قرآن مجید پر غیر مسلم ناقدین کی طرف سے، قرآن مجید کی سند پر تین بنیادی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں ان سوالات کے جواب کا تجزیہ کیا جائے گا۔
پہلی تنقید یہ ہے کہ محمد ﷺ اگر دین کے ماخذ ہیں تو اس کی دلیل کیا ہے؟ مستند تاریخ کے مطابق محمدﷺ کی ذات انتہائی ایماندار، مخلص، عاجز اور نیک تھی۔ ان سے کسی غلطی کا صدور نہیں ہوتا تھا۔
اس کی ایک بہت بڑی دلیل خود قرآن مجید ہے کہ 14 سو سال گزرنے کے باوجود ادنیٰ درجے کا بھی تضاد نہیں پایا جاتا۔ یہی قرآن مجید ہے جو آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر نازل ہُوا۔ آپ کے بعد کوئی پیغمبر یا نبی نہیں آئے گا۔ قرآن مجید ارتقاء سے خالی ہے یہ کتاب جامد ہے۔ اس میں کسی قسم کا تضاد، ترمیم یا غلطی نہیں۔ یہ اعلیٰ عربی ادبی کلام ہے جو منظم صورت میں ہمارے پاس (مطلب مسلمانوں کے پاس) موجود ہے۔
رسول یا نبی کے علاوہ اس دنیا میں مستند تاریخ کے مطابق تمام لوگ کسی نہ کسی علمی و فکری ارتقاء سے گزرے ہیں اور ان کے کلام میں تضاد اور وقت کے ساتھ ساتھ معنویت میں کمی آتی گئی ہے ،جو وقت و حالات کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ سائنس کی دنیا ہو یا ادب کی ،ہر شخص کی فکر میں سائنسدان یا ادیب تنقید کرتے رہے ہیں ،یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن اس کے برعکس قرآن مجید کم و بیش 14 سو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود کسی بھی کمزوری کا شکار نہیں۔
دوسری تنقید یہ ہے کہ قرآن مجید کا اصل نسخہ کہاں ہے؟ قرآن مجید جب وحی کے ذریعے مکمل ہو گیا تو اس وقت کے صحابہ اور دوسرے لوگوں نے، جو لکھنا جانتے تھے لکھنا شروع کر دیا اور جو یاد کرنا جانتے تھے یاد کر لیا۔ اور اسی طرح اجماع و تواتر کے ساتھ تاریخ کو منتقل ہوتا گیا۔ قرآن مجید دنیا کی تمام کتابوں سے منفرد اس لحاظ سے ہے کہ اس وقت ہر کتاب کا نسخۂ ترتیب دیا جاتا ہے تاہم قرآن مجید بغیر نسخے کے اُمت میں شائع ہو گئی۔
اس وقت بھی مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کسی بھی لائبریری یا حافظ قرآن سے قرآن مجید کی تلاوت سن لیں یا کتاب پڑھ لیں کہیں بھی تضاد نہیں ،یہ دنیا کے لئے ایک بڑی خبر ہے کہ جس کتاب کا نسخہ نہیں لیکن وہ تضادات سے پاک ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں؟ انسان جس ماحول یا علم کا اسیر ہو جائے وہ اسی کے لحاظ سے ہر چیز کا جائزہ لیتا ہے۔ اس وقت ہر شخص کے ذہن میں یہی بات بیٹھی ہوئی ہے کہ کسی نہ کسی کتاب کا نسخۂ لازمی ہونا چاہیے لیکن میں عرض کر چکا قرآن مجید ایک منفرد کتاب ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ اس وقت ہر شخص کے کپڑے سِلے سلائے ہوتے ہیں لیکن اگر میں نے چادر کے دو کپڑے لپیٹ رکھے ہوں تو ہر شخص مجھ سے پوچھے کہ میں نے کپڑے کہاں سے سلائی کروائے تو میرا جواب یہی ہو گا کہ میرے کپڑے سلے ہوئے نہیں بلکہ چادر کے دو ٹکڑے لپیٹے ہوئے ہیں۔ یہی بات ہے کہ ہمارے نزدیک ہر کتاب کسی نہ کسی نسخہ میں موجود ہوتی ہے لیکن قرآن مجید ایسا ہی ہے جو درج بالا مثال سے سمجھائی گئی ہے۔
تیسری تنقید یہ ہے کہ قرآن مجید اگر مکمل ضابطہ حیات ہے تو پھر سیاسی و معاشی نظام اور بین الاقوامی قانون و اصول کیوں نہیں بتاتا؟
کیونکہ قرآن مجید ایک مذہبی کتاب ہے اس کا اصل موضوع توحید اور آخرت ہے۔ قرآن مجید موت کے مسئلے کو ایڈریس کرتا ہے۔ اسی کے گرد تمام چیزیں بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید پر ایسا سوال اٹھانا ایسا ہی ہے جیسے اگر میں معاشی مسائل کے حل کے لئے کسی ماہر معاشیات کی کتاب کا مطالعہ کی بجائے قانون کی کتاب کھول لوں۔ کیونکہ قرآن مجید کا اصل مدعا توحید اور آخرت ہے تو ساری بات اسی کے گرد گھومے گی۔ اس وقت دنیا میں کچھ مذہبی معاملات ہیں کچھ دنیاوی۔
قرآن مجید دنیا کے معاشی و سیاسی مسائل کے حل کے لئے نہیں آیا بلکہ اس کائنات، خدا اور موت کے بعد دوبارہ زندگی کے لئے خبردار کرنے آیا ہے باقی جو دنیاوی معاملات ہیں اس کے لئے خدا کی طرف سے دی گئی انسانی عقل ہی کافی ہے۔ قرآن مجید ان چیزوں کی معلومات فراہم کرنے آیا ہے جہاں انسانی عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ جہاں ممکن ہے وہاں اس کائنات کے پروردگار نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مثلاً اس وقت سیاسی معاملات، معاشرتی، سائنسی، قانونی، معاشی اور کئی اقسام کے علوم وجود میں آچکے ہیں۔
قرآن مجید انسان کی اخلاقی، روحانی، علمی، بدنی اور خوراک کی پاکیزگی کے لئے ایک گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے بہت سی غلطیاں ہمارے عظیم اہل علم سے بھی سرزد ہوئی ہیں جس میں علامہ اقبال اور مولانا مودودی جیسی شخصیات نے قرآن مجید کی روح سے سیاسی اسلام اور اقامت دین جیسی اصطلاحات ایجاد کیں۔ حالانکہ میرے نزدیک اسلام کا سیاست اور معیشت سے کوئی تعلق نہیں جہاں تک سود کا معاملہ ہے وہ بھی مال کی پاکیزگی بارے ایک تربیت فراہم کرتا ہے۔
یہ بنیادی غلطی قرآن مجید کے قانون اتمام حجت کو نہ سمجھنے سے ہوئی ہے جس میں محمدﷺ نے جزیرہ نما عرب میں حکومت کی لیکن یہ پیغمبر کے لئے خاص تھی اس کو حکومت الٰہیہ کا درجہ حاصل تھا۔ بعد کے خلفاء راشدین نے اپنے لئے حکومت الٰہیہ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ یہی بنیادی فرق ہے جس میں بڑے بڑے علما کرام اس قانون کو سمجھنے کے لئے ضعف کا شکار رہے۔ تاہم یہ سب علما کرام ہمارے ہیں، انسان سے غلطی سرزد ہونا کوئی بڑی بات نہیں ،دوسری جانب ہمیں ان کی دوسری علمی کاوشوں کی بھی تعریف کرنی چاہیے۔
دین کے بارے شناسائی پہلی بار میں نے مولانا مودودی کے شاگرد اور ان کے ہم خیال ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم سے ہی حاصل کی۔ ہم نے تین ذرائع علم سے فلسفہ اور تصوف کے ساتھ ساتھ آسمانی مذاہب کا جائزہ لیا لیکن میرے نزدیک قرآن مجید ان تینوں ذرائع علم پر پورا اُترتا ہے۔ اس وقت ذرائع علم تین ہی ہیں لیکن کسی بھی شخص کے لئے چوتھا ذریعہ علم قرآن مجید اس وقت ہی قابل قبول ہو گا جب وہ تینوں ذرائع علم سے قرآن مجید کو پرکھ لے۔ اس میں پرائمری اور سیکنڈری کی کیٹیگری ضروری نہیں بلکہ چاروں پرائمری کیٹیگری کی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ انسان دو آنکھوں سے کوئی تیسری آنکھ دریافت کر لے پھر اس تیسری آنکھ کا بھی دیکھنے کا حق ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں