اس مسجد میں موجود تھا، شئیر کیا ‘میں بنگلہ دیشی ٹیم کے ساتھ ہی مسجد میں داخل ہونے لگا کہ چیخوں کی آوازوں کے ساتھ لوگوں کو بھاگتے دیکھا اور ہم بھی دیوانہ وار بھاگے جب تک ہمارا سانس اکھڑ نہیں گیا۔

مغرب نے اپنی کتابوں، فلموں اور وڈیو گیمز میں پچھلے پندرہ سال میں ایک ہی دشمن ڈیزائن کیا ہے اور وہ ہیں مسلمان، سفید فام سپریمسٹ مسلمانوں کو بالکل اسی طرح چن چن کر مارنا چاہتے ہیں۔بھی مزید تفصیلات جانے بغیر میں پشین گوئی کر سکتا ہوں کہ قاتل سفید فام سپریمسٹ نکلیں گے اور غالباً ان کی عمریں 20 سال سے تیس سال کے درمیان میں ہوں گی۔ بلامبالغہ اس وقت لاکھوں سفید فام سپریمسٹ دنیا میں موجود ہیں اور دنیا کو مسلمانوں سے پاک کردینا چاہتے ہیں۔ تاہم اسلحہ ہر کنٹرول کی سخت پالیسی کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرپارہے.۔لیکن اگر کسی کسے ہاتھ میں گن آگئی تو آج کے لرزا دینے والے مناظر خدا نہ کرے کہیں اور بھی دیکھنے کو ملیں،

آج سے مغربی دنیا کے بڑے امتحان کا آغاز ہوگیا ہے. اللہ رکوع و سجود میں جانے والے سب احباب کو اپنی امان میں رکھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ نفرت جو گزشتہ دو عشروں سے مغربی میڈیا دن رات اپنے بچوں کو مسلمانوں سے متعلق فیڈ کر رہا تھا، کیا اب اس کے کاٹنے کا وقت آگیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

نیوزی لینڈ کے شہیدوں اور مکینوں کے لیے دعائیں!!!

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply