سگمنڈ فرائیڈ/مبشر حسن

فرائیڈ کی پیدائش ہوئی 6 مئی 1856 عیسوی میں اور وفات ہوئی 23 ستمبر 1939 عیسوی ،ملک آسٹریا ( موجودہ چیک جمہوریہ )  سے اس کا تعلق تھا۔ان کا اہم کام خوابوں کی تعبیر (“Interpretation of Dreams” بتانا تھا۔

آسٹریائی نیورولوجسٹ اور تحلیلی نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ کو بجا طور پر اپنے دور کی مؤثرترین دانشوار شخصیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کی وضع کردہ تحلیلی نفسیات انسانی سائیکی کی تھیوری اس کے مسائل کا علاج اور ثقافت و معاشرے کی تعبیر کا ذریعہ بھی ہے۔ بار بار تنقید تردید کی کوششوں اور مخالف تھیوریز کے باوجودفرائیڈ کے نظریات کا اثر نفسیات کی حدود سے باہر نکل کر بہت دور دور تک جاری و ساری رہا اور اب بھی ہے۔ امریکی سوشیالوجسٹ فلپ ریف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر نفسیاتی انسان نے سیاسی مذہبی یا معاشی انسان کے طور پر سابق نظریات کو 20 ویں صدی کے غالب تصور خودی کے ساتھ تبدیل کیا تو اس میں فرائیڈ کے وژن کی طاقت اور اس کی چھوڑی ہوئی عقلی میرث کے غیر مختتم پن کا کچھ کم عمل دخل نہیں ۔‘‘ اسی لیے ہم نے’’ماہرنفسیات‘‘سگمنڈ فرائیڈ کوعظیم فلسفیوں کی اس فہرست میں شامل کیا ہے ۔

فرائیڈ 6 مئی 1856ء کو آسٹریائی سلطنت کے علاقے موراویا میں فریبرگ کے مقام پر پیدا ہوا لیکن ابھی وہ چار سال کا ہی تھا کہ خاندان ویانا منتقل ہو گیا جہاں فرائیڈ کو اپنی زندگی کے آخری برس تک رہنا اور کام کرنا تھا۔ 1937ء میں جب نازیوں نے آسٹریا کا الحاق کیا تو یہودی فرائیڈ کوانگلینڈ جانے کی اجازت دی گئی ۔

فرائیڈ کی دلچسپیوں کا دائرہ اور پروفیشنل ٹر ینگ بہت وسیع تھی ۔ اس نے ہمیشہ خودکو سب چیزوں سے بڑھ کر ایک سائنسدان خیال کیا جس کا مقصد انسانی علم کو وسعت دینا تھا۔ اسی مقصد کے تحت اس نے 1873ء میں ویانا یو نیورسٹی کے میڈیکل سکول میں داخلہ لیا۔ابتداء میں اس نے بیالوجی پر توجہ مرکوز کی اور چھ برس تک فزیالوجی میں تحقیق کرتا رہا۔ بعد میں نیورولوجی میں سپیشلائزیشن کی۔ فرائیڈ نے 1881ء میں میڈیکل ڈگری لی اور تذبذب کے ساتھ ویانا میں بطور ڈاکٹر کام کر نے پر رضامند ہو گیا ۔ 1886ء میں شادی کے بعد جلد ہی فرائیڈ نے نفسیاتی مسائل کے علاج کا ایک پرائیویٹ کلینک کھول لیا۔ کلینک میں آنے والے مریضوں نے ہی اسے اپنی آئندہ تھیوریز کا ابتدائی مواد مہیا کیا۔

1885-86ء کے دوران پیرس میں قیام کے دوران فرائیڈ کا تعارف ایک فرانسیسی نیورالوجسٹ Jean Charcot سے ہوا جو ہسٹیریا اور دیگر دماغی امراض کا علاج ہپنا ٹزم کے ذریعے کرتا تھا۔ فرائیڈ نے ویانا واپس آ کر خود بھی ہپناسس کو آزمایا مگر محسوس کیا کہ یہ علاج زیادہ دیر پا نہیں۔ تب اس نے اپنے ایک دوست جوزف بریوئر کا تجویز کردہ طریقہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ بریوئر کے ساتھ کام کرتے ہوئے فرائیڈ نے یہ نظر یہ تشکیل دیا کہ بہت سے نیوروس (اعصابی خلل ) کا مآخذ عمیق صدماتی تجربات میں تھا جو مریض کو ماضی میں ملے ہوتے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شعور کے دائرے سے باہر نکل جاتے تھے ۔ علاج کے لیے مریض کو وہ صدمات یاد دلا نا دانشورانہ اور جذباتی سطح پر انہیں دور کرنا اور نتیجتاً اعصابی وجوہ کو منانا ضروری تھا۔ اس تیکنیک کی وضاحت فرائیڈ اور بریوئر نے Studies in Hysteria” ( 1895ء) میں کی۔

تاہم جلد ہی بریوئر نے محسوس کیا کہ فرائیڈ جنسی مآخذوں پر بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے اور اس سے علیحدگی اختیار کر لی ۔فرائیڈ اکیلا ہی کام میں لگا رہا اور تحلیلی نفسیات کی تھیوری اور پریکٹس کو بہتر شکل دی۔ 1900ء میں اس نے’’ خوابوں کی تعبیر Interpretation of Dreams شائع کی جسے اس کا بہترین کام قرار دیا جاتا ہے۔
1901 ء میں Psychopathology of Every day Life “اور 1905ء میں۔
Three Essays on the Theory of Sensuality
شائع ہوئی۔ 1908ء میں انٹرنیشنل سائیکوانیلٹیکل کانگریس منعقد ہونے کے بعد ہی فرائیڈ اور اس کے کام کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ 1909ء میں اسے امریکہ کا لیکچر ٹور کرنے کی دعوت ملی ۔ یہ لیکچر 1916ء میں Five Lecturesn psycho analysis on کے طور پر منظر عام پر آئے ۔ تب فرائیڈ کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہونے لگا اور وہ اپنی زندگی کے آخر تک لکھتا رہا۔

فرائیڈ اپنی تحقیقات کے دوران اس بات کا قائل ہو گیا تھا کہ ( بالخصوص خواتین مریضوں میں ) تحت الشعور میں دبے ہوۓ زیادہ تر باعث تکلیف خیالات جنسی نوعیت کے تھے۔ اس نے اعصابی امراض کے علم الاسباب کو جنسی احساسات یا خواہش اور مخالف پابندیوں کے درمیان جدو جہد کے ساتھ مربوط کیا۔ فرائیڈ کی یہ’’ورائے نفسیات‘‘ جلد ہی ثقافتی سماجی ، آرٹسٹک مذہبی اور بشریاتی مظاہر کے متعلق وسیع وعریض قیاس آرائیوں کی بنیاد بن گئی ۔ اخذ کردہ نتائج”Beyond the Pleasure Principle”(1920ء)
اور”The Ego and the Id”( 1923ء ) کی صورت میں سامنے آئے ۔

ان کتابوں میں فرائیڈ نے لاشعور، قبل شعور اورشعور کی وضاحت کی اور Id ایگو اور سپر ایگو میں اس کی ساختیاتی کیٹگرائزیشن کے متعلق بتایا۔ اس کے مطابق Id نومولود میں تسکین کی قدیم ترین تحریکات مسرت کی خواہشات سے مغلوب امنگوں کا نام ہے۔ منطق کے قواعد سے آزاد حالات کے تقاضوں سے لا پروا اور بیرونی حقیقت کی مدافعت سے لاتعلق Id کا محرک بدنی جبلتیں ہیں ۔ مایوسی کے ناگزیر تجربے کے ذریعہ بچہ خودکو حقیقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا سیکھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہو نے والا ثانوی عمل ایگو (انا ) کی نشو ونما کرتا
ہے۔ا یگو Id پر غالب منبع مسرت سے متضاد منبع حقیقت ہے ۔ یہاں غیرتسکین شدہ خواہشات کی پیدا کردہ مایوسی سے نمٹنے کی کوشش میں خودضبطی سیکھی جاتی ہے۔ ایگو حقیقت کے ساتھ تنازعات کا حل نکالنے کے لیے defense mechanisms بناتی ہے ۔ضبط ( یا جذبات کو دبانا ) سب سے زیادہ اساسی نوعیت کا حامل ڈیفنس میکنزم ہے لیکن فرائیڈ نے دیگر کے متعلق بھی وضاحت کی مثلاً : ردعمل، علیحدگی تردید کجروی ۔

فرائیڈ کی تین رکنی کیٹگرائزیشن کا آخری رکن سپرایگو ( فوق الانا) ہے جو معاشرے کے اخلاقیات احکامات کو داخلی ذات کا حصہ بنانے کے ذریعہ تشکیل پاتی ہے۔ تشکیل کے اس عمل میں والدین کی ہدایات کا بہت عمل دخل ہے ۔سپرایگو ( جومحض جزو واشعور ہے ) میں موجود کچھ جارحانہ عناصر مستعار لینے کے ذریعہ اپنی کچھ تادیبی(Punishing) قوت حاصل کرتی ہے ۔ یہ جارحانہ عناصر داخلی ذات میں انا کے خلاف کھڑے ہو جاتے اور احساسات جرم پیدا کرتے ہیں ۔لیکن سپرایگو کا زیادہ تر حصہ سماجی دساتیر کو ذات کا حصہ بنا لینے پر ہی مشتمل ہے۔

در حقیقت فرائیڈ نے ذہنی افعال میں تبدیلیوں کی وضاحت فزیالوجیکل وجوہ کے ذریعہ کر نے کی کوششوں کو مسترد کیا۔ ساتھ ساتھ اس نے مادیت پسندانہ نظر میں دنیا سے مکمل انحراف کرتے ہوۓ ذہنی سرگرمی کا مطالعہ کرنے کے معروضی طریقہ ہائے کار کی بھی تردید کی اور ایک موضوعیت پسندانہ تھیوری بنائی۔ وہ ذہنی فعالیت کا تعلق خارجی مادی حالات اور ان کی وجوہ کے ساتھ نہیں جوڑ تا ۔ ذہنی فعالیت کو مادی عوامل کے پہلو بہ پہلو موجود ایک خودمختار چیز کے طور پر دیکھا گیا جس پر خصوصی نا قابلِ ادراک ورائے شعور نفسیاتی قوتیں حکمران ہیں ۔فرائیڈ تمام ذہنی صورتوں انسان کے تمام افعال نیز تاریخی واقعات اور سماجی مظا ہر کو بھی تحلیل نفسی کے ماتحت رکھتا، یعنی انہیں لاشعوری ( بالخصوص جنسی) تحریکات کے اظہار سے تعبیر کرتا ہے ۔ لہٰذا اس نے آئیڈیل لاشعور یا Id کو تاریخ انسانی اخلاقیات آرٹ سائنس، مذہب ریاست قانون اور جنگوں وغیرہ کی علت قرار دیا ۔

نیوفرائیڈئین مکتبہ فکر کے محققین کے ہور نائی‘ اے کارڈ مینز ایف الیگزینڈر اور ارک فرام نے فرائیڈ کے مرکزی فکری دھارے کو جوں کا توں اختیار کیا اور صرف انسانی زندگی کے تمام مظاہر کو جنسی امنگوں کے اظہار کے طور پر دیکھنے کے رجحان کو ہی مستر دکیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

فرائیڈ سے پہلے کے فلسفیوں نے انسانی شعور ادراک اور جذبات وتحریکات کے ماخذ بیان کرنے میں قیاسات اور الوہی مداخلتوں کو اہمیت دی۔ جبکہ فرائیڈ نے انسان کا مطالعہ معاشرتی کرداری اور جنسی حوالے سے کرتے ہوئے اسے ایک با قاعدہ سائنس کی شکل دی۔اگرچہ فرائیڈ کے نظریات تا حال زیر بحث ہیں لیکن اس نے انسانی سوچ کو ایک نئی نہج پر ڈالا اور اپنے عہد کی سائنسی تحقیقات کو انسان کے مطالعہ میں استعمال کیا ۔ اگر فلسفہ کا کام زندگی کو بیان کرنا اور سمجھنا ہے تو بلاشبہ فرائیڈ کا شارعظیم ترین فلسفیوں میں ہونا چاہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply